اکتوبر: بریسٹ کینسر سے آگاہی کا مہینہ

October 06, 2022

دُکھ بیماری زندگی کا حصہ ہیں، تاہم کچھ موذی بیماریاں ایسی ہیں جو بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ ایسی ہی موذی بیماریوں میں سے ایک بریسٹ کینسر بھی ہے، جو ترقی یافتہ اور ترقی پذیز ممالک کی خواتین میں ہونے والا ایک عام مرض ہے۔ تاہم، آگاہی نہ ہونے اور احتیاط نہ کرنے کے باعث کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میںاس موذی مرض کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ بریسٹ کینسر میں مبتلا اکثر خواتین میں ابتدائی مرحلے پر اس بیماری کا پتہ چلنے کے بارے میں شعور کی کمی اور صحت کی خدمات کی ناکافی سہولتیں یا فقدان دیر سے تشخیص کا سبب بنتی ہے۔

بین الاقوامی صورتِ حال

دنیا بھر میں خواتین کی 16فی صد آبادی بریسٹ کینسر میں مبتلا ہے۔ ہر سال یہ مرض تقریباً 20 لاکھ خواتین کو متاثر کرتا ہے، جن میں سے تقریباً 15فیصد خواتین اس موذی مرض کے سبب موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر9میں سے ایک خاتون بریسٹ سرطان کے خطرے سے دوچار ہے۔ ہر عورت میں اوسط عمر کے دوران بریسٹ کینسر کا خطرہ 12فیصد پایا جاتا ہے۔

آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو ایشیائی خواتین میں بریسٹ کینسر کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے۔ ملک کی ایک کروڑ سے زائد خواتین میں بریسٹ کینسر ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ عام طور پر یہ مرض ایسی خواتین میں کم پایا جاتا ہے، جو بچوں کو 2سال کی عمر تک دودھ پلاتی ہیں۔ اگر صحت عامہ کے مناسب پروگرام ترتیب دیے جائیں تو بریسٹ کینسر میں اضافےکو کم کیا جاسکتا ہے۔

بریسٹ کینسر کیسے ہوتا ہے؟

جسم کے پٹھے چھوٹے خلیوں سے مل کر بنتے ہیں اور یہی خلیے اگربےقابو انداز میں بڑھنا شروع ہو جائیں اور گلٹی بنا لیں،تو یہ مرض کینسر بن جاتا ہے۔ چھاتی میں بننے والی گلٹی (بریسٹ لمپس) کو پولی سسٹک یا فائبرو سسٹک کہا جاتا ہے۔ یہ سائز میں بڑھ بھی سکتی ہے اور اس کی جڑیں چھاتی میں پھیل سکتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں چھاتی میں تکلیف اور ساخت میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ مریض اور مرض کی نوعیت کے مطابق یہ علامات مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔

چھاتی کے اندر، باہر یا نیچے کی جانب زخم بڑھ کر بعض اوقات کینسر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کی شکایت25 فیصد خواتین کو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہو سکتی ہے، تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسی کئی گلٹیاں کینسر کا باعث نہیں ہوتیں اور اکثر غیر مضر ہوتی ہیں۔ تاہم، ان گلٹیوں کی موجودگی میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

بریسٹ کینسر عموماً خواتین میں ہوتا ہےلیکن مَردوں میں بھی اس کے خطرات پائے جاتے ہیں مگر ایسے کیسز بہت نایاب ہیں۔ یہ کینسر انفیکشن نہیں کرتا اور دوسروں میں منتقل نہیں ہوتا، لہٰذا بریسٹ کینسر یا کسی بھی دوسرے قسم کے کینسر سے متاثرہ مریض سے میل جول قائم رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور نا ہی اس حوالے سے متاثرہ مریض سے کوئی امتیازی سلوک روا رکھنا چاہیے۔

بریسٹ کینسر کی وجوہات

ذیل میں بیان کی گئی چند بنیادی باتیں بریسٹ کینسر کی وجہ بنتی ہیں۔

٭ خواتین میں ہارمونز کا غیر متوازن ہونا بریسٹ کینسر کا ایک سبب ہے۔

٭ جسم میں ایسٹروجن ہارمون کی زیادتی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔

٭ لڑکیوں کی تاخیر سے شادی یا زائد عمر میں بچے کی پیدائش ہونا۔ تاہم، جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں، ان میں بریسٹ کینسر کا امکان 4فیصد کم ہو جاتا ہے۔

٭ تقریباً 10فیصد بریسٹ کینسر جینیاتی نقائص کی وجہ سے ہوتاہے، ان نقائص کی حامل خواتین میں اس مرض کے 80فیصد امکانات ہوتے ہیں۔

٭ خواتین کا غیرصحت مندانہ طرزِ زندگی اور غیر متوازن خوراک لینا۔

بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

بریسٹ کینسر کی جلد تشخیص ہی اس مرض کو بڑھنے سے روکنے اور علاج کا ذریعہ بنتا ہے لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب اس مرض کے حوالے سے بنیادی آگاہی حاصل ہوگی۔ لہٰذا، خواتین کا خودتشخیصی عمل کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ انھیں پہلے گھر میں خود اپنا معائنہ کرنا چاہیے اور چھاتی میں کسی بھی قسم کی غیرمعمولی تبدیلی محسوس ہونے پر فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

اگر بریسٹ کینسر کا جلد پتہ چل جائے اور مناسب تشخیص اور علاج دستیاب ہوجائے تو اس بات کے قوی امکانات ہوتے ہیں کہ یہ بیماری ٹھیک ہوجائے۔ تاخیر سے پتہ چلنے کی صورت میںاکثر علاج معالجہ آپشن نہیں رہتا، ایسے معاملات میں تکلیف کی شدت کو کم کرنے کیلئے مریض کو دوا دی جاتی ہے۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بریسٹ کینسر کے لیے اسکریننگ ٹیسٹ 40 سال کی عمر میں شروع کیاجاتا ہے، تاہم سالانہ میموگرافی اور مرض کی بروقت تشخیص کے ذریعے اس مرض سے بچا جاسکتا ہے۔ معاشرے میں اس موذی مرض کے حوالے سے جتنی زیادہ آگہی ہوگی تو عین ممکن ہے کہ اس مرض سے ہونے والی اموات اور مرض کی شرح میں کمی آسکے۔

آگاہی کے مہینہ کی اہمیت

بریسٹ کینسر کے سدباب کے لیے دنیا بھر میں ہر سال ماہِ اکتوبر ’’بریسٹ کینسر سے آگاہی کا مہینہ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں پہلی بار بریسٹ کینسر سے متعلق عوامی شعور اُجاگر کرنے کے لیے ’پنک ربن‘ مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔ امریکا کے شہر نیویارک میں اس مہم کے تحت ہونے والی میراتھن دوڑ میں شریک خواتین نے ’پنک ربن‘ پہن کر دوڑ لگائی تھی۔ اس کے بعد نیو یارک میں ایک فلاحی ادارہ تشکیل دیا گیا، جس کا مقصد بریسٹ کینسر سے متعلق ہونے والی سائنسی تحقیقات اور عوامی سطح پر اس مرض کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے فنڈزاکٹھے کرنا تھا۔

یہ ادارہ ہر سال اس مرضکی آگاہی فراہم کرنے کے لیے ہم خیال لوگوں اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر پنک ربن موٹف استعمال کرتے ہوئے مہم چلاتا ہے۔ مہم میں حصہ لینے والے اسپانسرز کو بھی پنک ربن استعمال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور جمع کیے گئے فنڈز کو بریسٹ کینسر کی وجوہات، تشخیص ،علاج اور روک تھام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔