جنرل باجوہ اور تاریخ کا ترازو

November 25, 2022

ایک دور کا اختتام، ایک دور کا آغاز۔ جنرل عاصم منیر بن گئے آرمی چیف۔ گارنٹی، پالیسی تسلسل جاری رہے گا۔ وطنی تاریخ یہی کچھ لیاقت علی خان سے ٹھنی رہی، خواجہ ناظم الدین بر خاستگی، اپنی مرضی سے جونیجو، نواز شریف، جمالی کو وزیر اعظم بنائے، کسی سے بن نہ پائی۔ سارے زبردستی نکالے گئے۔ کیسے مان لیتا کہ عمران خان کو استثنیٰ ملنا تھا۔ شہباز شریف حکومت کو استثنیٰ کیوں ملے گا؟

جنرل باجوہ نے احسان فراموشی کی، نواز شریف کو غیر آئینی طریقہ سے نکالا۔ عمران خان اس سے بڑا محسن کُش، جنرل باجوہ کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔ بالآخرنواز شریف نے ہی جنرل باجوہ کی توسیع کا منصوبہ خاک میں ملایااور گھر کا راستہ دکھایا۔

واہ اللہ تیری شان نواز شریف اپنی مرضی کا آرمی چیف بنانے میں آج کامیاب ہو گئے۔ عمران خان اور عارف علوی کے پاس، کھیلنے کو کچھ نہیں۔ 26 نومبر کا لانگ مارچ ’’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘۔ کھلاڑی کے سارے کھیل مراسلہ تا سازش تاIMF کو خط سب منہ کے بل، ناکامی مقدر۔بالآخر علوی سے مل کر آخری کھیل۔

جنرل باجوہ صاحب کا دور اقتدار اختتام پذیر ہونے کو۔ باجوہ نے کیا کھویا، کیا پایا؟ عزت و وقار ملے گا یا قدر و منزلت زمین بو س رہنی ہے۔ بد قسمتی جنرل ایوب تا جنرل راحیل، ہمارے تمام آرمی چیف تاریخ میں نشان عبرت کے قرب و جوار میں ہیں ۔آج عسکری ادارہ کسی ایک کو بھی اپنے نصاب کا حصہ بنانے سے قاصر ہے۔ کاش کل جنرل باجوہ بھارتی فیلڈ مارشل جنرل مانک شاہ کی مثال کی بجائے اپنے کسی ہم وطن جرنیل کی مثال لاتے۔

اگرچہ جنرل باجوہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے الوداعی تقریبات میں شریک،’’مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی‘‘،تو مدت ملازمت میں توسیع اصل ہدف تھا۔ قوم آج تک نیزے کی انی پر تھی۔ جنرل باجوہ نے توسیع کیلئے دو دن پہلے تک ہمت نہ ہاری۔ نواز شریف کو داد کہ ڈٹے رہے۔ساری تدبیریں الٹا دیں۔

الحمد للہ معاملات کا ہاتھی آج گزر گیا۔ عمران خان بذریعہ ڈاکٹر علو ی ’’دُم ‘‘پکڑنے کی کوشش میں، یقین دلاتا ہوں منہ کی کھائیں گے۔ عمران خان کے مراسلہ، الیکشن ، IMF خط اور اب تعیناتی پر کھیل سارے ناکام۔عمران خان کی نالائقی ، مقبول پارٹی کے باوجود الیکشن نہ آرمی چیف، کیا قسمت پائی ہے۔

کل جنرل باجوہ صاحب کا اپنی سیاسی غلطیوں کااعتراف اور واقعات کی ملمع سازی کر کے اپنے تاثر کی دھاک بٹھانا تھا۔ میرے خیال میں ناکافی تھا۔جنرل باجوہ کا فرمانا ’’ سانحہ مشرقی پاکستان ہر گز فوجی شکست نہیں تھی بلکہ سیاسی ناکامی تھی‘‘۔سر! میرے سمیت پوری قوم آپ کے اس مؤقف کی تائید کرتی ہے۔ اتنا بتادیں، 1971 میں وطنی سیاست کس کے قبضے میں تھی؟جنرل یحییٰ ہی توسیاست کے مائی باپ تھے۔یادش بخیر جنرل یحییٰ سے پہلے وطنی سیاست دس سال کس کے قبضہ استبداد میںتھی۔ جنرل ایوب خان ہی تو نظام’’بستی ‘‘چلا رہا تھا۔

1958 میں طاقت کے بل بوتے پر پاکستان پر قبضہ کیااور1300سیاستدانوں کو کرپشن پر سیاست سے دس سال با ہر کیا۔فوج کی کمانڈ پاکستانی جرنیلوں کے ہاتھ آتے ہی ، ملک ہتھیانے کا کوئی دقیقہ و فر گزاشت نہ کیاگیا۔کل جنرل باجوہ کا اعتراف گناہ کا دن تھا۔ توبۃ النصوح اوراعتراف جرم کے لوازمات ذہن نشین کرنا ہو ں گے۔ قرآن حکیم، توبۃ النصوح سے پہلے صدق دل سے اعتراف گناہ کا سبق دینا ہے اور صدق دل سے تائب ہونے کی تلقین کرتاہے۔ بائبل کی رو سے اعترافِ جرم کے بعد ہی تویہ ممکن ہے ۔ یہودی دیوار گریہ کے ساتھ زار و قطاررو رو کر اعتراف گناہ کرتے ہیں اور معافی ملتی ہے۔ نیلسن منڈیلا کے دست راست اور نوبل انعام یافتہ DESMOND TUTU نے اعتراف جرم کے بعد تومفاہمت کے دروازے کھلوائے اور رفعتیں پائیں۔

معاف کیجئے گا،آپ کا’’اعتراف گناہ‘‘ گارڈڈ (تحفظات) سے بھر پور تھا۔ کاش کل اپنے اور ماضی کے ساتھیوں کے ریاست کے خلاف جرائم کا برملا اظہار کر جاتے اور معافی مانگتے۔آپکی عزت کا خانہ تاریخ کےصفحوں میں پورا خالی نہ رہتا۔کیا یہ کہنا کافی تھا کہ گزشتہ سال فروری2021 سے’’ فوج نے سیاست میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘۔ جناب والاجو بربادی 2021سے پہلے رقم ہوئی اسکا ازالہ کیونکرممکن تھا۔ آئین کی دھجیاں اڑانا، ریاست کو مفلوج رکھنا، سیاسی عدم استحکام جیسے جرائم نے مملکت کو جس حال تک پہنچایا، اس نقصان کو کون پورا کرے گا۔مزید فرمایا’’ فوج کی سیاست میں مداخلت غیر آئینی ، فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی اور اس عزم پر کار بندرہیں گے ‘‘۔ دودھ کی جلی قوم منتظرکہ الفاظ اور عمل میں کتنی مطابقت رہنی ہے ، آنے والے وقت نے بتایا ہے۔

’’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘‘،جنرل صاحب اب تونقصان کے تخمینے لگانے کا وقت ہے۔اسی جھوٹے بیانیے کے زور پر عمران خان سیاست فتح کر چکا ہے ۔جنرل عاصم منیر کا بوجھ دُگنا ہو گیاہے۔ عفریت کمبل بن کرجنرل عاصم کیلئے وبال جان بن کر رہنا ہے۔جنرل صاحب عفر یت کس نے جنم دیا ، کس نے پوتڑے تبدیل کیے اور انگلی سے پکڑ کر چلنا سکھایا۔بد قسمت ابھی عمران خان کی رالیں ٹپکنا بند نہ ہوئی تھیں کہ سیاست کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا گیا۔RTS کے ذکر پر آپکا اعتراف نہ کرنا ،دیانت اور باکرداری کے سارے اصول پامال کر گیا۔

حاصل کلام اتنا کہ72سال سے مادر وطن کے ساتھ مجرمانہ فعل کرنے والوں کا ماضی میں کوئی حساب کتاب ہو ا ہے نہ آئندہ ہو گا؟ 7 دہائیوں کے قومی مجرموں، ملکی سالمیت سے کھیلنے والوں کا قانون کے کٹہرے میں آئندہ بھی آنے کا کوئی امکان نہیں۔ایک بات حتمی اگر ادارہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کھلے دل و دماغ سے نہیں کرتا ۔ کڑی خود احتسابی سے احترازجاری رکھتا ہے ۔عمران خان کی غیر شائستہ زبان اور فوج پر شدید تنقید میر جعفر، غدار، جانور جیسے القابات، آنے والوں برسوں میںاس سے بد ترین تنقید اور دشنام طرازی معمول بن جائے گی ۔

اہل وطن ! نیا دور، پر اپنے دور کا تسلسل ہی جب تک قوم کے مجرم زندہ یا مردہ کٹہرے میں نہیں۔نیا دور پُرانے ادوار سے کتنا مختلف ہو گا، جنرل عاصم منیر کے اگلے چند ماہ میں سب کچھ واضح ہو جائے گا۔کاش! نیا دور پاکستان کیلئے سب اچھا کی رپورٹ لکھے اور دشمنوں پر بھاری گزرے۔