عدالت کا نورمقدم کے قتل کے واقعے کی CCTV فوٹیج دیکھنے کا فیصلہ

December 08, 2022

—فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مدعی اور مجرمان کی اپیلوں پر سماعت کے دوران واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کا فیصلہ کر لیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کےچیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل بینچ نے سماعت کرتے ہوئے اسٹیٹ کونسل کو ہدایات جاری کر دیں۔

دورانِ سماعت مرکزی مجرم ظاہر جعفر کے شریک مجرم چوکیدار افتخار کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ افتخار کی وقوعہ پر موجودگی ثابت ہے لیکن وہ ملازم ہے، افتخار کا اس پورے کیس میں کچھ لینا دینا نہیں، وہ تو ملازم ہے۔

عدالت نے سوال کیا کہ سی سی ٹی وی کیمرے میں آپ کے مؤکل کا کردار آیا ہے؟

وکیلِ صفائی نے جواب دیا کہ افتخار کا کام ہی دروازہ کھولنا اور بند کرنا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ جب نور مقدم نے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی تو افتخار نے انہیں کیوں روکا؟ گھریلو ملازم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ مالک کوئی غیر قانونی کام کہے تو وہ کرے گا۔

چوکیدار افتخار کے وکیل نے جواب دیا کہ نور مقدم کا اس گھر میں مستقل آنا جانا تھا۔

عدالتِ عالیہ نے کہا کہ ظاہر جعفر جب زبردستی نور مقدم کو گھر کے اندر لے گیا تو اس وقت افتخار گیٹ پر موجود تھا، بنیادی طور پر ٹرائل کورٹ کی فائنڈنگ ڈی وی آر کی بنیاد پر ہیں۔

چوکیدار افتخار کے وکیل نے جواب دیا کہ یہ بھی اغواء نہیں تھا، وہ مرضی سے وہاں موجود تھیں، افتخار 20 ہزار روپے تنخواہ لیتا ہے، ہمارے معاشرے میں وہ مالک کے دوست کو ٹچ بھی نہیں کر سکتا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سی سی ٹی وی کے مطابق اگر نور مقدم جانا چاہ رہی ہو اور چوکیدار نے روکا تو کیا یہ اغواء نہیں؟ کورٹ کی فائنڈنگ ہے کہ چوکیدار نے گیٹ بند کیا اور بیسمنٹ میں چلا گیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا چوکیدار نے نور مقدم کو باہر جانے سے فزیکلی روکا تھا؟

عدالت نے کہا کہ ججمنٹ میں لکھا ہے کہ نور مقدم کہتی رہیں کہ مجھے جانے دو مگر چوکیدار نے گیٹ نہیں کھولا۔

چوکیدار افتخار کے وکیل نے جواب دیا کہ میں نے وہ پورشن نہیں دیکھا، فوٹیج میں آواز بھی نہیں تھی۔

عدالت نے کہا کہ چوکیدار کو قتل میں معاونت پر نہیں، اغواء کے جرم میں شریک مجرم ہونے پر سزا ہوئی، اگر لڑکی باہر جانے کا کہہ رہی ہے اور اسے جانے نہ دیا جائے تو کیا وہ اغواء نہیں؟ کیا کوئی گیٹ کیپر گھر آئے مہمان کو کہہ سکتا ہے کہ میں باہر نہیں جانے دوں گا؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا گیٹ کیپر کہہ سکتا ہے کہ مالک کہے گا تو باہر جانے دوں گا؟ ہم جب تک ڈی وی آر نہیں دیکھیں گے، تب تک کیسے کچھ کہہ سکتے ہیں؟

چوکیدار افتخار کے وکیل نے جواب دیا کہ افتخار نے نور مقدم کو روکا نہیں بلکہ گیٹ بند کیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ ضروری نہیں کہ کوئی مرضی سے آئے تو وہ اغواء نہیں ہو سکتا، اغواء اس وقت شروع ہو جاتا ہے جب کسی کو غیر قانونی طور پر باہر نکلنے سےروک دیا جائے، آپ نے صرف فوٹیج دیکھ کر بتانا ہے کہ آپ کے مؤکل نے نور مقدم کو باہر جانے سے نہیں روکا، جج صاحب نے فیصلے میں لکھا ہے کہ افتخار نے گیٹ بند کیا اور بیسمنٹ میں چلا گیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ظاہر جعفر کے وکیل نے کہا ہے کہ نور مقدم کا موبائل پولیس نے توڑا، ہو سکتا ہے کہ وہ جمپ کے دوران ٹوٹ گیا ہو، جب انسان گھبرایا ہوا ہوتا ہے تو ایسے میں بعض اوقات نمبر بھی ڈائل نہیں کر پاتا، ابھی آپ کہیں گے کہ وہ چھلانگ مار کر کسی دوسرے کے گھر چلی جاتی۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ سب درست تھا تو انہیں فرسٹ فلور سے جمپ کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟

چوکیدار کے وکیل نے سوال اٹھایا کہ لڑکی کی والدہ سے فون پر بات ہوئی تو اس نے کوئی بات انہیں کیوں نہیں بتائی؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ لڑکی نے والدہ سے فون پر بات صبح کی اور یہ واقعہ شام کو ہوا، کسی پر حملے یا قتل کا ارادہ فوری بن سکتا ہے، ضروری نہیں کہ منصوبہ بندی ہی کی گئی ہو۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں اپیلوں پر سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کر دی۔