نیک عمل کا وسیلہ دعا کی قبولیت کا سبب

February 03, 2023

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم سے پہلی اُمت کے تین آدمی سفر کررہے تھے۔ وہ رات گزارنے کے لیے ایک غار میں داخل ہوئے، یک دم پہاڑ سے ایک پتھر نے لڑھک کر غار کے منہ کو بند کردیا۔ اس موقع پر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ اس پتھر سے ایک ہی صورت میں نجات مل سکتی ہے کہ تم اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرو۔چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے، میں ان سے پہلے کسی کو دودھ نہ پلاتا تھا۔

ایک دن لکڑی کی تلاش میں میں بہت دور نکل گیا، جب شام کو واپس لوٹا تو وہ دونوں سوچکے تھے، میں نے ان کے لیے دودھ نکالا اور ان کی خدمت میں لے آیا۔ میں نے انہیں سویا ہوا پایا، اس موقع پر انہیں جگانا نامناسب سمجھا اور ان سے پہلے اہل وعیال وخدام کو دودھ دینا بھی پسند نہ کیا۔ پیالا ہاتھ میں لیے ان کے جاگنے کے انتظار میں طلوعِ فجر تک ٹھہرا رہا، حالانکہ بچے میرے قدموں میں بھوک سے بلبلاتے رہے۔

اسی حالت میں فجر طلوع ہوگئی، وہ دونوں بیدار ہوئے اور اپنے شام کے حصے والا دودھ نوش کیا۔ اے اللہ! اگر یہ کام میں نے تیری رضامندی کی خاطر کیا تو تو اس چٹان والی مصیبت سے ہمیں نجات عنایت فرما، چنانچہ چٹان تھوڑی سی اپنی جگہ سے سرک گئی، مگر ابھی غار سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ دوسرے نے کہا: اے اللہ! میری ایک چچازاد بہن تھی، وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے اس سے اپنی نفسانی خواہش پورا کرنے کا اظہار کیا، مگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوئی، یہاں تک کہ قحط سالی کا ایک سال پیش آیا جس میں وہ میرے پاس آئی، میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ اپنے نفس پر مجھے قابو دے گی، اس نے آمادگی ظاہر کی اور قابو دیا۔

جب میں اس کے قریب بیٹھ گیا تو اس نے کہا: تو اللہ سے ڈر!اور اس مہر کو ناحق وناجائز طور پر مت توڑ۔ چنانچہ میں اس فعل سے باز آگیا، حالانکہ مجھے اس سے بہت محبت تھی اور میں نے وہ ایک سو بیس دینار اسے ہبہ کردیئے۔ یا اللہ! اگر میں نے یہ کام خالص تیری رضاجوئی کے لیے کیا تھا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عنایت فرما، جس میں ہم مبتلا ہیں۔ چنانچہ چٹان کچھ اور سرک گئی، مگر ابھی تک اس سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ تیسرے نے کہا! یا اللہ! میں نے کچھ مزدور اُجرت پر لگائے اور ان تمام کو مزدوری دے دی، مگر ایک آدمی ان میں سے اپنی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا۔

میں نے اس کی مزدوری کاروبار میں لگا دی، یہاں تک کہ بہت زیادہ مال اس سے جمع ہوگیا۔ ایک عرصے بعد وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے بندے! میری مزدوری مجھے دے دے۔ میں نے کہا: تم اپنے سامنے جتنے اونٹ، گائے، بکریاں اور غلام دیکھ رہے ہو، یہ تمام تمہاری مزدوری ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے بندے! میرا مذاق مت اُڑا۔ میں نے کہا: میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ چنانچہ وہ سارا مال لے گیا اور اس میں سے ذرہ برابر بھی نہیں چھوڑا۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ عمل تیری رضامندی کے لیے کیا تو تو اس مصیبت سے جس میں ہم مبتلا ہیں، ہمیں نجات عطا فرما۔ پھر کیا تھا چٹان ہٹ گئی اور تینوں اس سے باہر نکل گئے۔ (صحیح مسلم )