’’ماں‘‘ مہر و محبت، ایثار و مروت، صبرورضا اور خلوص و وفا کی ایک روشن مثال ہے۔ یہ ایسا شجرِ سایہ دار ہے، جس کی گھنی چھاؤں کبھی کم نہیں ہوتی اور نہ اس پر خزاں آتی ہے۔ ماں کی گود انسانیت کا سب سے پہلا مکتب ہے۔ یہ تہذیب و شائستگی کا گہوارہ اور کائنات کا سب سے پُرخلوص رشتہ ہے۔
ماں ہی زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی کا مینار ہے۔ ماں ہی وہ مقدس ہستی ہے، جس کے قدموں تلے جنّت ہے۔’’ماں‘‘ خاندانی نظام کی اساس اور اسلامی تہذیب کا بنیادی نشان ہے۔ یہ اسلام کی اعلیٰ اخلاقی اور معاشرتی قدروں کی امین اور پُرخلوص سچے جذبوں کی آئینہ دار ہے۔
’’ماں‘‘وہ عظیم نام ہے، جس کے لیے دنیا کی مختلف زبانوں اور عالمی تہذیبی ورثے اور زبان و ادب میں جو الفاظ تخلیق کیے گئے، وہ اس کے بلند مقام کا استعارہ اور ماں سے عقیدت و محبت کا حسین اظہار ہیں، جب کہ دینِ فطرت اور دینِ رحمت نے ’’ماں‘‘کی عظمت، خدمت اور اس کی اطاعت و فرماں برداری کا جو درس دیا، وہ سب سے منفرد اور بے مثال ہے۔ اسلام میں خالقِ حقیقی رب العالمین کے بعد خالقِ مجازی ماں اور اس کی مامتا کو سب سے عظیم گردانا گیا ہے۔
خالقِ کائنات نے خلوص و وفا اور ایثار و محبت کی اس پیکر کو پوری انسانیت کے لیے رحم و کرم اور اُنس و محبت کا منبع بنایا ہے۔ ماں اور مامتا کے حوالے سے انسان اور حیوان کی بھی تفریق نہیں، جو جذبۂ محبت اور خلوص و وفا انسان کی ماں میں قدرت کی جانب سے ودیعت کیا گیا ہے، بعینہ وہی جذبہ حیوانوں کو بھی عطا کیا گیا ہے۔ ماں اگر جانور ہے، تو وہ بھی مامتا کے جذبے اور خلوص و وفا کے سرچشمے سے پوری طرح فیض یاب ہے۔
یہ ماں کی شفقت اور مامتا کی عظمت اور محبت کا اظہار ہی تھا کہ محسنِ انسانیت، نبیِ رحمت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر ننھے اور معصوم بچّوں کو ماں کا دودھ نہ پلایا جارہا ہوتا، بوڑھے اور عمر رسیدہ افراد اپنے رب کے حضور عبادت میں جھکے نہ ہوتے اور معصوم جانور میدانوں میں چر نہ رہے ہوتے تو یقیناً تم پر سخت عذاب نازل ہوتا۔‘‘ ماں کائنات کی سب سے قیمتی متاع اور سب سے عظیم سرمایہ ہے۔ اس کی شفقت و محبت اور خلوص و وفا کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ ہر مذہب اور ہر تہذیب نے ’’ماں‘‘ کی عظمت کو تسلیم کیا ہے، لیکن فخرِ موجودات، سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ جو مثالی دین اور ابدی ضابطۂ حیات لے کر تشریف لائے، اس میں ’’ماں‘‘ کو سب سے زیادہ عظمت دی گئی ہے۔ آپؐ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے‘‘۔
صحابی رسول حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا، یارسول اللہ ﷺ! میرے حُسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا! ’’تیری ماں!‘‘ انہوں نے عرض کیا،پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: ’’تیری ماں‘‘ انہوں نے عرض کیا، پھر کون؟آپؐ نے فرمایا: ’’تیری ماں۔‘‘ چوتھی مرتبہ سوال کرنے پر آپؐ نے فرمایا: ’’تیرے والد۔‘‘(صحیح بخاری،کتاب الادب) حضرت مغیرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ نے یقیناً تم پر ماؤں کی نافرمانی اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا حرام قرار دیا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری؍باب حقوق الوالدین)
ماں کے ساتھ حُسنِ سلوک کے حوالے سے آپﷺ کے تین مرتبہ تاکیدی طور پر ارشاد فرمانے کے حوالے سے علماء نے لکھا ہے کہ ’’ماں‘‘ کا تین مرتبہ نام لینا، اس کے تین عظیم احسانات کی طرف اشارہ ہے، جسے قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے، یعنی ماں وضعِ حمل اور اس کی پیدائش کی تکلیف کو برداشت کرتی ہے، پھر دودھ پلاتی ہے اور کئی ماہ تک اس کی ہر طرح نگہداشت کرتی ہے، اپنی راحت اور آسائش کو اولاد کی راحت اور آسائشوں پر قربان دیتی ہے۔
قرآن کریم اور حدیث نبویؐ کا یہ مضمون کس قدر ہم آہنگ ہے کہ قرآن نے ماں کے تین عظیم احسانات شمار کرائے اور والد کا ذکر ایک مرتبہ کیا، جب کہ رسول اللہ ﷺ نے ماں کی خدمت گزاری کا تین مرتبہ حکم فرما کر باپ کی خدمت گزاری کا ایک مرتبہ حکم فرمایا ہے۔ قرآن کریم نے ماں باپ کے سلسلے میں اولاد کی فطرت کو بے دار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے جذبۂ اطاعت و خدمت کو جھنجھوڑا ہے۔
اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنی، میں نے سوال کیا کہ یہ کون ہے، جو قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہے؟ فرشتوں نے جواب دیا کہ یہ حارثہ بن نعمانؓ ہیں۔‘‘ یہ بیان فرمانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا‘‘(یعنی ماں کی خدمت اور اس سے حُسن سلوک کا یہ صلہ ہے) حضرت حارثہ بن نعمانؓ اپنی والدہ کی خدمت اور ان سے حُسنِ سلوک کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے تھے۔
روایت ہے کہ ایک موقع پر حضرت موسیٰ کلیم اللہؑ نے اللہ سے سوال کیا کہ پروردگار، جنت میں میرا رفیق کون ہے؟ میرا پڑوسی کون ہو گا! جواب ملا، موسیٰؑ، وہ ایک قصاب ہے، جو فلاں بستی میں رہتا ہے، یہ سن کر موسیٰ علیہ السّلام اس قصاب کی تلاش میں نکل پڑے، تاکہ یہ جان سکیں کہ وہ کون سا عمل ہے، جس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اس قصاب کو اتنا بلند اور ممتاز مقام عطا فرمایا ہے کہ اسے ایک نبی کا ہمسایہ بنایا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے ملاقات اور ان کی بات سن کر وہ انہیں اپنے گھر لے آیا۔ بعد ازاں موسیٰ علیہ السّلام نے دیکھا کہ اس نے اپنی ضعیف العمر ماں کو انتہائی ادب و احترام سے سہارا دیا، منہ کو صاف کیا، اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا، تب اس کی ماں نے اسے دعا دی کہ اللہ تجھے جنت میں موسیٰؑ کا پڑوسی بنائے۔ یہ نہ کوئی بہت بڑا عابد و زاہد تھا، نہ عالم، نہ صوفی، نہ غازی، نہ مجاہد، تاہم اسے یہ بلند مقام ماں کی خدمت، اطاعت اور اس سے حُسنِ سلوک کے صلے میں ملا تھا۔
رسولِ اکرم ﷺ کے برگزیدہ صحابی حضرت ابوہریرہؓ علمِ حدیث کے اساطین میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ صحابۂ کرامؓ کی جماعت میں سب سے بڑے حافظِ حدیث تھے۔ احادیثِ نبویؐ کا سب سے عظیم ذخیرہ آپ ہی سے روایت کیا گیا ہے۔ آپ کی مجموعی روایات کی تعداد 5374 بیان کی جاتی ہے۔ اصحابِ صُفّہؓ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ اسوۂ نبویؐ پر چلنے کی تڑپ ہر وقت ان کے دل میں انگڑائیاں لیتی رہتی تھی۔ زیارتِ کعبۃ اللہ کے بڑے مشتاق تھے، لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ آپ حج کے لیے نہ جا سکتے تھے، جب کہ صحت بھی اچھی تھی، سفر خرچ بھی مہیا تھا۔
کوئی وجہ ایسی نہ تھی کہ وہ حج کی عظیم سعادت سے محروم رہتے، مگر پھر بھی تکمیلِ تمنا کا موقع نہ آتا تھا۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ حج پر جانے والے کاروانوں کو خدا حافظ کہنے جاتے۔ جب معلوم ہوتا کہ حجاج کرام کا قافلہ روانہ ہونے والا ہے، تو بڑے ذوق و شوق سے ان کے پاس پہنچتے۔ ایک ایک سے ملتے، ایک ایک کی تواضع کرتے اور حسرت بھری نگاہوں سے ایک ایک کو دیکھتے اور رخصت کر آتے۔ ایک روزِ سعید ایسا بھی آیا کہ حاجیوں کے قافلے میں وہ بھی شریک ہوگئے، وجہ صرف ایک تھی کہ حضرت ابوہریرہؓ کی ماں ضعیف العمر تھیں، وہ ان کی خدمت میں جی جان سے مصروف عملِ رہتے۔
ماں کی خدمت کا یہ عالم تھا کہ نماز کے سوا کسی بہت ضروری کام کے، کبھی بوڑھی ماں کو اکیلا نہ چھوڑتے۔ آپؓ فرماتے تھے کہ میں کسی قیمت پر بھی ماں کی خدمت جیسی عظیم نعمت سے محروم ہونا گوارہ نہیں کرسکتا۔ ماں کی خدمت کا یہی عظیم جذبہ تھا کہ آپ حج جیسی عبادت کو ملتوی کر رہے تھے، لیکن یہ گوارہ نہ تھا کہ بوڑھی ماں سے ایک دن کے لیے بھی جدا رہوں۔ جب تک ان کی بوڑھی ماں حیات رہیں، صبح و شام جی جان سے ان کی خدمت اور فرماں برداری میں مصروف رہے اور ایسے کہ دن کے چین اور رات کی نیند کی بھی پروا نہ کی۔
حضرت ابوہریرہؓ جس سال حج پر تشریف لے گئے، اس سال ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ کچھ نہ پوچھیے، دل کا کیا حال تھا۔ کعبۂ دل کے اجڑ جانے کے بعد حجِ بیت اللہ ہی میں تسکینِ دل رہ گئی تھی۔ اس لیے جو زادِ سفر ممکن ہوسکا، لیا اور کعبۃ اللہ کی زیارت کے لیے چل دیے۔ دھوپ چھاؤں کی کیفیت قلب پر طاری تھی۔ زیارتِ کعبۃ اللہ پر شاداں و فرحاں تھے اور ماں کے بچھڑ جانے پر ملول و غم زدہ، وصال و فراق کے اس کرشمے میں تقدیس تھی گداز ہی گداز۔ ماں کی خدمت اور فرماں برداری کا یہ ایک نقش ہے، ایسے بے شمار نقوش اسلامی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔
ماں کی خدمت، اس سے حُسنِ سلوک، اس کی عظمت اور تقدس کو اجاگر کرنے اور اس کی اہمیت کو بیان فرمانے والے امام الانبیاء، سیّد المرسلین، رحمۃ لّلعالمین، محسنِ انسانیت ﷺ کا اسوہ اور عمل ملاحظہ فرمائیے۔ ایک موقع پر رسالتِ مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر میری ماں حیات ہوتیں اور میں حالتِ نماز میں ہوتا، پھر وہ مجھے پکارتیں، اے محمدؐ، تو میں ان کی صدا پر لبّیک کہتا اور نماز کوتوڑ کر ان کی خدمت اور فرماں برداری میں مصروف ہوجاتا۔‘‘
ایک مرتبہ ایک بزرگ خاتون حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو آپؐ نے ان کی بڑی تعظیم و تکریم فرمائی اور اپنی چادرِ مبارک ان کے لیے بچھا دی۔ بعد ازاں صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ کون خاتون تھیں، جن کی آپؐ نے اتنی تعظیم و تکریم فرمائی؟ آپؐ نے فرمایا: ’’یہ میری رضاعی ماں حضرت حلیمہ سعدیہؓ ہیں۔‘‘ آپؐ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی آپؐ، حلیمہ سعدیہؓ کو دیکھتے تو میری ماں، میری ماں کہہ کر ان کی طرف دوڑتے ہوئے تشریف لے جاتے۔
ماں کی عظمت اور خدمت کا ایک اور نقش ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت اویس قرنیؓ کو اسلامی تاریخ میں ماں کی خدمت، اطاعت اور حُسنِ سلوک کے حوالے سے خاص شہرت حاصل ہے۔ ایک موقع پر ماں کے سوال کرنے پر کہ اویس! تم مدینۂ منورہ جا کر رسول اللہ ﷺ کی زیارت اور صحبت سے شرف یاب کیوں نہیں ہوتے؟ والدہ کی یہ بات سن کر حضرت اویس قرنیؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے‘‘ میں اس جنت کو کس طرح چھوڑ دوں۔
آخر والدہ کے بے حد اصرار پر مدینۃ النبیؐ میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ ان دنوں مدینے میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے اس موقع پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر میرے اختیار میں ہو تو میں پوری زندگی مدینے میں رہوں اور آپؐ کے دیدار اور صحبت سے شرف یاب ہوں، لیکن یہ میرے اختیار میں نہیں، میری ماں بوڑھی اور خدمت کی طلب گار ہیں، انہوں نے مجھے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے اور جلد واپس یمن آنے کی تاکید کی تھی، لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے یہ عاشق صادق فوراً یمن روانہ ہوگئے اور زندگی بھر ماں کی خدمت میں مصروف رہے، اسی بناء پر اسلامی تاریخ میں انہیں بلند اور منفرد مقام حاصل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ اویس قرنیؓ جب مدینہ تشریف لائیں تو ان سے دعا کی درخواست کرنا۔ خلیفۂ دوم حضرت عمرفاروقؓ کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر سال حج کے موقع پر مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے حجاج سے معلومات حاصل کرتے کہ کیا تم میں یمن کے قبیلے قرن سے تعلق رکھنے والے اویس قرنیؓ موجود ہیں؟ ایک سال جب حج کے موقع پر تشریف لائے تو حضرت عمرؓ نے رسول اکرم ﷺ کی وصیت کے مطابق ان سے دعا کرائی۔ اویس قرنیؓ کو اسلامی تاریخ میں یہ مقام اور امتیاز ماں کی خدمت کے صلے میں عطا ہوا۔
اسلامی تاریخ میں ماں کی خدمت اور اس سے حُسنِ سلوک کے حوالے سے ایسے بے شمار نقوش ماں کی عظمت اور اس کے بلند مقام کا پتا دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ماں کائنات میں انسانیت کی سب سے قیمتی متاع، گنج گراں مایہ اور عظیم سرمایہ ہے۔ اسلام میں اولاد کی پوری زندگی ماں کے تقدس، اس کی عظمت کے اظہار اور خدمت و اطاعت کے لیے وقف ہے۔ اس کے لیے کسی دن کو مخصوص کرنا، اس کی روح کے منافی ہے۔ اسلام میں ہر سال، ہر مہینہ، ہر دن اور ہر لمحہ ماں کی خدمت اور اطاعت و فرماں برداری کے لیے وقف ہے۔
شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ’’اسرار خودی‘‘ میں اسلام میں ماں کی عظمت کے حوالے سے اپنی مشہور فارسی نظم ’’در معنیٰ ایں کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اسلام است‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ماں کا منصب اور اس کے حفظ و احترام کا ضامن اسلام ہے۔
اقبال کی اس نظم کا ترجمہ پیش خدمت ہے:’’اگر ٹھیک طور پر دیکھو تو ماں کا وجود رحمت ہے، اس بناء پر کہ اسے نبوت سے نسبت ہے، اس کی شفقت پیغمبرانہ شفقت جیسی ہے، جس سے قوموں کی سیرت سازی ہوتی ہے، ماں کے جذبۂ محبت کی بدولت ہماری تعمیر پختہ تر اور اس کی پیشانی کی سلوٹوں میں ہماری تقدیر پنہاں ہوتی ہے۔
اگر تم الفاظ کے معنی تک رسائی رکھتے ہو، تو لفظ اُمت پر غور کرو۔ اس میں بڑے نکات ہیں۔ مقصودِ کائنات پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: ’’ماؤں کے قدموں تلے جنت ہے۔‘‘ ملتِ رحمی رشتے کی تکریم پر قائم ہے۔ اگر یہ نہیں تو زندگی کا ہر کام خام رہ جاتا ہے۔’’مامتا‘‘ سے زندگی سرگرم ہے۔ ’’مامتا‘‘ ہی سے زندگی کے اسرار بے نقاب ہوتے ہیں۔
ہماری ملت کی ندی میں ہر پیچ و تاب ’’ماں‘‘ سے ہے۔ اس ندی میں موجیں گرداب اور بُلبلے اسی وجود کے باعث ہیں۔ ملت کو ماں کی آغوش سے اگر ایک ہی مسلمان حاصل ہوجائے، جو غیرت مند اور حق پرست ہو تو ہمارا وجود ان رنجوں سے محفوظ ہوجائے، اس کی شام کی بدولت ہماری صبحِ دنیا کو روشن کردے۔‘‘’’ماں‘‘کی عظمت اور اس کے خلوص و وفا کے متعلق کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ماں، خلوص و مہر کا پیکر، محبت کا ضمیر
ماں، خدا کا رحم، وہ دنیا میں جنت کی سفیر
ماں، زسرتاپا محبت، ماں، زسر تا پا کرم
ماں، وہ جس کے دم سے قائم وفاؤں کا بھرم
ماں، نشانِ منزلِ آدم، تقدس کا پیام
ماں کے قدموں میں ہے جنّت، ماں کے قدموں کو سلام