ڈاکٹر نعمان نعیم
دوسروں کی ترقی وخوشحالی پر حسد محسوس کرنا … !
یہ ایک عمومی نفسیاتی کیفیت ہے جو فرد کی ذہنی اور روحانی حالت کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک منفی احساس ہے جس میں کسی دوسرے کی کامیابی، خوش حالی یا خوشیوں کے لیے ناپسندیدگی یا کڑواہٹ محسوس کی جاتی ہے۔ یہ عموماً اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص اپنے مقابلے میں دوسرے کو بہتر یا کامیاب دیکھتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اندرونی طور پر بے چینی، ناگواری، یا منفی جذبات کا شکار ہوتا ہے۔
جب لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے کم تر محسوس کرتے ہیں تو جلن کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ سماجی یا پیشہ ورانہ زندگی میں مسابقت کے نتیجے میں جلن کا احساس پیدا ہو سکتا ہے۔ دوسروں کی کامیابیوں کا معاشرتی اثر بھی جلن کا سبب بن سکتا ہے۔ زندگی میں مشکلات اور ناکامیوں کے باعث فرد خود کو دوسروں سے بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور جب وہ کامیاب نہیں ہوتا تو جلن محسوس کرتا ہے۔
حسد کے نقصانات … !
حسد کی وجہ سے دوستیوں اور رشتوں میں تناؤ پیدا ہوتا ہے، جو اکثر لڑائی یا جھگڑوں کا سبب بنتا ہے۔ حسد کی کیفیت نفسیاتی مسائل جیسے غم، بے چینی اور ڈپریشن کا باعث بن سکتی ہے۔ جلن کے نتیجے میں فرد اپنی توانائیاں دوسروں کی ترقی کو روکنے میں صرف کرتا ہے، جس سے وہ اپنی ترقی سے محروم رہ جاتا ہے۔ حسد کی کیفیت روحانی سکون میں رُکاوٹ بن سکتی ہے، اور فرد اللہ کی رضا سے دور ہو سکتا ہے۔
حسد سے بچنے کے طریقے … !
اپنے احساسات کا جائزہ لیں اور یہ سمجھیں کہ حسد کیوں محسوس کر رہے ہیں؟ یہ جاننے سے آپ اپنی سوچ کو تبدیل کرنے میں مدد حاصل کر سکتے ہیں۔دوسروں کی کامیابیوں پر خوشی منائیں اور ان کے لیے دعا کریں، یہ عمل آپ کے اندر سے جلن کے احساس کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر ادا کریں اور اپنی زندگی کی مثبت چیزوں پر توجہ دیں۔
اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور دوسروں کے تجربات سے سیکھیں، یہ عمل آپ کی جلن کے احساسات کو کم کرے گا اور آپ کو مثبت رہنمائی فراہم کرے گا۔ خلاصہ یہ کہ نیک نیتی، شکر گزاری اور خود کی بہتری کی کوشش کے ذریعے ہم اس منفی جذبے سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں اور ایک خوش حال اور محبت بھرا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
حسد کا معنیٰ و مفہوم … !
حسد کا معنی ہے: کسی دوسرے کی نعمتوں یا خوشیوں پر جلنا اور یہ خواہش رکھنا کہ وہ اس سے چھن جائیں، چاہے اسے ملیں یا نہ ملیں۔ یہ ایک دل کی بیماری ہے جو انسان کو بے سکون اور بے چین کر دیتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں حسد کو ایک بہت بڑی روحانی بیماری اور برائی قرار دیا گیا ہے، جو انسان کے دل کو سخت کرتی ہے، اس کے اعمال کو برباد کرتی ہے، اور انسان کو اللہ سے دور کر دیتی ہے۔
اسلامی تعلیمات میں حسد کو ایک ناپسندیدہ عمل اور گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
حسد ایمان کو کمزور کرتا اور انسان کے دل کو زنگ آلود کرتا ہے۔ یہ انسان کے دل کو سخت اور بے رحم بنا دیتا ہے، جس سے عبادات اور نیکیوں میں خشوع و خضوع ختم ہو جاتا ہے۔ یہ انسان کو اللہ کی رضا سے دور کر دیتا ہے، کیونکہ حسد میں اللہ کی تقسیم پر اعتراض اور ناقدری شامل ہوتی ہے۔ حاسد شخص ہمیشہ بے چینی اور اضطراب کا شکار رہتا ہے، کیونکہ وہ ہر وقت دوسروں کی نعمتوں پر جلتا اور کڑھتا رہتا ہے۔
حسد انسان کو اپنی خوشیوں سے بھی دور کر دیتا ہے، کیونکہ اس کی توجہ صرف دوسروں کی نعمتوں پر رہتی ہے۔ حسد سے متاثرہ شخص جھوٹ، غیبت، الزام تراشی اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش سمیت کئی برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ حسد معاشرتی تعلقات کو خراب کرتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور دوری پیدا کرتا ہے۔
حسد کی وجہ سے معاشرے میں انتشار اور فساد پھیلتا ہے، کیونکہ حسد انسان کو دوسروں کے خلاف بدگمانی اور سازشیں کرنے پر اُکساتا ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے سے حسد کرنے لگتے ہیں تو وہ معاشرتی بھلائی کے بجائے ذاتی مفاد اور انا میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جس سے معاشرہ ترقی نہیں کر پاتا۔
اللہ کی طرف سے دی گئی تقسیم پر راضی رہنا اور یہ یقین رکھنا کہ اللہ نے جو بھی تقسیم کی ہے، وہ حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے، یہ یقین انسان کے دل کو حسد سے پاک کر دیتا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنا اور انہیں یاد رکھنا، دوسروں کے لیے بھلائی چاہنا اور ان کی نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرناحسد کو کم کرتا اور دل کو مطمئن رکھتا ہے۔ حسد سے بچنے کے لیے اللہ سے دعا کرنا اور اپنے دل کی اصلاح کی طلب کرنا بھی حسد سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔
حسد سے بچنے کے لیے قرآن کی تلاوت کریں، خاص طور پر سورۃ الفلق کی آخری آیات میں حسد سے بچنے کی دعا شامل ہے، معوذتین کو اپنے صبح اور شام کے معمولات میں شامل کریں۔ اگر کسی کے پاس کوئی نعمت ہے تو اس کے حق میں دعا کریں اور اس سے خوشی محسوس کریں۔ اللہ کی عطا کردہ چیزوں پر قناعت اور صبر اختیار کریں اور مزید نعمتوں کی طمع کو ترک کر دیں، قناعت انسان کو دل کی خوشی عطا کرتی اور حسد کو ختم کرتی ہے۔
اگر دل میں کسی کے لیے حسد پیدا ہو تو فوراً اس کے حق میں دعا کریں اور اس کے لیے خیر طلب کریں، یہ عمل حسد کو دل سے نکالنے کا بہترین ذریعہ ہے۔دوسروں کی کامیابیوں کے بجائے اپنے کردار اور اعمال کی اصلاح کی کوشش کریں، یہ خود احتسابی حسد کو کم کرتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ حسد ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی روح کو نقصان پہنچاتی اور اسے اللہ کی رحمت سے دور کر دیتی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں حسد کو ختم کرنے کے لیے ہمیں تقویٰ، صبر، شکر گزاری، اور قناعت جیسی صفات کو اپنانا چاہیے اور دوسروں کے لیے بھلائی کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔
بغض اور نفرت … !
یہ دو ایسی اخلاقی برائیاں ہیں جن سے انسان کا دل سخت ہو جاتا ہے اور اس کے اعمال پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ دونوں جذبے انسان کو دوسروں سے دور اور بے سکون کر دیتے ہیں، جبکہ محبت اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے جو لوگوں کو قریب لانے اور امن قائم کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
حسد ایک ایسی بیماری ہے جو بغض اور نفرت کو جنم دیتی ہے، جب انسان دوسروں کی خوشیوں یا کامیابیوں پر حسد کرتا ہے تو دل میں ان کے خلاف بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ جب انسان دوسروں کے ساتھ مفاد پرستی کا رویہ اپناتا ہے تو محبت اور خیر خواہی کی جگہ نفرت اور بغض لے لیتا ہے۔
جب انسان دوسرے لوگوں کے بارے میں بدگمان ہوتا ہے تو ان کے خلاف بغض پیدا ہوتا ہے۔ دنیاوی خواہشات اور مادی چیزوں میں مقابلہ بازی بھی بغض اور نفرت کو بڑھاتی ہے۔ جب انسان کسی سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے دل میں دوسروں کے لیے بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی انسان کسی سے زیادتی کا مرتکب ہو یا بد سلوکی کرے تو اس سے دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔
بغض اور نفرت کے نقصانات … !
بغض اور نفرت سے دل کی سختی اور ایمان کی کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ دل بے چین اور بے سکون رہتا ہے، جس سے عبادات میں خشوع و خضوع ختم ہو جاتا ہے۔ بغض اللہ کی رحمت سے دوری کا سبب بنتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ محبت اور خیر خواہی کو پسند کرتا ہے، نفرت اور بغض کو نہیں۔ بغض اور نفرت کی وجہ سے دوستیاں، رشتے داریاں اور معاشرتی تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ بغض اور نفرت معاشرے میں فرقہ واریت اور انتشار کا باعث بنتے ہیں۔
جب لوگ ایک دوسرے سے بغض رکھتے ہیں تو معاشرہ تقسیم کا شکار ہو جاتا ہے۔ بغض اور نفرت امن کو ختم کر دیتے ہیں اور معاشرے میں نفرت اور بدامنی پھیلتی ہے۔ بغض سے انسان کے دل کو کبھی سکون نہیں ملتا اور وہ ہمیشہ بے چین رہتا ہے۔ نفرت کی وجہ سے انسان کا ذہن منفی خیالات میں الجھتا ہے اور یہ اس کی صحت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بغض کاشکار افراد عموماً تناؤ اور پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔
بغض اور نفرت سے بچنے کے طریقے … !
بغض اور نفرت سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم دل صاف رکھیں اور محبت، اخوت، رواداری اور ایثار وقربانی کو فروغ دیں۔ اسلام میں محبت کو اہم ترین اخلاقی قدر قرار دیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں محبت کو ایمان کی تکمیل اور معاشرتی امن کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور اپنے رسول ﷺ کو بھی محبت کا پیغام دے کر بھیجا گیا۔
اسلام بھائی چارے اور اخوت کا دین ہے۔ محبت سے دل میں خیر خواہی پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کے درمیان مضبوط تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(صحیح بخاری)
محبت، اخوت، رواداری اور ایثار وقربانی سے معاشرتی امن اور سکون قائم رہتا ہے۔ محبت سے نفرت اور بغض کا خاتمہ ہوتا ہے اور معاشرے میں عفو و درگزر اور خیر خواہی کی فضا قائم ہوتی ہے۔ محبت انسان کے دل کو سکون بخشتی ہے اور اسے خوشی اور اطمینان عطا کرتی ہے۔ جب انسان دوسروں کے لیے خیر خواہی اور محبت کا جذبہ رکھتا ہے تو اس کا دل سکون میں رہتا ہے۔ (… جاری ہے… )