جینے کے ہاتھوں مر چلے

March 08, 2023

پوری دنیا میں تاریخ کی بلند ترین سطح کو پہنچی ہوئی منہگائی، شدید اقتصادی بحران، غربت اور بے روزگاری کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح، افراطِ زراور اشیائے ضروریہ کے نرخوں کا بلند گراف اور قوتِ خرید میں شدید کمی نے دنیا بھر کے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ لیکن پاکستانیوں کے لیے مشکلات نسبتا زیادہ ہیں، کیوں کہ ہماری معیشت مختلف وجوہ کی بنا پر انتہائی کم زور ہوچکی ہے لہذا قرض دینے والے عالمی ادارے اپنی سخت ترین شرائط ہم سے منوارہے ہیں اور ہم انہیں ماننے پر مجبور ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں بہت سے افراد ان اداروں کو ظالم اور بے حس قرار دے رہے۔

حالاں کہ اس حال تک پہنچنے میں سارا قصور ہمارا ہی ہے۔ ہم قرض کی مے پیتے رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ ہماری فاقہ مستیاں کوئی رنگ لائے بغیر سدا یوں ہی جاری رہیں گی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے قوموں کے عروج و زوال کے اسباب اور تاریخ سے بالکل منہ موڑ لیا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ فطرت کے اصول اٹل ہیں، وہ حقیقت کو چھپاتی نہیں بلکہ اسے عیاں کرتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ کوئی اسے دیکھنا چاہتا ہے یا نہیں۔

دو بحرانوں کا شکار ملک

آج کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک اور ہماری قوم بہت خطرناک اقتصادی بحران کا شکار ہے اور ہماری بقا کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیاست میں عدم استحکام، ملک کو اقتصادی طور پرروز بہ روز پیچھے کی جانب دھکیل رہا ہے، ملکی مجموعی پیداوار اور برآمدات کے اہداف پورے کرنامشکل نظر آرہے ہیں۔ دوسری جانب امن وامان کی پھر سے خراب ہوتی ہوئی صورت حال اقتصادی زبوں حالی کو مزید گمبھیر بنارہی ہے۔سیاست کی ہانڈی میں آنے والے اُبال کی تپش نے بھی اقتصادی صورت حال کوپگھلا نے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

بدقسمتی سے اس وقت ہم اقتصادی کے ساتھ سیاسی بحران کا بھی شکار ہیں۔یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی صورت حال میں بگاڑ کی وجہ سے ملکی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ حکومت ترقیاتی اور غیرترقیاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیکسوں کے ذریعے رقم جمع کرتی ہے لیکن جب آمدن سے زیادہ اخراجات ہوجائیں تو حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے جیسا کہ حال ہی میں حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کےلیے ہزار ہا جتن کیے ہیں۔ جب کسی بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے قرض لیاجاتاہے تو پھر اُن کی شرائط بھی پوری کرنا لازمی ہوتاہے جس میں ایک شرط ٹیکسز میں اضافے کی بھی ہوتی ہے یا ان شعبوں پر ٹیکس عاید کرنا جہاں ٹیکس نہیں ہے۔

پاکستان وجود میں آنے کے صرف تین سال بعد 11 جولائی 1950 کو آئی ایم ایف کارکن بنا تھا اوراب تک قرض کے حصول کے لیے بائیس مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے۔ 1988سے پہلے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ہونے والے معاہدے قلیل مدتی بنیادوں پر ہوتے تھے جن میں عمومی طور پر قرض معاشی اصلاحات سے مشروط نہیں ہوتے تھے۔ تاہم 1988کے بعد اسٹرکچلرل ایڈجسمنٹ پروگرامز شروع ہو گئے، یعنی ایس اے پی،جن میں قرض دینے والا ادارہ شدید اقتصادی مشکلات کے شکار قرض حاصل کرنے والے ممالک کو مخصوص شرائط کے تحت نیا قرض دیتا ہے۔

ماہرین اقتصادیات کے مطابق پاکستان کا اصل مسئلہ آئی ایم ایف سے حاصل کیے جانے والے قرض کی واپسی نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی طرف سے عاید کردہ شرائط کو پورا نہ کرنا ہے۔ ہماری تاریخ رہی ہے کہ قرض تو لے لیتے ہیں مگر قرض کے حصول کے وقت وعدہ کی گئیں شرائط کو، مثلا معاشی اصلاحات، پورا نہیں کرتا۔یوں محسوس ہورہا ہے کہ اس مرتبہ قرض کے حصول میں امریکا ہمارا سفارشی نہیں ہے۔ شرائط پوری نہ کرنے پر آئی ایم ایف سے نئے قرض کے حصول میں مشکلات پیش آتی ہیں، اس وقت پاکستان کو امریکی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ پاکستان اگلی مرتبہ پھر آدھی پونی شرائط پوری کرتا ہے اور امریکا سے سفارش کرواتاہے اور آئی ایم ایف نیا قرض دے دیتا ہے۔

اب جن شرائط سے قرض کو مشروط کیا گیا ہے ان کی وجہ سےنہ صرف پاکستان میں غربت اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ منہگائی کا نیا طوفان عوام کو آن گھیرے گا، جس کی ابتدا ہوچکی ہے۔ان شرائط پر عمل درآمد کی وجہ سے ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھ چکا ہے، روپے کی قدر میں زبردست کمی آچکی ہے، ڈالر کی قدر کا تعین اوپن مارکیٹ کے ذریعے ہونے لگا ہے، تمام اقسام کی سبسڈیز ختم کی جارہی ہیں اور گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ یقینا یہ سب کچھ پاکستانی عوام کے لیے بہت تکلیف دہ ہے اور ہوگا۔ لیکن یہ ہمارے ہی لوگوں کا کیا دھرا ہے،کسی کو دوش کیا دینا۔

مذکورہ شرائط ماننے سے بالآخر عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور اُس کی قوتِ خرید بھی متاثر ہوتی ہے، جب قوتِ خرید پر منفی اثر پڑتا ہے تو طلب کم ہوجاتی ہے اور طلب کے کم ہونے سے پیداوار میں کمی آنے لگتی ہے جس کا اثر مجموعی پیداوار پر پڑتا ہے، اور یہ تمام معاملات عمومی طور پر سیاسی حالات اور امن و امان کی غیریقینی صورت حال کے باعث ہوتے ہیں۔

آج ملک میں جو سیاسی ماحول ہے اس میں بیرونی سرمایہ کاری کو تو بھول جائیں، مقامی سرمایہ کار بھی ملک میں غیریقینی کی صورت حال میں کیوں کر سرمایہ کاری کرے گا؟اقتصادی استحکام کے لیے سیاسی استحکام لازمی ہے اور اگر ملک میں معاشی استحکام نہیں ہے تو نئی صنعتیں نہیں لگیں گی اور پاکستان میں یہ ہی ہورہا ہے کہ اس وقت نئی صنعتیں نہیں لگ رہی ہیں اور موجودہ صنعتیں بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں ، ایسی صورت میں بیروزگاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

بیرونی سرمایہ کار پہلے کسی بھی ملک کی صورت حال کا بہ غور جائزہ لیتے ہیں پھر سرمایہ کاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی طرح جو بیرونی سرمایہ کار، ملک میں سرمایہ کاری کرچکے ہیں وہ بھی صورت حال کا بہ غور جائزہ لیتے رہتے ہیں اور جوں ہی وہ دیکھتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہورہا ہے تو وہ ملک سے جانے لگتے ہیں اور اپنے ساتھ سرمایہ بھی واپس لے جاتے ہیں۔

بیرونی سرمایہ کاری کے ملک سے باہر جانے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستانی کرنسی جو دیگر ممالک کی کرنسیوں سے منسلک ہوتی ہے، کم زور ہوتی ہے جیسا کہ کئی ماہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی کرنسی، امریکی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل کم زور ہورہی ہے، حالاں کہ امریکی ڈالر دنیا کی دیگر کرنسیوں کی نسبت کم زور ہوا ہے۔ پاکستانی کرنسی کم زور ہونے کی وجہ بیرونی سرمایہ کاری کا ملک میں نہ آنا اور موجود بیرونی سرمائے کا ملک سے اخراج ہے۔

اقتصادی ماہرین اور صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ جب ملک میں غیریقینی صورت حال ہو، توانائی کا بحران ہو، شرح سود بہت زیادہ ہو،عالمی سطح پر ملک کا تاثر اچھا نہ ہو تو یہ تمام عوامل مل کر معیشت کے پہیے کی رفتار سست کردیتے ہیں۔

’’ہاٹ منی‘‘

پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ حکومت بوکھلاہٹ میں فیصلے کر رہی ہے۔ شرح سود گزشتہ بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ پاکستان کے سرٹیفکیٹس پر بھی شرح منافع 8فی صدڈالرز اکاونٹ اور 12 فی صد پاکستانی اکاونٹس پر کر دی گئی ہے تاکہ بہتر شرح منافع کی وجہ سے لوگ بینکوں میں پیسے زیادہ سے زیادہ جمع کرائیں اور حکومت کو ’’ہاٹ منی‘ ‘مل جائے اور افراط زر کی شرح گر جائے۔ مگراسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کا تمام تر اثر مالیاتی پالیسی کے ہم آہنگ نہ ہو نے،روپے کی قدر میں کمی اور لوگوں کے اپنی رقوم ڈالرز اورسونے میں محفوظ کرنے سے افراط زر اور منہگائی محض شرح سود میں اضافے سے کیسے کم ہو سکتی ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ غیر دستاویزی Undocumented ہے۔ تاہم پالیسی ریٹ بڑھنے پر بینکس صارفین سے جو شرح سود وصول کرتے ہیں وہ KIBOR کہلاتی ہے اور اس میں پالیسی ریٹ کے علاوہ تین تا چار فی صد سروس چارجز شامل ہوتے ہیں۔ اب ایک درمیانے درجے کا کاروباری شخص21 یا 22 فی صد شرح سود پر کیسے بینک سے قرض لے کر کاروبار کر سکے گا اور عام شہری جو گھر یا گاڑی کے لیے قرض لے چکا ہےیا لینا چاہتا ہے وہ کیسے سود ادا کرے گا۔ اس کی جان شکنجے میں پھنس چکی ہے ۔

پچھلی حکومت کے دور میں پاکستانیوں نے پہلی مرتبہ ہاٹ منی کی اصطلاح سنی تھی۔ عام اصطلاح میں اس سرمایہ کاری کو ’’ہاٹ منی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو قلیل مدت کے لیے سرکاری بانڈز میں کی جاتی ہے۔ دو برس قبل کورونا کی وجہ سے پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل تھا جہاں اسٹاک مارکیٹس، کرنسی کی قدر اور بیرونی سرمایہ کاری کو شدید دھچکا لگا تھا۔ شاید اسی لیے بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری میں اس وقت اچانک کمی کے بعد شرح سود میں کچھ کمی کی گئی تھی۔ تاہم سب سے بڑا دھچکا حکومت کی اس معاشی پالیسی کو لگاتھا جس کے ذریعے حکومت نے ملک میں ’’ہاٹ منی‘‘کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی۔

مارچ 2020میں اسٹاک مارکیٹ کی طرح پاکستان کی منی مارکیٹ میں بھی ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی روپے نے مزید قدر کھوئی تھی۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ حکومتی سیکیورٹیز سے بیرونی سرمایہ کاری کا اخراج بتایا گیا تھا۔ گورنمنٹ سیکیورٹیز سے بیرونی سرمایہ کاری کے اخراج میں مارچ 2020کے پہلے گیارہ دنوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ان گیارہ دنوں میں 625 ملین ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری گورنمنٹ سیکیورٹیز سے نکلی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں بلند شرح سود کی وجہ سے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لیے سرکاری بانڈز سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش ذریعہ ہے ۔تاہم آج دنیا بھر میں کساد بازاری ہے۔ ان حالات میں سرمایہ کار کہیں پر سرمایہ کاری میں رسک لینے کے بجائے اپنا سرمایہ محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ سرکاری بانڈز سے بیرونی سرمایہ کاری کا اخراج اسی گھبراہٹ کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بیرونی سرمایہ کاری کا اخراج صرف بانڈز سے ہی نہیں ہوا بلکہ اسٹاک مارکیٹ سے بھی ہوا ہے۔بیرونی سرمایہ کاروں کا اسٹاک مارکیٹ کے فری فلوٹ میں27سے 28فی صد حصہ بنتا ہے۔ سرکاری بانڈز اور اسٹاک مارکیٹ سے بیرونی سرمایہ کاری کے اخراج نے ڈالر کے مقابلے میں روپے پر دباؤ ڈالا جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی دیکھنے میں آئی۔

’’ہاٹ منی‘‘ بانڈز یا شئیرز میں قلیل مدت کے لیے بہت اچھی شرح منافع حاصل کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں یورو اور دیگر بانڈز پر شرح منافع سالانہ سات سے آٹھ فی صد سے زیادہ نہیں، لیکن پاکستانی قلیل مدتی بانڈز جنہیں ٹریژری بلز کہا جاتا ہے، ان پر منافع تیرہ فی صد سے زاید مل رہا تھا۔ اس وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار ادارے اور افراد کسی ایسے ملک میں جہاں شرح منافع کم ہو، وہاں سے رقم قرض لے کر پاکستان جیسے ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں شرح منافع زیادہ ہو۔ اس طرح انہیں کم سے کم محنت، مدت اور رسک میں زیادہ منافع ملتا ہے۔ ایسی ہی سرمایہ کاری ’’ہاٹ منی‘‘ کہلاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شرح منافع خطے اور دنیا کے بیش تر ممالک سے زیادہ ہونے کی وجہ سے دو، تین برسوں میں بڑی تعداد میں ہاٹ منی کی صورت میں سرمایہ آیا تھا۔ لیکن کیا ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا یہ بہترین طریقہ ہے؟ ماہرین اقتصادیات نے ہاٹ منی کو فروغ دینے کی حکمت عملی کو غلط فیصلہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی قلیل اور آزادنہ سرمایہ کاری کے اثرات منفی بھی ہوسکتے ہیں۔

غیر منظم سرمایہ کاری بیرونی قرضوں کا حجم خطرناک حد تک بڑھا سکتی ہے، جس سے معیشت متاثر ہوتی ہے۔اُنّیس سو نوّے کے اوائل میں فارن کرنسی اکاونٹ کھولنے کی اجازت دی گئی تھی تاکہ جاری خسارے پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم بعد میں اس فیصلے کی وجہ سے معیشت شدید بحران کا شکار ہوگئی تھی۔ حکومتی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کے باعث سرمایہ کار پاکستان کے طویل مدتی بانڈز میں سرمایہ کاری کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔ حکومت اور مرکزی بینک کو کاروباری لاگت کو کم کرنا اور منی لانڈرنگ پر قابو پانا ہوگا تاکہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوسکیں۔

ماہرین کے بہ قول معیشت میں اتار چڑھاؤ کے باعث پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے ضرورت سے زیادہ مراعات دینی پڑتی ہیں۔ کم زور مالی پوزیشن کی وجہ سے پاکستان کے لیے آزادانہ خارجہ پالیسی جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ ان حالات میں بانڈز سے ملنے والی رقم سے مانیٹری پالیسی متاثر ہوتی ہے اور بیرونی قرضوں کا دباؤ برقرار رہتا ہے۔ایسی سرمایہ کاری سے اسٹیٹ بینک اوپن مارکیٹ سے ڈالرز خرید کر ایکسچینج ریٹ میں وقتی طور استحکام لانے میں کام یاب ہوسکتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کسی حد تک بڑھ سکتے ہیں۔

بانڈز مارکیٹ کو پرکشش بنانا آئی ایم ایف کے فنانشل ماڈل کا حصہ ہے۔ آئی ایم ایف نے مصر اور انڈونیشیا میں بھی شرح سود میں اضافہ کرکے ان کی بانڈز مارکیٹس میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا تھا۔ 1997 میں آئی ایم ایف پروگرم میں جانے کے بعد پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا پڑا تھا۔جب تک حکومت بین الاقوامی مارکیٹ میں طویل مدتی بانڈز جاری نہیں کرتی اس وقت تک ہاٹ منی میں سرمایہ کاری جاری رہے گی۔حکومت کوبین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز جاری کرنے چاہییں تاکہ کم شرح سود پر قرض حاصل کیا جاسکے، بہ صورت دیگر اسٹاک مارکیٹ اور صنعتی شعبے کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آنے کا امکان نہیں۔

پچھلی حکومت کے دور میں روپے کی قدر میں کمی سے منہگائی بڑھی تھی جسے کم کرنے کے لیے بنیادی شرح سود کو 13.25 فی صدکردیا گیاتھا۔ ایسے میں اس وقت کے اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرکاری مقامی کرنسی بانڈز میں سرمایہ کاری کی اجازت دے دی تھی جس سے ہاٹ منی بڑے پیمانے پر ملک میں داخل ہوئی اور تقریباً دو ارب ڈالرز کے مساوی سرمایہ پاکستان آیاتھا۔ اس ہاٹ منی پر شرح منافع 13.25 فی صد ہونے کی وجہ سے بہت پُرکشش تھا۔ یورپی ممالک اور امریکا میں اس وقت بنیادی شرح سود 3 فی صد یا اس سے کم تھی۔

اس کی وجہ سے مغربی ملکوں سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاروں نے قرض لے کر پاکستانی حکومت کے مقامی کرنسی بانڈز میں سرمایہ کاری کی اور اس پر 10 فی صدکا کم از کم منافع کمایا، جب کہ پاکستان عالمی منڈی میں بانڈز کی فروخت پر پانچ تا چھ فی صدکی شرح سے منافع دیتا ہے۔ یعنی ہاٹ منی لانے والوں کو دگنا منافع حاصل ہوا۔ یہ ہاٹ منی جس تیزی سے آئی تھی،سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام اور روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کی وجہ سے اسی تیزی سے واپس بھی چلی گئی۔سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ اس ہاٹ منی کی آمد و رفت سے قومی خزانے کو 1600 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

ڈالر کی ذخیرہ اندوزی

دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ متعین کرتی ہے۔ یہ عمل اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ کسی ملک کی معیشت میں کتنے ڈالرز دست یاب ہیں اور ملک میں ان کی مانگ کتنی ہے۔ ڈالر کی قدر اس وقت بڑھ جاتی ہے جب کسی معیشت میں اس کی مانگ بڑھتی ہے، لیکن دوسری جانب رسد گھٹ جاتی ہے۔ پاکستان میں معاملہ تھوڑا مختلف ہے اور یہاں ڈالر کی قدر کا تعین دو طرح سےہوتا ہے۔

اول انٹر بینک مارکیٹ، جہاں بینک آپس میں ڈالر کی بڑے پیمانے پر خرید و فروخت کرتے ہیں اور یہاں کی قیمت کو ڈالر کا انٹر بینک ریٹ کہا جاتا ہے۔ دوم اوپن مارکیٹ ، جہاں سے عام لوگوں کی ڈالرز کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ حکومت اورا سٹیٹ بینک ڈالر کی قدر متعین کرنے کے معاملے میں اوپن مارکیٹ میں دخل اندازی کرتے ہیں یہ فیصلہ کرنے کیے لیے کہ اس کی قیمت ایک وقت میں کتنی ہونی چاہیے۔ اوپن مارکیٹ میں جب ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے اور رسد کم تو اسٹیٹ بینک اپنے ڈالر کے ذخائر سے ڈالرز مارکیٹ میں بیچتا ہے تاکہ سپلائی کو بہتر کیا جا سکے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہا سٹیٹ بینک چپ چاپ تمام کمرشل بینکوں کو زبانی ہدایات جاری کر دیتا ہے کہ ایک مخصوص قیمت سے زاید پر وہ ڈالر کی خریداری نہ کریں۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مخصوص قیمت پر پہنچ کر بینک خریداری بند کر دیتے ہیں اور اس سے قیمت بڑھنے سے رک جاتی ہے۔ مگر اس کا نقصان بھی ہوتا ہے اور حکومت کے پاس ڈالر کے ذخائر کم ہو جاتے ہیں۔

ان دنوں ڈالر کی طلب بڑھی ہے، مگر رسد نہیں ہے کیوں کہ ایک جانب مرکزی بینک کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں اور دوسری جانب گاہک ڈالرز خریدنے آ رہے بیچ کوئی نہیں رہا۔ اوپن مارکیٹ میں اس سلسلے میں کافی افراتفری ہے اور لوگ ڈالر خرید کر گھر میں رکھ رہے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ آگے چل کر روپے کی قدر میں مزید کمی ہو گی۔

روپے کی قدر میں زبردست کمی کے ضمن میں بعض ماہرین اقتصادیات کا موقف ہے کہ صورت حال کے اس نہج پر پہنچنے کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے پاس قرض کے حصول کے لیے گئی تھی اور آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ایکسچینج ریٹ کافی خراب ہے اور قرضے کے حصول سے قبل اسے درست کرنا ضروری ہے۔

منہگائی میں مسلسل اضافہ اور روپے کی قدر کم ہونا لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ طویل ہوتا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہ سکتا ہے لہذا ڈالرز کوفروخت کرنے کے بجائے اپنے پاس ہی رکھا جائے۔ جب بھی ملک میں منہگائی بڑھتی ہے تو ایسا ہوتا ہے کیوں کہ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ بینک میں رکھی ہوئی ان کی رقم کق قدر کم ہوتی جائے گی، لیکن ڈالر ہونے کی صورت میں وہ رقم کی قدر میں کمی سے محفوظ رہ پائیں گے۔

دوسری جانب برآمدات کے شعبے سے وابستہ افراد جب یہ دیکھتے ہیں کہ آج ڈالر کا یہ ریٹ ہے اور اگر آج میں اپنی ایکسپورٹ پروسیڈز کو مارکیٹ میں نہ لاؤں تو مجھے چند پیسے زیادہ مل جائیں گے تو اس سوچ کے تحت وہ اپنی ایکسپورٹ پروسیڈز کو روک لیتے ہیں۔ درآمدات کے شعبے سے وابستہ افراد بھی ان ہی خطوط پر سوچتے اور فیصلہ کرتے ہیں جس سے طلب اور رسد میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور مارکیٹ میں افراتفری کی سی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔

ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف حکومت کے کریک ڈاؤن کرنے کے فیصلے کوبہت سے ماہرین درست اقدام نہیں سمجھتے۔ ان کے بہ قول ماضی میں جب بھی اس طرح کی کارروائی کی گئی اس کے نتائج خاطر خواہ نہیں نکلے۔ 2008 میں بھی ایسا ہواتھا۔ چند بڑے ایکسچینج ڈیلرز کے خلاف کیسز بنائے گئے، مگر وہ سب دو سے تین سال میں بری ہو گئے اور کوئی فائدہ نہیں ہواتھا۔لابتہ ایسے اعلانات سے مارکیٹ میں یہ پیغام جاتا ہے کہ حکومت اس صورت حال سے خود بھی ناامید ہو گئی ہے اور بے یقینی کا شکار ہے۔

کریک ڈاؤن عمومی طور پر کسی حکومت کا صورت حال پر قابو پانے کا آخری حربہ ہوتا ہے اور یہ اس وقت کیا جاتا ہے جب حکومت کے پاس کوئی اور حکمت عملی باقی نہ رہ جائے۔ 2008 میں بھی صورت حال بہت گمبھیر تھی، یہاں تک کہ لوگ انٹر بینک سے ڈالر خرید کر باہر کے ممالک بھیج رہے تھے اور پاکستان میں رکھ ہی نہیں رہے تھے۔ انہیں خدشہ تھا بینکس ان کے فارن کرنسی اکاؤنٹس منجمد کر دیں گے جیسا کہ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد ہوا تھا۔