ماہِ رمضان کی فجر میں کس قدر قرأت کی جائے؟

March 17, 2023

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال:رمضان المبارک میں فجر کی نماز عام دنوں کی طرح پڑھانی چاہیے یا پھر اس میں اختصار سے کام لیا جائے؟ کیوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم رات کو تراویح پڑھتے ہیں، اس لیے فجر کی نماز مختصر ہونی چاہیے۔ میں عام دنوں کی طرح ہی پڑھاتا ہوں، لیکن قریب کی کچھ مسجدوں میں نماز فجر میں مختصر قرأت ہوتی ہے، اس لیے لوگ ان کا حوالہ دیتے ہیں، اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:رسول اللہ ﷺ نے مقتدیوں کی رعایت کرتے ہوئے نماز ہلکی پڑھانے کا حکم فرمایا ہے، ہلکی نماز کا مطلب یہ ہے کہ نماز مقدارِ مسنون سے طویل نہ ہو، یعنی قرأت کی مقدار مسنون قرأت سے زائد نہ ہو، اور نہ ہی رکوع و سجود میں تسبیحات مسنون مقدار سے زائد پڑھے، البتہ اگر دوران نماز کوئی ایسا عذر پیش آجائے جو نماز میں مخل ہو تو اس صورت میں مسنون قرأت ترک کرنے کی بھی اجازت ہے۔

لہٰذا ماہِ رمضان کی فجر میں لوگوں کی تھکاوٹ کی وجہ سے مسنون قرأت مستقل طور پر ترک نہ کریں، البتہ آپ کو چاہیے کہ قرأت بہت زیادہ تکلفات کے ساتھ نہ کریں، اور جو سورتیں اچھی طرح یاد ہیں، ان میں سے سورت منتخب کرکے تجوید کی رعایت رکھتے ہوئے روانی سے قرأت کریں گے تو مسنون قرأت اور مقتدی حضرات دونوں کی رعایت ہوجائے گی۔

نیز حکمت و نرمی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا عمل مقتدیوں کو بتائیں اور انہیں ترغیب دیں تو ان شاء اللہ وہ اختصار کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ باقی آپ کی قریبی مساجد میں اگر مختصر قرأت ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ پورے مہینے مسنون قرأت ہی نہیں کرتے تو ان کا یہ طرزِ عمل سنت کے خلاف ہے اور ان کے اس سنت کے خلاف عمل کو دلیل بناکر آپ سے ایسے اختصار کا مطالبہ کرنا بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔