کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

March 24, 2023

ایک زمانے میں میری دوست ڈائریکٹر گائناکالوجی تھی۔ اس کے پاس بہت سے بے اولاد میاں بیوی آتے اور اپنی خواہش لکھواتے کہ وہ خاص کر بچی لے کر پالنا چاہتے ہیں۔ بہت سے والدین کو بیٹی کی خواہش تھی وہ بھی اپنی درخواست دے جاتے۔ اسپتالوں میں ہر زمانے میں مرد، عورت کو بچے کی پیدائش کے لئے اسپتال چھوڑ جاتے، نام کو صیغہ ٔ راز میں رکھنے کے لئے رقم کی بھی پیشکش کرتے۔ کچھ عورتیں بچے جنتیں مگر ان کا کوئی ولی وارث نہیں ہوتا تھا، تو ہماری ڈاکٹر ان بے اولاد لوگوں کو بلاکر اور گارنٹی لے کر، بچی ان کے حوالے کر دیا کرتی تھی۔ یوں تو لڑکوں کی تلاش میں بھی کئی ماں باپ آتے تھے مگر ان کی شرائط سخت ہوتی تھیں۔ وہ تمام بچے، جن کو باپ کا نام نہیں ملتا تھا، ان کو ایدھی سینٹر میں داخل کر وادیا جاتا تھا۔ اب تو زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ زمرد خان نے ہیپی سویٹ ہوم کے نام سے زلزلےکے دوران بے نام بچوں کے لئے اسکول کھولا اور اب وہاں کےبچے مڈل اور میٹرک پاس کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں مس بختیاری نے ایسے یتیم بچوں کے لئے سو اسکول قائم کئے ہیں۔ ہماری بچی حدیقہ کیانی نے ایسے بے آسرا بچوںکے لئےسو گھر قائم کر رکھے ہیں۔ اِسی طرح مریم بی بی اور صداقت بی بی بڑے خلوص سے بنا کسی نام کے، اپنے اپنے علاقوں میں یتیم یا بے گھر بچوں کے لئے تعلیم کا اہتمام کر رہی ہیں۔

ویت نام اور افریقی علاقوں میں جنگوں کے باعث لاولد ہونے والے بچوں کو بہت سے امریکیوں نے گود لیا۔ اپنی اولاد بناکر پالا۔ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ سب بچے نیک اور تابعدار نکلے البتہ، جن کی نسل خراب تھی ان پر پرورش کا کوئی اثر نہیں ہوا، آئے دن حملہ کرنے اور بلاوجہ لوگوں کو مارنے کا سلسلہ آپ نے اخباروں اور فلموں میں دیکھا ہی ہوگا۔

پاکستان میں کافی خاندانوں نے بچے گود لئے خاص کر لڑکیاں، ان میں سے اکثر جوان ہوکر اپنے حقیقی والدین کے بارے میں بہت سوال کرتیںاور ان میں سے اکثر کہتی ہیں میری شادی کردو۔ دیہات میں بے والدین بچوں کو، صاحبِ ثروت لوگ پالتے ہیں۔ مگر ان کی اولاد، ان بچوں کو برابری کا درجہ نہیں دیتی۔

یہ ساری باتیں، میں آپ کو کیوں سنا رہی ہوں سچے واقعات اور محبت بھری پرورش نے بہت سے لاولد بچوں کے دن بدل دیئے ہیں ۔ ان میں اعتماد آیا اور زندگی میں بڑوں کا ادب کرنا اور ان سے ہمیشہ محبت سے پیش آنا سیکھا۔

ان تمام باتوں کو دہراتے ہوئے مجھے عمران خان کی بیٹی ٹیریان یاد آرہی ہے۔ اُسے پیدا کرنے والی مرتے دم اسے جمائما خان کے حوالے کر گئی یاپھر جمائما نے محبت میں اس بچی کو اپنے بچے کی طرح پالا، پڑھایا۔ جمائما کی محبت اور خلوص اپنی جگہ، مگر افسوس کا لفظ بھی ناکافی ہے یہ کہنے کو کہ اس کا باپ، اپنی ہی اولاد کوقانونی طور پر تسلیم کرتے ہوئے قانونی موشگافیاں نکال رہا ہے۔ وہ اب بچی نہیں رہی۔ نوجوان ہے جمائما سے پیدا ہونے والے دو خوبرو نوجوانوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہے۔ اب لوگ تجزیہ کرتے ہوئے، ناجائز کہہ دیتے ہیں۔ یہ سوچتے نہیں کہ ایسے الفاظ جوان بچی پر کیسی پراگندگی پھیلا سکتے ہیں۔ زندگی میں آپ نے جو بھی بقول خود پلے بوائے کا رول رکھا اور خوب کھیل کھیلا، مگر ایک نوجوان لڑکی کا ذہن کتنا پریشان ہوتا ہوگا جب پاکستانی کمیونٹی کی لڑکیاں، اس کی طرف انگلیاں اٹھاتی ہوں گی۔

تم اپنے آپ کو پارٹی کے سربراہ کہتے ہو، ہم نے مانا کہ وہ ریکارڈنگز جو آپ نے اور میں نے ریلیز ہوتے دیکھی ہیں ۔ ان کو لغویات کہہ کر فراموش کرکے، تم اپنی بچی کی ولدیت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہو۔ تم نے ساری دنیا میں اس کا تماشا بنایا، جنم دینے والی زندگی ہوتی، تم پر کتنے بہتان اور طرح طرح کی مغلظات ، دنیا نہ بنا دیتی۔ تم نے گھر میں پانچ بچوں کی ماں کو رکھا ہوا۔ اس سے پہلے تین بچوں کی ماں کو بیوی بنا کر گھر میں لائے تھے ۔ تین بچوں والی نے تمہارا کچا چٹھا اپنی زبان میں لکھ دیا۔ پہلی بیوی نے بڑے گھرانے اور خاندانی نجابت کو قائم رکھا، تم اس کا بھی کچھ خیال کرو۔اب جو منکوحہ ہےتو الزبتھ ٹیلر اور جونا لولو بربجیڈا،کیا حسن اور کیا وقار کے ساتھ آخری لمحوں تک زندہ اور جاوداں رہیں۔ اب تمہارے ہیرو میں یوسف والت خصائل بھی نہیں کہ تم زلیخا کی طرح جوان ہو جائو گی۔ مجھے تو ٹوبہ ٹیک کی بچیاں تمہارے بار ے میں الف لیلوی کہانیاں سناتی ہیں۔ اے بی بی! تمہارے باعث خواتین نے مزاروں کی حرمت کو عزت دینی چھوڑ دی ہے۔ بہت راز کھل گئے ہیں۔ باقیوں پہ پردہ رہنے دو۔ زندگی تمہیں نجانے کون کون سے آشوب دکھائے گی۔ ہر عورت اپنی اولاد کے لئے خاتون اول ہوتی ہے۔ ساری دنیا کو کلوپٹرا کے راز بھی معلوم ہیں اور کالی ماتا کے کیا لچھن تھے، وہ کتابوں میں پڑھ لو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)