جان لیوا آٹا، آسیب زدہ پارلیمان و عدلیہ

April 01, 2023

آمد رمضان سے ہی مختص ارب ہا کے ’’وزیر اعظم ریلیف پیکیج‘‘ سے روزانہ شہر شہر غربا میں مفت لیکن آٹے کی جان لیوا تقسیم، ہنگامہ خیز چھینا جھپٹی کے ماحول میں جاری ہے۔ اس حوالے سے تقسیم آٹا کے ویل ارینجیڈ‘‘ فوٹو سیشن میں متفکر وزیراعظم جناب شہباز شریف کے غرباء میں آٹا بانٹنے کی جو ویڈیو رپورٹس ٹی وی اسکرین پر نمودار ہو رہی ہیں، دل دہلا دینے والی ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق مفت آٹے کے اس محال حصول میں تادم آٹھ مفلوک پاکستانی جان کی بازی ہار گئے۔ سینکڑوں زخمی ہو چکے لیکن مفت آٹا پانے کی سعی جاری ہے کہ ابھی تک جاں باقی ہے۔ اللّٰہ بخشے مجھے تو یہ دیکھ کر ورلڈ فیم اکنامکس جینئس اور اقوام متحدہ کے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کے آرکیٹکٹ ڈاکٹر محبوب الحق یاد آ جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کا بطور وزیر اعظم دوسرا دورتھا، یواین ڈی پی نے پاکستانی گورننس میں بہتر انداز میں حکمرانی کے لئے ’’گڈ گورننس گروپ‘‘ نام کا پروجیکٹ، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں قائم کرنے کے لئے فنڈنگ کی۔ ن لیگی ہونہار احسن اقبال انچارج وزیر کے طور پر پروجیکٹ کے بھی نگراں تھے۔ مختلف شعبوں کے ماہرین سے سفارشات لینے کے لئے تین روزہ برین اسٹارمنگ اسلام آباد میں ہوئی تو میری خوش قسمتی میں اپنی ڈویلپمنٹ میڈیا کی اسپیشلائزیشن کے حوالے سے ڈاکٹر محبوب الحق کے گروپ میں آگیا، تین روزہ برین اسٹارمنگ میں ان کا فوکس ’’تخفیف غربت‘‘ پر رہا۔ ایک تجویز انہوں نے بہت دلائل سے دی کہ ’’کم از کم تین سال کے لئے آٹے کی قیمت 6روپے فی کلو مقرر کردی جائے‘‘اور اسے ممکن بنانے کے لئے گندم کاشت کے رقبے میں توسیع اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے پر فوکس کیا جائے۔ سب ہی گروپس متفق تھے کہ گڈ گورننس کے لئے یہ بہت ثمر آور برین اسٹارمنگ ہوئی ہے۔ کچھ عرصے بعد اسلام آباد میں ہی ایک میڈیا ورکشاپ میں میں ریسورس پرسن تھا، احسن اقبال بطور مہمان خصوصی آئے تو ان سے استفسار کیا کہ G-3کی سفارشات کا کیا ہو رہا ہے؟ وہ تو بہت بڑا کام کردیا تھا آپ نے۔ دوران چائے بڑی آہستگی سے بتایا کچھ نہ پوچھیں، سب سفارشات پرنسپل سیکرٹری صاحب ڈمپ کرتے جا رہے ہیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ یہ تو بڑے میاں (نواز شریف) صاحب کے دور کا اناللّٰہ .... ہے۔ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ گزشتہ روز ایک انا للّٰہ نامور قانون دان اور آئینی ماہر جناب اعتزاز احسن نے پڑھی۔لنگڑی ادھوری موجود پارلیمان میں وزیراعظم کی بڑی دھواں دھار تقریر کے بعد جو ٹیلر میڈ قانون سازی عدلیہ کے پر کاٹنے کے لئے ’’شہباز اسپیڈ‘‘ کے ساتھ ہوئی ہے وہ تو نیب کے پر کاٹنے والی قانون سازی کی رفتار کوبھی مات دے گئی۔ اسی کی تشریح اور مہلک نتائج کاانتباہ کرتے ہی اعتزار صاحب کو انا للّٰہ پڑھنا پڑھی۔ ایک پوری قوم نے تب پڑھی تھی جب ن لیگی کے پہلے وفاقی دور میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی پیشہ ورانہ جرأت رندانہ پر سپریم کورٹ پر ہوئی لشکرکشی میں انہیں جان بچا کر پچھلی راہ داری سے فرار ہوناپڑا تھا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور گورنر صاحبان کے عین آئین کے مطابق اپنے آئینی فریضے میں مسلسل سیاسی ہچکچاہٹ کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے آئینی اختیار اور فریضے کے مطابق قومی معیشت کو مزید و مسلسل تباہ کرنے والے بے قابو آئینی بحران کو قابو کرنے کے لئے پیشہ ورانہ آئین کا ’’ارتکاب‘‘ کیا کردیا،عدالت عظمیٰ آسیب کی زد میں آگئی۔جج صاحبان کو ’’قابل رشک‘‘ سیاسی ابلاغ میں لپیٹ کر جودشنام تراشی ہوئی اور تشکیل بنچ اور اختلافی نوٹ کے نام پر یا آڑ میں جو ہو رہا ہے اس پر ملک کے اصل جمہوریت پسند اور آئین و قانون پر دسترس کے حامل ماہرین اپنی واضح سیاسی پسند، وابستگیوں اور شناخت کو بالائے طاق رکھ کر قابل اعتبار و فہم تشریح سے ٹیلر میڈ قانون سازی اور سپریم کورٹ میں پہنچ گئے کھلواڑ کا جوتجزیہ اور رہنمائی کر رہے ہیں وہ تو تاریخ ساز اور مطلوب مزاحمت کا سنہری ریکارڈ بن رہا ہے۔ خود جمہوریت نواز شہری اتنا کچھ سمجھ رہے ہیں کہ اس کا دس پندرہ فیصد بھی دولت راج کے خوفزدہ اولاگر کی لارڈز کی سمجھ میں آ جائے تو وہ عوام کو ڈراتے ڈراتے کچھ رسک لے کر بھی راہ راست پر آ جائیں۔ یہ طبقہ خود آسیب میں ہے تو پارلیمان اور عدلیہ اور آسیب کے سائے تو پڑنے تھے کہ اب دولت راجہ کے یہ شہزادے، شہزادیاں کس کس ریاستی ادارے کے راج دلارے ہیں، عوام اس سے خوب آگاہ ہیں۔ اتنا ہی جتنا اولاگر کی لارڈز کے ان کرتوتوں سے جس میں پاکستان کا سرمایہ آف شور کمپنیوں اور بینکوں میں گھمانے لگایا گیا، لیکن یاد رہے شاہ ایران کو بیرون ملک ذاتی اکائونٹس کے 16بلین یا انڈونیشیا کے سوہارتو کے 8 بلین اور مارکوس کے چھ بلین ڈالر ان کی ملکائوں اور آل و اولاد کے نصیب میں نہیں آئے۔ وہ کیسے کیسے دیار غیر میں اپنے انجام کو پہنچے۔ کسی درد دل رکھنے والے پبلشر کو اس پر کتاب شائع کرکے قومی خدمت انجام دینے کا وقت ہے۔ یہ جو آئینی، سیاسی اور معاشی بحران کا رخ سیدھے سادے واضح اور شدت سے مطلوب واحد حل انتخاب اور تازہ دم مین ڈیٹڈ تشکیل حکومت کی طرف سے موڑ کر عدلیہ و پارلیمان میں کھلواڑ اور احتجاجیوں کو فسطائیت میں لپیٹا جا رہا ہے۔ کارکنوں کے بعد حسان نیازی جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ جواں سال بیرسٹر کو شہر شہر گرفتاریاں ڈال کر وکلا کا موڈ ٹیسٹ کرنے کے لئے گرل کیا جارہا ہے، جس طرح ارشد شریف کے بعد ظل شاہ ’’حادثے‘‘ میں شہید ہوا، سوچو اس کے تادم نتائج کیا نکل چکے اور کیا نکلیں گے اور بھی غور کرو کہ ارب ہا کے بجٹ سے مفت آٹے کی جان لیوا تقسیم کہیں شہر لاہور میں 7ارب روپے کے بجٹ سے سستی روٹی والے پروجیکٹ کے چند ہی ماہ میں اسکینڈل میں تبدیل ہوکر بھسم تو نہ ہو جائے گی؟ اور کروڑوں کی روٹی کم کی کم ہی رہ جائے گی؟ اور پھر لیپ ٹاپ باٹنے پر اربوں کا جواز اس گمبھیر معاشی بحران میں بنتا ہے؟ یہ فقط نوجوانوں کو اپنی طرف لانے کا ہی ہدف ہے؟ یا ......؟