فائدہ عرضِ ہنر میں خاک نہیں

May 26, 2023

کل صبح میں اخبار پڑھ رہی تھی۔ میری ماسی نے کہا ’’باجی ساری عمر آپ نے پڑھنے میں گنوا دی ہے۔ یہ تو بتائیں ہمارے ملک میں کس کی حکومت ہے‘‘۔ میں نے اخبارسے نظریں ہٹا کر، اس کی جانب دیکھا۔ وہ بہت غصے میں تھی۔ میں نے ہاتھ پکڑ کر صوفے پہ بٹھایا ’’باجی گھر میں بہت کام ہیں۔ آپ بس میرے سوال کا جواب دیں۔ میں نے اس کی تسلی کے لئے شہباز شریف ، عمران خان اور آرمی چیف کے نام لئے۔ وہ جھلا کر اٹھی۔ ان سے بہتر تو آپ ہیں۔ میں نے پوچھا کیا مطلب ،جاتے ہوئے کہنے لگی۔ آپ ہم سے سارے کام کرواتی ہیں۔ گھر کے ایک ایک کونے کو صبح کو دیکھتی ہیں۔ ریفریجریٹر کھول کر دیکھتی ہیں۔ کھانےوالی کونسی چیز غائب ہے اور باورچی خانے میں ڈبوں میں مسالے پورے ہیں۔ تو پھر ’’میں نے کہا اس لئے توہم کام کر کے جاتے ہوئے، ایک دفعہ پھر دیکھتے ہیں۔ کوئی صفائی کوئی کام رہ تو نہیں گیا۔ ورنہ کل صبح صبح کلاس لی جائیگی۔ میں نے پھر کہا ’’تو پھر‘‘۔ توآپ نے جن کے نام لئے وہ کیسی حکومت کر رہے ہیں۔ ڈاکے، چوریاں ہیں۔ اتنے بڑے بڑے بل ہیں۔ قوم کو دو وقت کی روٹی نہیں ملتی۔ میں نے زچ ہو کر کہا ’’اب تم ان جیسی حکومت ، میرے گھر میں نہ کرنا۔ چلو چائے بنائو، خود پیو اور مجھے بھی پلائو‘‘۔

وہ کچن میں چلی گئی۔ میں بھی غصے سے اخبار پھینک کر ٹی وی بند کر کے سوچنے لگی۔ واقعی پتہ نہیں چلتا۔ کس کی حکومت ہے۔ دو صوبوں میں 3مہینے کیلئے جو حکومتیں بنی تھیں وہ آج تک کس کے کہنے، آرڈر پر؟اپنے صوبے میں ممبر پارلیمنٹ جو ان کی خوشامد کرتے ہیں اور پوچھتے نہیں کہ آپ کس قانون کے تحت حکومت کر رہے ہیں۔ پیسے بانٹ رہے ہیں ۔ دورے کر رہے ہیں۔ یہی حال دوسرے صوبوں کا ہے۔ بلوچستان میں تو کوئی بولتا ہی نہیں۔ سوائے قتل اور دھماکوں کے ۔ سندھ میں کئی دن سے ایک وزیر صاحب سارے کیمرے اکٹھے کر کے بیان ایسے دے رہےہیں جیسے وفاقی وزیر ہوں۔ مولوی صاحبان کانفرنس کر کے فوج کو ہلا شیری دے رہے ہیں۔ سارے اسکول، مزدور، سرکاری ملازم ، اسکولوں کے بچے، یونیفارم میں جلوس نکال کر، غربت کی بات نہیں، لاقانونیت اور مہنگائی کی بات نہیں۔ یہ کمسن بچے فوج کی حمایت میں جلوس نکال رہے ہیں۔ملک میں امن کی بات نہیں۔ یہی فوج آج آپ کے ملک پہ حکومت کرنے کو اقتدار کی کرسی پہ بیٹھ جائےتو اس طرح پھر جلوس نہیں نکلیں گے۔ پھر کچھ صحافی اور دانشور کالی پٹیاں باندھ لیں گے۔ مہنگائی وہیں رہے گی۔ آبادی یونہی بے تحاشہ بڑھتی رہے گی۔ اسکولوں میں نہ جانے والوں کی تعداد بڑھے گی۔ گزشتہ اور موجودہ سول گورنمنٹ کے نام پر، تمام لوگ اپنی اپنی کرسی سے ہلنے کو تیار نہیں۔ البتہ بیانات کی کھیپ، روز کے اخباروں کی ردی میں اضافہ اور گھروں میں بچوں کی ریل پیل جاری رہے گی۔

آخر کب تک یہ انتخابات کا ڈھونگ ، کب تک وہی چہرے پھر سے بہت سرمایہ ٹکٹ کا دے کر اسمبلیوں میں آتے رہیں گے۔ اسی طرح ایوب خان کے زمانے سے اب تک جو گل کھلاتے رہے ہیں۔ کبھی سب سرکاری اور فوجی حضرات ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنے لئے پلاٹوں کا انتظام اور بچوں کو باہر پڑھا کر وہیں رہ جانے کا سبق پڑھاتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی مستری یا درزی ملک میں واپس آتا ہے ورنہ بس وطن کی یاد کا وظیفہ ہر شام کو پڑھتے ہیں ۔ بوڑھے والدین میں سے کوئی مرتا ہے تو دفنانے کی رسم پوری کرنے اور بقایاجات کو سمیٹنے آجاتے ہیں۔

جہاں تک انتخاب اور پھر نواز شریف یا عمران کے واپس آنے کے امکانات کی چند خوش دماغ باتیں کرتے ہیں۔ وہ دنیا میں بدلتی صورت حال، ملکوں کے بدلتے نقشے پر غور ہی نہیں کرتے۔ اب تو کپڑوں کی طرح سیاست کے نامہ بروں کی سیل شروع ہے۔ ویسے ہمارے یہاں نہ جمہوریت ہے، نہ آمریت، ہمارے یہاں ایجنسیوں کی ایسی مضبوط حکومت ہے کہ وزیر اعظم کو بھی بتایا جاتا ہے کہ فلاں فلاں خطرہ ہے۔ جب کچھ اور غلط ہو جاتا ہے جو اکثر ہوتاہے، چاہے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کی حکومت یا سارے ملک میں زرعی زمینوں کو بلڈنگوں میں بدلنےکی حکمت عملی، کوئی المیہ ہو جائے تو کسی رقیب کے نام تھوپ کر کہا جاتا ہے۔ کوئی اگر میلی آنکھ سے دیکھے گا، اس کی آنکھ نکال دی جائیگی۔ وغیرہ وغیرہ۔ سب کی تقریروں کےمتن میں ذرہ برابر لفظوں کی نشست و برخاست میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ آج کل یوکرین کے بے معنی صدر کوساری دنیا کی بڑی حکومتیں کیوں سلامی دینے اور صدقہ اتارنے کیلئے بہت کچھ دینے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ سعودیہ، ایران ، متحدہ امارات کے اچانک جاگ اٹھنے اور چینیوں کے ساتھ روابط کی کوششوں میں مرکز میں ہر جانب سے بیچ میں پاکستان آتا ہے۔ ہم اگر عقل سے کام لیں تو ان سارے ملکوں کی تجارت اور امارت(دونوں سے بھیک نہ مانگیں)فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مگر ہم سے گزشتہ دس سال میں سی پیک ہی نہ بن سکا۔ اس منصوبے کے پاکستانی تھانیدار، کچھ نہ کچھ لے کر، روانہ ہوئے ہیں۔ چین کی چغل خوری بھی کرتےہیں۔ دعویٰ یہ ہےکہ ایک سڑک کیا، ہم تو پورا ریل کا نظام چین سے بخارا تک بنائیں گے۔ جبکہ 75برسوں میں ڈبل ریلوے ٹریک نہیں بن سکے۔ اب میں ذرا ٹھنڈا پانی پی لوں۔ بہت ہو گئی سادہ گوئی۔