اسلامک سینٹر یا مسجد سے مُتصل اسپورٹس کلب کا انتظام

June 02, 2023

تفہیم المسائل

سوال: یورپ میں فحاشی وعریانی عام ہے ، نوجوان لڑکے ،لڑکیاں مساجداور دینی محافل سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں ۔کیا ایسے ماحول میں نوجوانوں کو مسجد کی طرف مائل کرنے کے لیے مسجد کی طرف سے اسپورٹس مثلاً ٹیبل ٹینس وغیرہ کرسکتے ہیں ،مقصد صرف نوجوانوں کو مسجد میں لانا، مسجد کو آباد کرنا اور دینی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا ہے؟ (مولانا محمد فارس ، ہالینڈ)

جواب: اسلامی تعلیمات انسانی زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال اور توازن پر مبنی ہیں ،ایسے کھیل جو کسی دینی یا دنیوی منفعت پر مبنی ہوں ، جن سے جسمانی ورزش بھی ہوتی ہو ، اسلام اُس کی اجازت دیتاہے ،بشرطیکہ وہ خلافِ شرع حرکات اورفواحش پر مبنی نہ ہوں۔ مسجد /اسلامک سینٹر جس احاطے میں قائم ہے ، اگر اصلِ مسجد سے الگ کسی ہال میں ٹینس کورٹ یا مثبت تفریح کا کوئی کام کیاجائے، جن سے صحت اور ورزش کے تقاضے بھی پورے ہوجاتے ہوں ، تو شرعاً کوئی حرج نہیں، البتہ مسجد کا تقدُّس اور اس کا احترام مجروح نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح عبادات میں خلل واقع نہ ہو اور شور شرابہ بھی نہ ہو ، اُس جِم یا کلب میں لڑکے اور لڑکیوں کا مخلوط اجتماع نہ ہو، بلکہ ممکن ہو تو لڑکے اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ جگہ مختص کی جائے یا دونوں کا اس کلب /جِم میں آنے جانے کا وقت جدا ہو ، لباس ایساہو ،جس سے ستر کے شرعی تقاضے پورے ہوتے ہوں ، نیکر یا مختصر لباس کا استعمال نہ کیاجاتا ہو ،تو ٹیبل ٹینس یا کسی بھی مناسب اسپورٹس کا اہتمام کیاجاسکتا ہے ،جبکہ اس کا بنیادی مقصد بھی نوجوانوں کو مسجد اوردینی تعلیم وتربیت کی طرف راغب کرنا اور فواحش میں مبتلا ہونے سے بچانا مقصود ہو۔

حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’ ہروہ (بیہودہ) لہوولعب جس میں مسلمان مشغول ہو باطل وناجائز ہے،البتہ اس کا تیر اندازی کرنا، گھڑسواری کرنا اور اپنے بیوی بچوں سے دل لگی کرنا، تو بلاشبہ یہ امور جائز اور مباح ہیں، (سُنن ترمذی :1637)‘‘۔ اس زمانے میں تیر اندازی اور گُھڑ سواری جہاد کی ضروریات میں سے تھیں ، آج کل شوٹنگ وغیرہ کی تربیت کے مراکز موجود ہیں اوریہ مشق ذاتی دفاع اور شکار میں کام آتی ہے اور حلال جانوروں کا شکار شرعاً جائز ہے۔

اس روایت کو امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں بھی ذکر کیا ہے، اس کی تشریح میں شارح ابوداؤد علامہ خطابی لکھتے ہیں :ترجمہ:’’رسول اللہ ﷺنے جن کھیلوں کا استثناء فرمایا ہے، ان میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے ،کہ یہ وہ کھیل ہیں ،جو (مقاصدِ)حق میں مددگار ہوتے یا اس کا ذریعہ بنتے ہیں ، وہ جائز ہیں، جیسے ہتھیار چلانا سیکھنا، دوڑنا وغیرہ انہیں انسان ورزش کے طور پر کرتا ہے اور ان سے بدن میں طاقت آتی ہے اور دشمن کے مقابلے میں تقویت ملتی ہے،(مَعَالِمُ السُّنَن ،جلد2،ص:242)‘‘۔