توبہ و استغفار کے فوائد و اثرات

September 15, 2023

مولانا محمد کامران اجمل

اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت مملکت خداداداسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک افراتفری مچی ہوئی ہے، جو متوسط طبقہ تھا ،وہ غربت کی سطح پر اتر گیا اور جو غریب تھا، وہ غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے، کوئی خود کشی کرنے پر مجبور ہے تو کوئی دوسروں کے رحم وکرم پر جی رہا ہے ، مال دار طبقہ بھی کسی طرح مطمئن نہیں ہے، کیونکہ ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر کوئی بیرون ِملک شفٹ ہونے کی کوشش میں ہے ،کوئی حکومتوں سے ساز باز کرکے کسی بڑے مقصدکے حصول میں مصروف عمل ہے۔ غرض ہر شخص اس وقت ایک عجیب مخمصہ کا شکار ہے ، ایسی صورت میں اگر دیکھا جائے تو ہر مجبور شخص روٹی ،کپڑا، مکان اور اب تو ساتھ میں بل ٹیکس اور طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا ہوکر نعروں میں لگا ہوا ہے ، ایسی صورت میں ضرورت ہے کہ ملک کے موجودہ حالات کو قرآن کریم کی نظر میں دیکھا جائے کہ ہمارے ان حالات کا بنیادی سبب اوراس کی وجہ کیا ہے۔

سب سے بڑی وجہ جو ہمیں سمجھ میں آتی ہے، وہ مملکتِ خداداد پاکستان کی ناقدری اور ناشکری ہے ، اس لیے کہ ناشکری کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ جن عذابوں میں مبتلا فرماتا ہے، وہ سب ہم پر صادق آرہے ہیں ،ملاحظہ فرمائیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اللہ تعالیٰ ایسی بستی والوں کی مثال بیان فرماتا ہے کہ جو امن و اطمینان سے جی رہے تھے ،ان کا رزق ان کے پاس وسعت کے ساتھ ہر طرف سے آتا تھا انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی ، اللہ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس ان کے کرتوتوں کی وجہ سے پہنایا ‘‘۔(سورۂ نحل : ۱۱۲)

اس آیت سے صاف واضح ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری و ناشکری کی جائے تو ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ بھوک و خوف کے عذاب میں مبتلا فرماتا ہے ، یہی حال ہمارا ہے، مملکت خداداد پاکستان جو ایک نعمت خداوندی ہے اور رزق و امن اسے حاصل ہوا ،پھر اس نعمت کی ناشکری کی اور اب بھوک وخوف کے عذاب میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

قوم سبا کے بارے میں یہی جملہ ارشاد فرمایا کہ انہیں خوب نعمتیں عطا کی تھیں ،انہوں نے ناشکری کی تو ان پر عذاب بھیج کر سب کچھ ختم کردیا، سوائے خار دار جھاڑیوں اور چند معمولی پھلوں کے علاوہ کچھ نہیں بچا ،اس لیے یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ جب کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری ہوگی تو اللہ ڈھیل دیتا ہے، لیکن اللہ ناشکری پر پکڑ فرمائے تو پھر اللہ کا عذاب بہت سخت ہے ،لیکن اگر اپنے گناہوں کی وجہ سے انسان کسی آزمائش میں آجائے تو اس کے ختم کرنے کا بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے طریقہ بتا دیا ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی قرآن میں بیان فرمایا کہ انہوں نے کہا : اپنے رب کے حضور استغفار کرو (وہ تمہیں پانچ نعمتیں دے گا ، اور یقین ًرکھنا کہ وہ معاف ضرور کرے گا کیونکہ ) وہ بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے (وہ پانچ نعمتیں یہ ہیں :) ۱۔ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا ۔ ۲۔تمہاری مال کے ذریعے۔ ۳۔ اولاد کے ذریعے مدد کرے گا۔ ۴۔ تمہیں باغات عطا فرمائے ۵۔ اور نہریں عطا فرمائے گا۔(سورۂ نوح ۱۱ تا ۱۴ )

ان آیات سے پتا چلا کہ استغفار پر اللہ تبارک وتعالیٰ آسمان وزمین اور اس کے درمیان کی نعمتیں انسان کو عطا فرماتا ہے ، ملاحظہ فرمائیں پہلی نعمت کا تعلق آسمان سے بتایا ، دوسری اور تیسری کا تعلق آسمان وزمین کے درمیان سے بتایا اور چوتھی و پانچویں کا تعلق زمین سے بتایا ، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آسمان وزمین اور اس کے درمیان کی نعمتیں اللہ تعالیٰ استغفار کی برکت سے عطا فرمائے گا، اب استغفار سے پانچ نعمتیں مل رہی ہیں ،لیکن ہماری جو پوری زندگی کی ضروریات ہیں جسے ہم اپنے نعروں میں ذکر کرتے ہیں(یعنی روٹی کپڑا اور مکان ) وہ صرف اس میں ایک اموال سے متعلق ہے ، اس کے علاوہ کی نعمتیں مال کے ذریعے حاصل نہیں کی جاسکتیں ، اسی لیے مصنوعی بارشیں اب تک کارآمد نہیں بنی ، بلکہ اسے صرف سازشوں اور دیگر کاموں کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، اور نہ ہی اولاد مال کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے، جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہیں اولاد نہیں مل سکتی ، بچوں کا گود لینا اولاد کی نعمت کی طرح نہیں ہے ، غرض انسان اولاد کی نعمت مال کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتا ۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ اولاد خالص اللہ کا فضل ہے جو مال کے ذریعے حاصل نہیں ہوسکتا۔

چوتھی چیز باغات ہیں یعنی زمین کو اللہ تعالیٰ زرخیزی نصیب فرمائے گا، اگرچہ شہروں میں بسنے والے ان باغات اور کھیتیوں کو دیہاتی زندگی سےملائیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر زمین میں زرخیزی نہ ہو تو شہروں میں بسنے والے آٹے دال تک کے لیے ترس جائیں ان ممالک کی طرح جن کے پاس پیسہ وافر مقدار میں ہے، لیکن ان کی خوراک مکمل باہر پر مدار رکھتی ہے ، جب تک باہر سے کچھ نہ آجائے اور پھر جیسا کیسا بھی ہو ،انہیں وہی استعمال کرنا پڑتا ہے، تو زمین کی زرخیزی مال سے نہیں ہوتی ،یہ زرخیز زمین اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اللہ فرماتا ہے کہ یہ میں استغفار کی برکت سے عطا کردیتا ہوں۔

پانچویں چیز جس کا اس آیت میں تذکرہ ہے ، وہ نہریں ہیں ، سمندر اگرچہ بہت بڑا ہے اور دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر غالب ہے ،لیکن زمینی فوائد جتنے نہروں کے پانی سے حاصل کیا جاتے ہیں، اس قدر سمندر کے پانی سے نہیں کیے جاسکتے ، بعض حضرات نے تو اس دور کی جنگوں کو ہی میٹھے پانی سے جو ڑ دیا ہے کہ اس وقت دنیا کی ایک بڑی جنگ میٹھے پانی کی وجہ سے ہوگی، اس سے حاصل ہونے والے معدنیات جو اس دور کے نظام کو چلانے کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں وہ سب کچھ اس میٹھے پانی سے ملائے جاتے ہیں، اور یہ نعمت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں استغفار کی برکت سے عطا کروں گا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ آسمان وزمین اور اس کے درمیان کی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ نے استغفار کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے زمین میں جو فساد برپا ہے ،وہ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے ہے، اگر ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کے احکامات کی مخالفت کرتا ہے تو وہ دنیا میں نقصان اٹھائے گا، اور اس کا ظاہری مسلمان ہونا اسے اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے آنے والے عذاب کو نہیں ٹال سکتا ، اس کے برعکس اگر ایک کافر دنیا میں احکامات خداوندی کی پاس داری کرے تو اس کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ اس دنیا میں چین وسکون لکھ دیں گے اور دنیا میں ظاہر دین پر عمل کرنا اس کے لیے پریشانیوں سے نجات کا باعث بن جائے گا ،اس طرح کے کئی واقعات کتابوں میں موجود ہیں۔

دنیا میں جن ممالک میں امن وامان ہے ،اسے دیکھ لیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ ان ممالک میں امن وامان سے متعلق شریعت مطہرہ کے احکامات کی پاس داری ہوگی ، چاہے وہ اسے اپنا قانون کہیں یا کامیاب بادشاہوں کے لاگو کردہ قوانین کہہ کر اسے اپنے ملک میں رائج کریں اور جن اسلامی ممالک میں باوجود مسلمان ہونے کے امن وامان نہیں، اس کی وجہ مسلمانوں کا ہونا نہیں، بلکہ وہاں اسلامی احکام کا نفاذ نہ ہونا ہے، جن ممالک میں ظلم کی سزا حکومت دے گی، چاہے وہ مسلمان ملک ہو یا کافر وہاں امن ہوگا اور جہاں ظلم کے لیے قوانین میں تفریق ہو چاہے وہ مسلمان ملک ہو یا کافر وہاں بدامنی ہوگی ،کرپشن اسلام میں ممنوع ہے تو جہاں کرپشن ہوگی ،تباہی ہوگی ،جہاں کرپشن نہیں ہوگی وہاں ترقی ہوگی، اس لیے یہ ذہن نشین کرنا لازمی ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا جس طرح دنیا میں مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے گا، اسی طرح کافر کو بھی پہنچائے گا۔

پھر کچھ گناہ انفرادی ہوتے ہیں اور کچھ گناہ اجتماعی ہوتے ہیں ۔انفرادی گناہوں میں توبہ بھی انفرادی ہوجایا کرتی ہے، لیکن اجتماعی گناہ میں توبہ کی بھی اجتماعی ضرورت پڑتی ہے ، اگر ملک میں عمومی فضا گناہوں کی ہو تو ایسی صورت میں اجتماعی توبہ ہونی چاہیے ،ورنہ لوگ دلائل دیتے رہ جائیں گے اور اللہ کا عذاب سب پر مسلط ہوکر ختم کردے گا۔ استغفار کی بدولت اللہ تعالیٰ آئے ہوئے عذاب کو بھی ٹال دیتا ہے ، چنانچہ قوم یونس کے ساتھ جس عذاب کا وعدہ ہوا تھا ، ان کے اجتماعی توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان سے اس عذاب کو ٹال دیا اور انہیں محفوظ فرمایا ، اس لیے اس وقت ملک پاکستان میں ضرورت اجتماعی توبہ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرماتا ہے۔لیکن اس کے لیے اس کے احکام پر عمل ضروری ہے، نوح علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا کہ استغفار کرو بے شک اللہ بہت زیادہ مغفرت کرنے والا ہے۔

اب ہر انسان اپنے گناہوں کے بقدر توبہ کرے استغفار کرے، اگر ایک کبیرہ گناہ ہوگیا ہے تو کم از کم ایک ہزار بار تو استغفار کرلے ، رسول اللہ ﷺ جن کا نہ کوئی صغیرہ گناہ تھا ،نہ کبیرہ ،وہ بھی اس قدر استغفار کا اہتمام فرماتے تھے کہ ایک ایک مجلس میں بسا اوقات سو سو بار استغفار فرمایا کرتے اور مجلس کے اختتام کی دعا ہی استغفار ہے ، جب وہ ذات جس کا نہ صغیرہ گناہ ہے ،نہ کبیرہ ،وہ استغفار کا اتنا اہتمام فرمائیں تو جن کا دن بھر گناہوں میں گزرے ، جھوٹ ، چغل خوری ، غیبت ،حسد ، دھوکا دہی ، مکاری وغیرہ جیسے بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہوں تو وہ کیسے استغفار سے خود کو دور رکھنے کو صحیح سمجھتے ہیں۔

اس لیے یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اگر انسان استغفار کر رہا ہے اور اس کے مسائل حل نہیں ہو رہے تو وہ یہ بات جان لے کہ استغفار کی مقدار ابھی کم ہے، کیونکہ اگر مطلوبہ مقدار میں استغفار پوری ہوتی تو اللہ تعالیٰ ضرور عطا فرماتا، کیونکہ وہ غفار ہے بہت مغفرت کرنے والا ہے اور اس استغفار پر نعمتیں عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے تو پورا بھی ضرور کرے گا، کیونکہ وہ وقار (متانت وعظمت ) والا بھی ہے اور باوقار اپنے وعدے کو کبھی توڑا نہیں کرتا۔ اس لیے اگر استغفار کے باوجود بھی معاملہ حل نہیں ہو رہا تو پھر استغفار کی مقدار بڑھائیں، تاکہ وہ قبولیت کے قریب تر ہوجائے ، اور پھر اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں عطا فرمائے گا۔

استغفار میں کوئی مخصوص الفاظ نہیں ہیں ،بلکہ اگر استغفر اللہ بھی پڑھ لے تو کافی ہے ، فضول تبصروں اور ادھر ادھر کی ہانکنے سے بہتر ہے کہ انسان استغفار ہی کرلے ، اپنے کام کاج کے ساتھ بھی انسان استغفار کو جاری رکھ سکتا ہے ،اس کے لیے مستقل الگ سے بیٹھنا لازمی نہیں ہے ،بلکہ چلتے پھرتے، وضو بغیر وضو ہر حال میں استغفار کیا جاسکتا ہے ، استغفار چڑھاوے چڑھانے کا نام نہیں ہے، بلکہ اپنی زبان سے اپنے رب کے سامنے کہنے کا نام ہے ، اس لیے مرد وزن سب اس بات کا اہتمام کریں کہ دن میں کم از کم تین ہزار بار استغفار تو کرلے، اگر کسی گناہ میں مبتلا ہے تو اسے چھوڑ دے، نہیں چھوٹ رہا تو اپنے اوپر لازم کرلے کہ اگر یہ گناہ ہوا تو اس کے بدلے اتنے ہزار بار استغفار پڑھوں گا، ان شاء اللہ ، جلد اس گناہ سے بچنے کی بھی اللہ توفیق عطا فرمائے گا، اس لیے اگر اپنی زندگی میں اور ملک پاکستان میں سکون واطمینا ن والی زندگی چاہیے تو ہمیں استغفار کرنا ہوگا، عملی بھی ، جو ہم نے اللہ کی نافرمانی کی، ظلم کے معاملے میں جو گناہ سرزد ہوئے یا کرپشن جیسے گناہوں میں مبتلا ہوئے ان سب سے توبہ کرنی ہوگی، تب جاکر کہیں ہمیں سکون والی زندگی نصیب ہوگی ، توبہ و استغفار میں ہمارا فائدہ ہے کسی اور کا نہیں ، اس لیے جو کثرت سے استغفار کرے گا، وہ اپنی زندگی میں انقلاب اور تبدیلی دیکھے گا اور جو استغفار کو فضول سمجھتا ہو اور صرف سڑکوں پر نکلنے کو اصل سمجھتا ہو، وہ بھی اپنے عمل کا نتیجہ دیکھے گا ،اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں کثرت سے استغفار کرنے والا بنائے اور ہمارے ملک پاکستان کو ہر طرح کی آفات سے محفوظ فرمائے ۔( آمین)