’’شعبان المعظم‘‘ تقویمِ اسلامی کا آٹھواں مہینہ

February 16, 2024

سلطان محمد فاتح

’’شعبان المعظّم‘‘ اسلامی سال کا آٹھواں قمری مہینہ ہے، یہ رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کے بابرکت مہینے ’’رمضان المبارک‘‘ کا دیباچہ، سن ہجری کا اہم مرحلہ اور نہایت عظمت و فضیلت کا حامل ہے۔ خاتم الانبیاء، سیّدالمرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس مہینے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے، اس سلسلے میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’شعبان شہری‘‘ (دیلمی) شعبان میرا مہینہ ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ماہِ رجب کے آغاز پر آپﷺ یہ دعا فرماتے تھے: ’’اللّٰھمّ بارک لنا فی رجب و شعبان و بلّغنا رمضان۔‘‘ (ابن عساکر) ’’اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمارے لیے برکت پیدا فرما اور (خیر و عافیت کے ساتھ) ہمیں رمضان تک پہنچا۔‘‘(بحوالہ: ڈاکٹر انیس فریحہ/ اسماء الاشہر فی العربیۃ و معانیھا ص 70)’’شعبان‘‘ کی ایک وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ ’’شعب‘‘ سے مشتق ہے، جو اژدہام اور اجتماع کے معنیٰ میں آتا ہے، اس بابرکت مہینے میں چوں کہ خیر کثیر کا اجتماع ہوتا ہے، اس لیے اسے شعبان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، ایک قول یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’شعب‘‘ ظہر یعنی پُشت یا پیچھے یا درمیان میں ہونے کے معنیٰ میں ہے، چوں کہ یہ مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان میں ہے، لہٰذا اسے ’’شعبان‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ (اسماء الاشہر فی العربیۃ و معانیھا ص 69)

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ اس کا نام شعبان اس لیے رکھا گیا کہ روزے دار کی نیکیوں میں شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا اور یہ بڑھتی جاتی ہیں۔ محبوب سبحانی سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں شعبان میں پانچ حروف ہیں، ش، ع، ب، ا، اور ن، ان میں سے ہر حرف اس ماہ کی عظمت اور بزرگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ چناں چہ ’’ش‘‘ اس ماہ کے شرف و عظمت اور بزرگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ’’ع‘‘ اس کی بلندی کی جانب، ’’ب‘‘ سے مراد بِر یعنی نیکی ہے، ’’الف‘‘ سے مراد اُلفت اور ’’ن‘‘ کا حرف نور کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ یہ پانچوں انعامات ’’شعبان المعظم‘‘ میں اللہ عزوجل کی جانب سے بندوں کو عطا کیے گئے ہیں۔(غنیۃ الطالبین ص 356)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شعبان کی عظمت اور بزرگی دوسرے مہینوں پر اسی طرح ہے، جس طرح مجھے تمام انبیاءؑ پر عظمت اور فضیلت حاصل ہے۔ امام الانبیاء، سیّد المرسلین، افضل الرسل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکا اس ماہِ مبارک کی نسبت اپنی جانب کرنا اس کی عظمت و فضیلت اور قدرو منزلت کی ایک روشن دلیل ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسالت مآبﷺ اس مہینے کا چاند دیکھ کر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اے اللہ! رجب اور شعبان میں ہمارے لیے برکت پیدا فرما اور خیر اور سلامتی کے ساتھ ہمیں رمضان تک پہنچا۔(یعنی رمضان المبارک کے استقبال اور احترام کی توفیق عنایت فرما) حقیقت یہ ہے کہ شعبان المعظّم دراصل رمضان المبارک کی تیاری کا مہینہ ہے اور اس ماہ کی پندرہویں شب میں، شب برأت شب قدر کی برکات اور اس کے انوار و تجلیات قبول کرنے کے لیے بندوں کو مستعد اور تیار کرتی ہیں۔

چناںچہ شب برأت توبہ و استغفار،عبادت و مناجات کے ذریعے دل کی زمین کو نرم کرتی ہے، تاکہ رمضان المبارک اور شب قدر کے روحانی انوار دل کے ایک ایک رگ و ریشے میں پیوست ہو جائیں۔ شب برأت تو بہ و استغفار اور عبادت و مناجات کے قیمتی لمحات اور وہ صبح صادق ہے جو آفتاب روحانیت(نیکیوں کے موسم بہار،رحمت،مغفرت اور جہنم سے نجات کے بابرکت مہینے) کے طلوع ہونے کی خوش خبری دیتی ہے۔ روحانیت کا آفتاب نزول قرآن کا بابرکت مہینہ رمضان المبارک ہے۔امّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ میں نے سوائے شعبان کے مہینے کے(رمضان کے علاوہ) کسی اور مہینے میں رسول اللہﷺ کو کثرت سے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپﷺ کو یہ بہت محبوب تھا کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملا دیں۔(سنن بیہقی)

جمہور علماء،محدثین اور مفسرین نے شعبان کی فضیلت و اہمیت اور اس مبارک مہینے کی پندرہویں شب یعنی ’’شب برأت‘‘ کی قدر ومنزلت کے حوالے سے متعدد روایات بیان کی ہیں۔’’شب برأت‘‘ کے کئی نام ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں۔(1)لیلۃ الرحمۃ:اللہ تعالیٰ کی رحمتِ خاصہ کے نزول کی رات۔(2)لیلۃ المبارکۃ: برکتوں والی رات۔(3)لیلۃ البرأ ۃ:جہنم سے نجات اور بری ہونے والی رات۔(4)لیلۃ الصّک:دستاویز والی رات۔جب کہ عام طور پر اسے ’’شب برأت‘‘کہا جاتا ہے۔ ’’شب‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے،جس کے معنیٰ رات کے ہیں اور برأت عربی زبان کا لفظ ہے ۔جس کے معنیٰ بری ہونے اور نجات پانے کے ہیں۔ اس لیے اسے شب برأت کہا جاتا ہے ۔ چوںکہ اس مقدس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد بندگان خدا جہنم سے نجات پاتے ہیں۔ اس لیے اسے ’’شب برأت‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

شب برأت کی فضیلت و اہمیت کے حوالے سے جلیل القدر صحابۂ کرام ؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ ،حضرت علی مرتضیٰؓ، امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ ،حضرت ابوہریرہ ؓ،حضرت عوف بن مالک ؓ ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ،حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ،حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ، حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کے علاوہ بعض جلیل القدر تابعین ؒ سے بھی متعدد روایات منقول ہیں۔

حضرت عثمان بن ابی العاصؓ سے روایت ہے کہ رسالت مآبﷺ نے ارشاد فرمایا:جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ عزو جل کی جانب سے (ایک پکارنے والا) پکارتا ہے۔ کیا کوئی مغفرت کا طلب گار ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں؟ کیا کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا کر دوں؟ اس وقت پروردگار عالم سے جو مانگتا ہے، اسے ملتا ہے، سوائے بدکار عورت اور مشرک کے۔ ‘‘(بیہقی/شعب الایمان 83/3)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ سوائے مشرک اور کینہ ور کے سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ (مجمع الزوائد 65/8)حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’جب شعبان کی پندرہویں شب (شب برأت) ہوتی ہے تو رب ذوالجلا ل اپنی مخلوق پر نظر ڈال کر اہل ایمان کی مغفرت فرما دیتا ہے، کافروں کو مہلت دیتا ہے، اور کینہ وروں کو ان کے کینے کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے تاوقت یہ کہ وہ توبہ کر کے ،کینہ وری چھوڑ دیں‘‘۔(بیہقی /شعب الایمان 3/381)

جب کہ مختلف روایات میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ بے شمار بدنصیب افراد ایسے ہیں کہ وہ اس بابرکت رات کی عظمت و فضیلت اور قدر و منزلت سے دور رہتے اور اللہ عزو جل کی بخشش ورحمت سے محروم رہتے ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت نہیں ہوتی۔ وہ بدنصیب افراد یہ ہیں:مشرک۔جادوگر۔کاہن اور نجومی۔ناجائز بغض اور کینہ رکھنے والا۔جلاد۔ظلم سے ناجائز ٹیکس وصول کرنے والا۔جوا کھیلنے والا۔ گانے بجانے والا اور اس میں مصروف رہنے والا۔ٹخنوں سے نیچے شلوار ، پاجامہ تہہ بند وغیرہ رکھنے والا۔زانی مرد و عورت ۔والدین کا نافرمان۔شراب پینے والا اور اس کا عادی۔ رشتے داروں اور اپنے مسلمان بھائیوں سے ناحق قطع تعلق کرنے والا۔

یہ وہ بدقسمت افراد ہیں جن کی اس بابرکت اور قدر و منزلت والی مقدس رات میں بھی بخشش نہیں ہوتی اور وہ بدبختی،بداعمالی اور گناہوں کے سبب اللہ کی رحمت اور مغفرت سے محروم رہتے ہیں۔ الّا یہ کہ وہ ’’توبۃ النصوح ‘‘ یعنی سچی توبہ کرلیں، اس لیے کہ توبہ درحقیقت گناہوں کی معافی کا ذریعہ اور گناہوں کا کفارہ ہے۔

در توبہ کھلا ہوا ہے اور یہ قیامت تک کھلا رہے گا ۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے باب توبہ(توبہ کا دروازہ)کا ذکر فرمایا تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا،باب توبہ کیا اور کہاں ہے؟ آپﷺ نے فرمایا جہاں سورج غروب ہوتا ہے، یہ اس کے پیچھے ہے،اس کے دونوں کواڑ سونے کے ہیں،جن پر موتی اور یاقوت جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں کواڑوں کے درمیان کا فاصلہ دروازے کی چوڑائی اتنی ہے کہ ایک تیز رفتار سوار چالیس سال میں اسے طے کر سکتا ہے۔ یہ اس روز سے کھلا ہے، جس روز اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تھا اور اس دن کی صبح تک کھلا رہے گا، جس دن (قیامت سے قبل) سورج مغرب سے طلوع ہوگا، جو شخص سچی توبہ کرتا ہے، اس کی توبہ اس میں داخل ہو جاتی ہے۔

حضرت معاذ بن جبل ؓ نے یہ کہتے ہوئے کہ یارسول اللہﷺ، میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان،عرض کیا،یہ سچی توبہ( توبۃ النصوح) کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: گناہ گار اپنے گناہ پر شرمندہ ہو،اللہ سے معافی چاہے اور عہد کرے کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا ۔(ابو اللّیث سمر قندی /تنبیہ الغافلین ص125)علماء و محدثین کے مطابق شب برأت کی فضیلت لیلۃ القدر کے بعد ہے،یعنی شب قدر سے کم ہے،تاہم اس کی فضیلت اور قدرو منزلت سے انکار کرنا کسی بھی طرح درست نہیں۔ حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں:’’لیلۃ القدرکے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے زیادہ کوئی رات افضل نہیں۔ ‘‘

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری پیشی سے حکم ہو کر طے کیا جاتا ہے۔(سورۂ دخان) یعنی اس رات پورے سال کا حال قلم بند ہوتا ہے، رزق، بیماری، تن درستی، فراخی، راحت، تکلیف، حتیٰ کہ ہر وہ شخص جو اس سال پیدا ہونے والا یا مرنے والا ہو،اس کا مقررہ وقت بھی اسی شب لکھ دیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (اے عائشہ ؓ) کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس رات یعنی شعبان کی (پندرہویں شب) میں کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ (اس شب) کیا ہوتا ہے؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا:اس شب میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہیں، ان سب کے متعلق لکھ دیا جاتا ہے اور جتنے اس سال فوت ہونے والے ہیں، ان تمام کے متعلق بھی لکھ دیا جاتا ہے، اس شب تمام بندوں کے(سارے سال کے) اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات لوگوں کی مقررہ روزی اترتی ہے۔(مشکوٰۃ، ص115)

حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک فہرست ملک الموت کو دے دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ جن جن لوگوں کا نام اس فہرست میں درج ہے، ان کی روحوں کو قبض کرنا، (چناںچہ حال یہ ہوتا ہے کہ) کوئی بندہ تو باغ میں پودا لگا رہا ہوتا ہے، کوئی شادی بیاہ میں مصروف ہوتا ہے،کوئی مکان کی تعمیر میں مصروف ہوتا ہے، حالانکہ ان کا نام مردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔(شیخ عبدالحق محدث دہلوی /ماثبت بالسنۃ ص353)

محبوب سبحانی،حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ’’اس کیفیت کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:٭بہت سے لوگوں کے کفن تیار ہو چکے ہیں، مگر وہ ابھی تک بازاروں میں خریدو فروخت میں مصروف اور اپنی موت سے غافل ہیں۔٭بہت سے لوگوں کی قبریں کھد کر تیار ہو چکی ہیں،مگر ان میں دفن ہونے والے غفلت سے خوشیاں مناتے پھر رہے ہیں۔٭بہت سے لوگ ہنستے اور خوشیاں مناتے پھرتے ہیں، حالانکہ وہ بہت جلد ہلاک ہونے والے ہیں۔ ( غنیۃ الطالبین)

یہ مقدس شب رحمت و مغفرت اور قدر و منزلت والی ہے،اس بابرکت رات کی مقدس گھڑیوں میں جو چودہ شعبان کے سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی اور پندرہ شعبان کی صبح صادق ہونے تک رہتی ہے۔ بارگاہِ رب العزت کی رحمت و مغفرت کا ابرکرم خوب جم کر برستا ہے۔امّ المومین حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’بلا شبہ اللہ تبارک و تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کی مغفرت فرما دیتا ہے۔(ترمذی 156/1،مسند احمد (238-6

عرب میں بکریاں پالنے کا عام رواج تھا، تاہم اس حوالے سے قبیلہ بنو کلب کو خاص شہرت حاصل تھی۔ اس قبیلے کے پاس سب سے زیادہ بکریاں تھیں، بعض محدثین اور سیرت نگاروں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ بنو کلب کی بکریاں بالوں کی کثرت کے حوالے سے خاص طور پر مشہور تھیں، ایک بکری کے جسم پر بالوں کا شمار جس طرح ممکن نہیں، اسی طرح اللہ رب العزت اس مقدس شب بے شمار بندوں کی مغفرت فرما کر انہیں بخشش اور جہنم سے نجات کا پروانہ عطا فرماتا ہے۔

شیر خدا سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جب شعبان کی پندرہویں شب آئے تو رات کو نماز پڑھو اور اگلے دن روزہ رکھو، کیوںکہ غروب شمس سے صبح صادق کے طلوع ہونے تک اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے:’’ہے کوئی مجھ سے بخشش کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اسے رزق دے دوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں؟ ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ویسا؟(بیہقی /شعب الایمان378/3)

امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس مقدس شب یہ دعا فرماتے تھے:’’ اَعُوذُ بِعفوکَ مِن عِقابِک،اَعُوذُ بِرضاکَ مِن سَخطِکَ واَعُوذُ بِکَ مِنکَ جَلّ وجھِکَ، اللّٰھُمِّ لا اُحصی ثنآءَ علیکَ، اَنتَ کمااَثنیتَ علیٰ نفسِکَ ‘‘۔(سنن بیہقی)اے اللہ ! میں تیرے عفو کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیری سزا سے اور تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیرے غصے اور ناراضی سے اور پناہ چاہتا ہوں تیری سختیوں سے، یا اللہ، میں آپ کی تعریف شمار نہیں کر سکتا،آپ کی ذات ایسی ہی بلند وبالا ہے، جیسے آپ نے خود فرمایا۔’’

شب برأت کی عظمت و اہمیت اور فضیلت کے پیش نظر اس میں عبادت و مناجات، ذکر الٰہی اور تلاوت قرآن کے لیے غسل کر لینا مستحب ہے۔عشاء اور فجر کی نماز با جماعت ادا کرنے کا پورا اہتمام کیا جائے۔ جتنا سہولت اور آسانی سے ممکن ہو۔ اس مقدس رات کو نوافل اور ذکر وتلاوت میں گزاریں، منکرات سے دامن بچاتے ہوئے قبرستان جا کر زیارت قبور کرنا،صحت و عافیت، رحمت و بخشش اور جملہ مقاصد حسنہ کے لیے دعاؤں کا اہتمام کیا جائے۔ پندرہویں شعبان کا روزہ رکھیں۔ جن گناہوں کی نحوست اور وبال اس مبارک رات کی رحمتوں اور برکتوں سے محروم کر دیتی ہے۔ ان سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے صدق دل سے توبہ کی جائے، شب بے داری کا تقاضا ہے کہ ان بابرکت اور قیمتی لمحات کو توبہ و مناجات، اللہ کے ذکر اور دعاؤں میں بسر کیا جائے۔