دبئی ایئرپورٹ پر پھنسے پاکستانی سابق کرکٹرز پر کیا بیتی؟ امریکا پہنچنے پر دلچسپ انکشافات

April 20, 2024

--- جنگ فوٹو

متحدہ عرب امارات میں شدید بارشوں کے بعد فلائٹ آپریشن متاثر ہونے کے باعث دبئی ایئر پورٹ پر 60 گھنٹے تک پھنسے رہے سابق پاکستانی کھلاڑیوں نے امریکا پہنچنے پر اپنی زندگی کے مشکل ترین سفر کے دلچسپ اور افسوس ناک واقعات اپنے ساتھیوں کو سنائے۔

متبادل پروازوں سے ہیوسٹن پہنچنے پر عبدالرزاق، مصباح الحق، عمر گل اور کامران اکمل کو ’متاثرینِ دبئی‘ کے نام سے پکارا جاتا رہا، کھلاڑیوں نے ہیوسٹن ایئر پورٹ سے نکلتے وقت وہی شارٹس یا کپڑے پہن رکھے تھے جو 16 اپریل کو لاہور میں گھر سے چلتے وقت پہنے تھے۔

سب لوگ سوال کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک دوسری بڑی ایئر لائن سے ٹکٹ منسوخ کر کے امریکا کے سفر کے لیے اس ایئر لائن کا انتخاب کیوں کیا تھا؟ تو عبدالرزاق کا جواب تھا کہ ان کا کھانا بہت اچھا ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مشکل کا آغاز لاہور سے ہی شروع ہو گیا تھا، پرواز میں کئی گھنٹے تاخیر ہونے پر ہم نے خود کو تسلی دی کہ انتظامیہ سب سنبھال لے گی مگر دبئی میں لینڈ کیا تو جہاز 2 گھنٹے تک رن وے پر کھڑا رہا پھر اس کے بعد گیٹ پر پہنچنے میں مزید ایک گھنٹہ لگا، ایئر پورٹ کے اندر گئے تو ہزاروں مسافروں کو دیکھ کر سنگینی کا اندازہ ہوا۔

مصباح الحق کا کہنا تھا کہ ہمیں 2009ء میں ورلڈ کپ جیتنا آسان اور امریکا کا سفر مشکل لگا، اس تمام مشکل میں سب سے تکلیف دہ بات یہ رہی کہ ہمیں طفل تسلیاں دے کر اندھیرے میں رکھا گیا، ایئر لائن انتظامیہ نے اپنی ساکھ کی بجائے اخرابات بچانے کو ترجیح دی یا یہ بد ترین انتظامی بحران تھا، انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ایئرپورٹ پر کئی گھنٹے نہیں بلکہ کئی دن لگ سکتے تھے۔

کھلاڑیوں کا کہنا تھا کہ ہمیں ہر ایک دو گھنٹے بعد اگلے ایک دو گھنٹے کا وقت دیا جاتا رہا، یوں رات ہونے پر پرواز منسوخ کر دی جاتی اور اگلے دن پھر ہر دو گھنٹے بعد اڑان کا نیا ٹائم دیا جاتا رہا اور یوں ڈھائی دن گزار دیے گئے۔

عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ میں نے پوری زندگی لاہور سے براستہ دبئی امریکا کے سفر جیسا بد ترین تجربہ نہیں کیا، لگ بھگ 60 گھنٹے کے اعلانات اور وعدوں سے اتنے بد دل ہوگئے تھے کہ جب تیسرے دن پرواز کا اعلان ہوا تو ہمیں ہرگز یقین نہیں آیا، یہاں تک کہ جہاز میں بیٹھ گئے اور ٹیک آف کرنے تک بے یقینی کی صورت حال کا شکار رہے۔

عبدالرزاق نے کہا کہ ایئر لائن اور ایئر پورٹ کا تو مسئلہ تھا ہی لیکن ٹکٹ منسوخ کر کے اس ایئر لائن کا انتخاب کرنے پر میرے ساتھی مجھ پر خوب طنز کے تیر چلاتے رہے۔

گفتگو کے دوران پاجامہ ٹی شرٹ اور چپل پہنے عمر گل وہاں موجود ساتھیوں کے جوتوں کا سائز پوچھتے اور چیک کرتے نظر آئے کہ وہ کسی کا جوتا پہن سکیں۔

طنزیہ طور پر کوئی کسی کی شرٹس دیکھ رہا تھا تو کوئی کسی کی پینٹ کا سائز دیکھ رہا تھا کیونکہ تمام کھلاڑیوں کا لاہور ایئر پورٹ پر جمع کیا گیا سامان دبئی میں رہ چکا ہے اور دو تین دن تک سامان آنے کی کوئی امید بھی نہیں۔

اس پر کامران اکمل نے طنز کیا کہ دبئی سے ہیوسٹن ایئر پورٹ اور پھر ہوٹل پہنچنے تک کی تمام فوٹیجز انہی کپڑوں میں سامنے آ رہی ہیں جو ہم نے گھر سے نکلتے وقت پہنے تھے۔

اس بار عبدالرزاق نے قہقہہ لگاتے ہوئے ایک اور دلچسپ تبصرہ کیا کہ دبئی میں پھنسے رہنے کے دوران ہمارے لیے دو مشکل صورتِ حال تھیں، ایک تو پرواز نہ ملنے کی مشکل دوسرا مصباح الحق کا ہمسفر ہونا تھا کہ مصباح نے بہت باتیں کیں۔

اس مشکل سفر کے حوالے سے عبدالرزاق کا مزید کہنا تھا کہ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ سونے کے لیےہمیں ایئر پورٹ پر کارپٹ ملتا رہا ورنہ افرا تفری میں ٹھنڈے فرش پر بھی سونا پڑ سکتا تھا۔

انہوں نے عمر گل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سونے کے دوران انہیں ٹھنڈ لگ رہی تھی تو وہ گرم کپڑا ڈھونڈنے لگے، انہیں چادر نہ ملی تو وہ واش روم سے تولیے چوری کرنے گئے۔

اس پر عبدالرزاق نے کہا کہ ایئر پورٹ پر خود سے کچھ دینے والا تو تھا ہی نہیں ہم ایک اور جگہ گئے اور کئی کمبل چوری کر کے ساتھیوں کو لا کر دیے۔ کامران اکمل نے بتایا کہ وہ تینوں کمبل اوڑھ کر سو گئے لیکن عبدالرزاق نہیں سوئے۔

اس پر عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ آرگنائزر اور ایئر لائن سے میں ہی رابطے میں تھا،مجھے آرگنائزر رافع حسین سے سونے سے منع کردیا کہ فلائٹ مس ہو سکتی تھی۔

عبدالرزاق کے مطابق اس کے بعد کی پرواز میں ہم لگ بھگ 15 گھنٹے تک سوئے اور آنکھ اس وقت کھلی جب پرواز لینڈ کرنے کے لیے اپروچ لے رہی تھی۔

مصباح الحق نے کہا کہ میں پرواز میں بہت کم سویا، اس پر عبدالرازق نے قہقہہ لگایا کہ مصباح شاید اس لیے نہیں سوئے کہ انہوں نے باتیں کرنا ہوتی ہیں۔

عبدالرزاق نے ’جیو نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ واپسی پر بھی ہم اسی ایئر لائن سے سفر کریں گے، توقع ہے کہ اب پہلے جیسا نہیں ہو گا۔