ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا پراسیکیوٹر سے ایرانی صدر بننے تک کا سفر

April 22, 2024

اسلامی جمہوریہ پاکستان نے آج اپنی سرزمین پر امت مسلمہ کے اتحاد کے فروغ کے لیے متحرک ایران کے صدر آیت اللّٰہ ابراہیم رئیسی کو خوش آمدید کہا ہے، ان کا 2021 میں صدر منتخب ہونے کے بعد یہ پہلا دورہ پاکستان ہے۔

ایرانی صدر کا دورۂ پاکستان یوں بھی اہمیت کا حامل ہے کہ جب ایران اسرائیل تنازع عروج پر ہے، نیز چند روز قبلایک دوسرے کی سر زمین پر دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بھی تلخی دیکھنے میں آئی۔

ان تمام حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والی پاکستانی قومایرانی صدر کی آمد میں دلچسپی رکھتی ہے، اس کے پیش نظر ابراہیم رئیسی کے بارے میں کچھ تفصیلات نذر قارئین کی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر ابراہیم رئیسی 1960ء میں ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوئے ، ان کے والد ایک عالم تھے اور ان کے والد کی وفات اس وقت ہوئی جب موجودہ ایرانی صدر 5 سال کے تھے۔

ایران میں 19 جون 2021ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ابراہیم رئیسی نے کامیابی حاصل کی تھی اور انہوں نے ایران کے آٹھویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

عدالتی نظام میں کئی عہدوں پر کام کیا

1979ء میں انقلاب ایران کے بعد ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے ایران کے عدالتی نظام میں کئی عہدوں پر کام کیا ہے۔

1980ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی تو وہ کرج کے پراسیکیوٹر جنرل بنے تھےبعد ازاں وہ ہمدان کے پراسیکیوٹر بھی مقرر ہوئے اور دونوں عہدوں پر ایک ساتھ خدمات انجام دیں۔

ڈاکٹر ابراہیم رئیسی 1985ء میں تہران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر کے طور پر تعینات ہوئے اورایران کے دارالحکومت چلے گئے۔

ڈیتھ کمیٹی کے نام سے مشہورٹربیونلز کا حصہ

1988ء میں ڈپٹی پراسیکیوٹر کے عہدے پر رہتے ہوئے ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے ان 4 ججوں میں سے ایک کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جو ان خفیہ ٹربیونلز کا حصہ تھے جو کہ ڈیتھ کمیٹی کے نام سے مشہور تھے۔

آیت اللّٰہعلی خامنہ ای کے نئے سپریم لیڈر منتخب ہونے کے بعد ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کو نئے چیف جسٹس محمد یزدی نے تہران کا پراسیکیوٹر مقرر کیا اور وہ 1989ء سے 1994ء تک اس عہدے پر فائز رہے جبکہ 1994ء میں انہیں جنرل انسپکشن آفس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

انہوں نے 2004ء سے 2014ء تک بطورڈپٹی چیف جسٹس فرائض انجام دیے جبکہ 2014ء سے 2016ء تک ایران کے پراسیکیوٹر جنرل رہے۔

2017ء میں ایران میں ہونے والے انتخابات میں ڈاکٹر ابراہیم رئیسی صدر کے امیدوار بن کر سامنے آئے تاہم اس الیکشن میں اس وقت کے صدر حسن روحانی نے انہیں بھاری اکثریت سے شکست دے کر دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کی تھی۔