ایک مسجد کے اثاثے دوسری مسجد کو منتقل کرنا (گزشتہ سے پیوستہ)

May 03, 2024

تفہیم المسائل

علامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ شمس الائمہ امام حلوانی سے پوچھا گیا: ایک مسجد یا حوض خراب ہوگیا ہے کہ اب اُس کی حاجت نہ رہی، کیونکہ لوگ اِدھراُدھرچلے گئے ،توکیا قاضی کے لیے اِن اوقاف کی چیزوں کو کسی دوسری مسجد یا حوض کے لیے استعمال کرنے (کی اجازت دینا) جائز ہے ، تو آپ نے جواب میں فرمایا: ہاں (جائز ہے ) ‘‘ مزید لکھتے ہیں : ترجمہ:’’ فتاویٰ نسفی میں ہے : شیخ الاسلام سے پوچھا گیا: ایک گاؤں کے لوگ اِدھر اُدھر ہوگئے (یعنی وہ گاؤں ویران ہوگیا) اور وہاں کی مسجد منہدم ہونے کو آگئی اور کچھ فاسق لوگوں نے مسجد کی لکڑیاں( سامان وغیرہ) اٹھا کر لے جانا شروع کردیا تو گاؤں میں کس کو اختیار ہے کہ قاضی کی اجازت سے لکڑیاں فروخت کردے اور اس کی قیمت کو اس غرض سے محفوظ رکھے کہ کسی دوسری مسجد یا اسی مسجد میں صرف کرے(جیسا کہ موقع کا تقاضا ہو) ، تو شیخ الاسلام نے جواب میں کہا: ہاں ! ، ’’محیط ‘‘ میں اسی طرح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد 2،ص:478)‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ کہ اگر عطیہ دہندہ معلوم ہے تو اس کی مرضی معلوم کرلیں اور اُن کی اجازت سے دوسری ضرورت مند مسجد پر صرف کرلیں ، وہ زندہ نہیں رہا اور اس کے ورثاء موجود ہیں ،تو انھیں دےدیں یا ان کی اجازت سے دوسری ضرورت مند مسجد پرصرف کرلیں اور اگر مُتفرق لوگوں کا چندہ ہے تو اعلان کرکے دوسری ضرورت مند مسجد پر صرف کرلیں ۔ ہمارا ملکی قانون بھی یہی ہے : اگرکوئی رفاہی ادارہ ختم کیاجارہاہو تو وہ اپنے اثاثے کسی دوسرے ایسے ادارے کو منتقل کردے ، جس کے اغراض ومقاصد موجودہ ادارے سے مطابقت رکھتے ہوں یا حکومت کی تحویل میں دےدے ، کیونکہ رفاہی اداروں کو جو رفاہی پلاٹ الاٹ ہوتے ہیں، ان کی الاٹمنٹ کی شرائط میں یہ دفعہ مذکور ہوتی ہے۔