غیر مسلموں سے رواداری اور باہمی تعلقات کا تصور

May 10, 2024

ڈاکٹر نعمان نعیم

(گزشتہ سے پیوستہ)

اسلام اپنے متبعین کو بلند اخلاق اور اعلیٰ ظرفی کی تعلیم دیتا ہے ، اسلامی شریعت یہ نہیں چاہتی کہ بد اخلاقی اور نامناسب زبان استعمال کی جائے ، یا کسی بھی معاملے میں تنگ ذہنی برتی جائے، چنانچہ اسلام نے مسلمانوں کو باہمی اخلاقیات کی جو تعلیم اور ہدایات دی ہیں، ان کا راست مصداق تو مسلمان ہیں ، تاہم غیر مسلم افراد بھی اس میں شامل ہیں ، جیسے اسلام میں پڑوسیوں کی بڑی اہمیت بتائی گئی ہے ، ان کے ساتھ حسن سلوک ، حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور ان کو اپنے شر سے حفاظت کی ہدایت دی ہے ، رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’ جو شخص ﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، اسے اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں پہنچانی چاہیے ‘‘(صحیح مسلم ﴾)ایک موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اس وقت تک بندہ مؤمن نہیں ہوسکتا ،جب تک اپنے بھائی اورپڑوسی کے لیے وہی چیزیں پسند نہ کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے‘‘( مسند احمد) آپﷺ نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ جب سالن پکایا جائے تو اس میں اتنا پانی بڑھادیا جائے کہ پڑوسیوں میں تقسیم (یا انہیں بھی شریک )کیا جاسکے ۔( ﴿ صحیح مسلم)

پڑوسیوں سے متعلق اس طرح کے جو بھی احکام ہیں ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں داخل ہیں ، یعنی جس طرح مسلمان پڑوسی کو تکلیف سے محفوظ رکھا جائے گا اور اسے خوشی و راحت میں شامل کیا جائے گا ، اسی طرح غیر مسلم پڑوسی کا بھی حق ہے کہ اسے امن فراہم کیا جائے اور حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے ، صحابۂ کرامؓ نے اس پر سختی سے عمل کیا ، حضرت عبد ﷲ بن عمرؓ نے ایک بار ایک بکری ذبح کرائی ، غلام کو ہدایت کی کہ وہ سب سے پہلے پڑوسی کو گوشت پہنچائے ، ایک شخص نے کہا حضور ! وہ تو یہودی ہے ، آپ نے فرمایا یہودی ہے تو کیا ہوا ، یہ کہہ کر رسول ﷲ ﷺکا حوالہ دیا کہ جبرائیلؑ نے مجھے اس قدر اور مسلسل وصیت کی کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسیوں کو وراثت میں حصہ دار بنادیں گے۔(سنن ابوداؤ، کتاب الأدب )

اس حدیث کے حوالے سے علامہ رشید رضا مصری لکھتے ہیں :یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عبد ﷲ بن عمرؓ نے پڑوس کے ساتھ حسن سلوک کے سلسلے میں جو مطلق تاکیدیں آئی ہیں ، ان سے یہ سمجھا کہ ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں ، عبد ﷲ بن عمرؒ کا علم و فہم تمہارے لیے کافی ہونا چاہیے۔( تفسیر المنار : ۵/۹۲)

سورۂ نساء آیت ۳۶ میں مختلف پڑوسیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ، اس میں ایک قسم ’ الجار الجنب‘ بھی ہے ، بعض لوگوں نے اس سے غیر مسلم پڑوسی مراد لیا ہے ، علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں: پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ، یہ مندوب اور پسندیدہ ہے ، پڑوسی مسلم ہو یا کافر ۔(قرطبی : ۵/۴۸۱)کچھ صفحات کے بعد لکھتے ہیں :علماء نے کہا ہے کہ پڑوسی کے اکرام و احترام میں جواحادیث آئی ہیں وہ مطلق ہیں ، اس میں کوئی قید نہیں ہے ، کافر کی بھی قید نہیں ۔( قرطبی : ۵/۸۸۱)

ایک پڑوسی پہلو کے ساتھی کو بھی بتایا گیا ہے ، جسے ’الصاحب بالجنب‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اس سے مراد ہم نشین دوست بھی ہے ، اور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہوجائے ، جیسے بازار جاتے آتے ہوئے کارخانہ یا دکان اور فیکٹری میں کام کرتے ہوئے یاکسی اور طرح ایک دوسرے کی صحبت حاصل ہو وہاں بھی حکم دیا گیا ہے کہ نیک برتاؤ کرے اور تکلیف نہ دے ، اس میں بھی مسلم اور غیر مسلم کی کوئی قید نہیں ہے ، ایسے ہی پڑوسی کی جتنی بھی صورتیں ہوسکتی ہیں ، سب میں مسلمان کے ساتھ غیر مسلم بھی داخل ہیں۔

سماجی زندگی میں تحائف اور ہدایا کے لین دین کی بڑی اہمیت ہے ، اس سے دوستی بڑھتی ہے ، باہمی فاصلے کم ہوتے ہیں اور دلوں سے تکلیف و رنج کے آثار دور ہوتے ہیں ، اس راز کو بیان کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا : ہدایا کا لین دین کرو ،محبت میں اضافہ ہوگا۔یہ حکم بھی عام ہے ، اس سے غیر مسلم خارج نہیں ، بلکہ ان سے بھی ہدایا کا تبادلہ کیا جانا چاہیے ، احادیث میں غیر مسلموں کو تحفے دینے اور ان کے تحفے قبول کرنے کا ثبوت موجود ہے ، حضرت علیؓ فرماتے ہیں:کسریٰ ﴿ شاہ ایران ﴾ نے آپ کو ہدیہ پیش کیا ، آپ نے قبول کیا، دیگر بادشاہوں نے بھی آپﷺ کو ہدیے دیئے ، آپﷺ نے قبول فرمائے۔(ترمذی ، ابواب السیر)

معاشرے میں خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے مہمانوں کی آمد و رفت اور دعوت کھانے اور قبول کرنے کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دعوت دے تو اسے قبول کرنا پسندیدہ ہے ، بلا وجہ اسے رد کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے ، اسی طرح غیر مسلم کے ساتھ بھی جائز مقاصد کے لیے کھانا پینا مباح ہے ، وقت ضرورت اسے دعوت دی جاسکتی ہے اور اس کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے ، رسول اکرم ﷺنے غیر مسلموں کی دعوت قبول فرمائی ہے ، حضرت انسؓ فرماتے ہیں:ایک یہودی نے نبی اکرم ﷺ کو جو کی روٹی اور چربی کی دعوت دی ، آپﷺ نے قبول فرمائی ۔( مسند احمد : ۳/۱۱۲)

اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت اور مزاج پُرسی کی تعلیم دی گئی ہے ، اس سے ہمدردی کا اظہار اور مریض سے یگانگت ہوتی ہے ، اس کے بڑے فضائل آئے ہیں ، مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم کی عیادت کا بھی یہی حکم ہے ، حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا رسول اکرم ﷺکی خدمت کیا کرتا تھا ، وہ بیمار ہوا تو آپﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لیے گئے ۔( صحیح بخاری ) اسی طرح بنو نجار کے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے جو غیر مسلم تھا ۔(مسند احمد : ۳/۱۵۲) ان ہی روایات کی روشنی میں صاحب ہدایہ نے لکھا ہے :یہودی اور نصرانی کی عیادت میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ ان کے حق میں ایک طرح کی بھلائی اور حسن سلوک ہے، اس سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے ۔(ہدایہ : ۴/۲۷۴)

ضرورت مندوں اور محتاجوں پر خرچ کرنا ، ان کی ضرورت پوری کرنا ، بڑے اجر و ثواب کا موجب ہے ، اس میں عقیدہ اور دین و مذہب کا فرق نہیں رکھا گیا ہے ، محتاج شخص مسلمان ہو یا غیر مسلم ، مشرک ہو یا اہل کتاب ، رشتے دار ہو یا غیر رشتہ دار ، ہر ایک پر خرچ کرنے کا جذبہ نیک اورباعث اجر ہے ، ایک موقع پر آپ ﷺنے فرمایا : تمام اہل مذاہب پر صدقہ و خیرات کرو‘ اس میں انسانیت کا احترام ہے ۔(ابن ابی شیبہ) اس لیے کہ بھوک و پیاس ہر ایک کو لگتی ہے ، غیر مسلم بھی ﷲ کے بندے اور مخلوق ہیں ، ان کے ساتھ ہمدردی کی جانی چاہیے ، بحیثیت انسان وہ بھی ہمارے حسن اخلاق اور رحم دلی کے مستحق ہیں۔

قیدیوں کے ساتھ ظلم و ستم کا عام رجحان ہے ، وہ چوںکہ کمزور اور ناتواں بن کر ماتحتی میں آتے ہیں ، اس لیے ان کے ساتھ نازیبا سلوک کیا جاتا ہے ، اسلام نے اسے سختی سے منع کیا ہے ، سورۂ دھر میں مسکینوں اور یتیموں کے ساتھ قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، عہد نبوی میں قیدی صرف غیر مسلم ہوا کرتے تھے ، اس لیے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدی خواہ غیر مسلم ہو ، اس کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے گا۔

صحابۂ کرامؓ نے اپنے قیدیوں کے ساتھ جو حسن سلوک کیا ، تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی ، جنگ بدر میں جب ستر قیدی ہاتھ میں آئے اور آپﷺ نے مختلف صحابۂ کرام ؓکے درمیان ان کو دیکھ بھال کے لیے تقسیم کیا اور بہتر سلوک کی ہدایت دی تو صحابۂ کرامؓ نے ان کے ساتھ حیرت انگیز حسن سلوک کا معاملہ کیا ، خود بھوکے رہے یا روکھا سوکھا کھایا ،مگر انھیں اچھا کھلایا پلایا ، ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم رکھا ، خود تکلیف اُٹھاکر اپنے قیدیوں کو راحت پہنچائی جب کہ وہ حالت جنگ تھی اور ان ہی کفار کے ہاتھوں یہ ستائے گئے تھے یہاں تک ان کے مظالم کے سبب صحابۂ کرا م ؓکو اپنا وطن چھوڑ دینا پڑا ، ان سب کے باوجود غیر مسلموں کے ساتھ یہ رواداری اور بہتر سلوک سارے مسلمانوں کے لیے ایک آئیڈیل ہے ، جس کے نقش قدم پر چلنا ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔

دوسروں کے لیے دُعا قلبی سخاوت اور وسعت ذہنی کی مثال اور آئینہ ہے ، اس میں اظہار ہمدردی اور خیر خواہی بھی ہے کہ دوسروں کے لیے ایک شخص وہی چاہتا ہے جو اپنے لیے چاہتا ہے ، دوسروں کی ترقی ، راحت اور خوشحالی کی تمنا کرنے اسلام کی ہدایت ہے ، یہ مسلمانوں کے لیے بھی ہے اور غیر مسلم کے لیے بھی ، حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول ﷲﷺنے ایک یہودی سے پینے کی کوئی چیز طلب کی اس نے وہ پیش کی تو آپﷺ نے اسے دُعا دی کہ ﷲ تعالیٰ تمہیں حسین و جمیل رکھے ، چنانچہ مرتے وقت تک اس کے بال سیاہ رہے۔ (مصنف عبد الرزاق : ۰۱/۳۹۲)

عدل و انصاف کی شریعت نے بہت سخت تاکید کی ہے ؛ بلکہ یہ اسلام کا امتیازی وصف ہے کہ انسان کسی بھی حال میں ہو وہ عدل و انصاف کو ترک نہ کرے ، اسلام اپنے متبعین کو ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی فرد یا گروہ پر دست تعدی دراز کریں ، چاہے اس سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں اور اس نے کتنی ہی زیادتی کیوں نہ کی ہو ، ارشاد ربانی ہے :’اے ایمان والو! ﷲ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ ۔(سورۃالمائدہ : ۸)

عدل سے کام نہ لینا ظلم ہے اور ظلم کبھی ﷲ تعالیٰ کو برداشت نہیں ہے، خواہ وہ کسی جانور کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو ، آپﷺ نے مظلوم کی بددُعاء سے بچنے کی تاکید کی ہے، جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں داخل ہیں۔

ایک مرتبہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو رسول اکرم ﷺ کھڑے ہوگئے ، صحابہؓ نے عرض کیا یہ تو یہودی کا جنازہ ہے ، آپﷺ نے فرمایا ، آخر وہ بھی تو انسان تھا ، ﴾ یعنی ہم نے انسانیت کا احترام کیا ہے اور انسان ہونے میں تمام نوع بنی آدم یکساں ہیں ۔ (مشکوٰۃ :)

کاروبار ، خرید و فروخت ، لین دین انسانی زندگی کا لازمی جز ہے ، یہ چیزیں جس طرح مسلمانوں کے ساتھ درست ہیں اسی طرح غیر مسلم افراد کے ساتھ بھی جائز ہیں ، غیر مسلم طبقے سے تجارتی تعلقات شرعی حدود میں رہتے ہوئے کیے جاسکتے ہیں ، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :’رسول اکرم ﷺ نے ایک یہودی سے ایک مدت کے لیے غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنے لوہے کی ذرہ رہن رکھی(صحیح بخاری)یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کفار سے معاملہ کرنا جائز ہے اور یہ کہ ان کے آپس کے معاملات کے فساد کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانیت میں ساری قوم شامل ہیں ، جہاں انسانیت کی بات آئے گی وہاں ان کے ساتھ ہمدردی ، خیر خواہی روا داری وغیرہ میں کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی، اچھے اخلاق کے ذریعہ ہم ایک اچھا انسان ہونے کا ثبوت دیں گے ؛ تاکہ اسلام کی اچھی تصویر ان کے ذہن میں بیٹھے اور کم از کم اسلام اور مسلمانوں کے تئیں نرم گوشہ ان کے دل میں پیدا ہو ، تا ہم شریعت اسلامی کے ہم پابند ہیں ، اسلامی امتیاز ہر وقت باقی رہے ، عقائد یا مسائل میں اس کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہ ہوگی ، ایک مسلمان کو رواداری کے نام پر ذرہ برابر دین کے معاملے میں مداہنت یا کسی رد و بدل اور ترمیم کی اجازت نہیں ہے ، مخالفین کی خواہشات کے سامنے جھک جانا بڑے خسارے کا سودا ہوگا۔