قانونِ ہتک کی حمایت...ایک شرط پر

May 23, 2024

پاکستان میں سینکڑوں اچھے قوانین موجود ہیں، اور انہیں توڑنے کے ہزاروں طریقے۔کیا ہمیں مزید اچھے قوانین بنانے کی ضرورت ہے یا خوش نیتی سے موجودہ قوانین کو نافذ کرنے کی؟ ہمارے پاس تو اُم القوانین یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بھی موجود ہے، ایسے میں کیا ہمیں کسی آئینِ نو کی تلاش میں سرگرداں رہنا چاہیے؟ یا 1973ءکے آئین کو اس کی روح سمیت نافذ کرنے کی کم از کم ایک سنجیدہ سعی کرنی چاہئے؟

آئین تو 1956 ءوالا بھی بُرا نہیں تھا، لیکن دو سال بعد توڑ دیا گیا تھا، 1962 ءکے آئین کو اس کے خالق نے اپنے ہی دستِ مبارک سے، بہ قلم خود توڑ دیا تھا، اور 1973 ءکا آئین بھی چار سال بعد پھاڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیا گیا تھا۔مسئلہ آئین و قانون کی عدم موجودگی کا نہیں ہے، مسئلہ خوش نیتی سے موجودہ قوانین پر عمل درآمد کا ہے۔تہتر کے آئین میں آرٹیکل 6 بھی شامل کیا گیا تھا اور اپنے تئیں مارشل لا کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا تھا، مگر پھر ہوا کیا؟کیا اس ملک میں آزادیء اظہارِ رائے کے قوانین موجود نہیں ہیں؟ بالکل ہیں، بلکہ یہ تو آئین کی 19 ویں شق میں محفوط ہیں، تو کیا ہم اس ریاست میں اس آزادی کا اہتمام کر پائے ہیں؟ کیا لا پتا افراد کا معاملہ حل کر نے کے لیے ہمیں کسی نئے قانون کی ضرورت ہے؟ کیا موجودہ قوانین اغواکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ جب بلند بانگ دعووں کے ساتھ کوئی ’’نیا قانون‘‘ نافذ کیا جاتا ہے تو ہمیں منٹو کا افسانہ یاد آ جاتا ہے۔

پنجاب حکومت نے ہتکِ عزت کا ایک نیا قانون پاس کیا ہے جو تمام ذرائع ابلاغ و ما فیہا پر لاگو ہو گا، یعنی بڑے ٹی وی چینل سے ٹک ٹاک تک۔اس قانون کی ضرورت روز افزوں ’’فیک نیوز‘‘ کی وجہ سے ضروری سمجھی گئی ہے، یعنی پگڑیوں سے فٹ بال کھیلنے کے رجحان پر قابو پانے کے لیے۔ یہ بات تو درست ہے کہ ففتھ جنریشن وار نے ایک نئے انداز کی ’’صحافت‘‘ کو ملک میں فروغ دیا، جس کا پہلا شہید نواز شریف تھا۔ دستور کچھ یوں تھا کہ سال ہا سال تک شام سات سے دس بجے تک ہر نیوز ٹی وی چینل کا ٹینٹوا پکڑ کر ’’چور ڈاکو، چور ڈاکو‘‘ کی گردان کروائی جاتی، نفرت انگیز جھوٹ بولا جاتا، اور پھر ہزاروں سوشل میڈیا جنگجوئوںکے ذریعے ’فیک نیوز‘ کو چہار دانگ میںپھیلایا جاتا۔ آپ اس سے اندازہ لگائیے کہ اس دور میں ہمارے ٹی وی چینل جھوٹی خبریں نشر کرنے کی پاداش میں انگلستان میں کروڑوں روپے جرمانے میں ادا کر چکے ہیں جب کہ پاکستان میں انہیں فیک نیوز کی مکمل آزادی حاصل رہی۔ خیر، پھر وہ تاریخی ’سیم پیج‘ پھٹ گیا، منظر بدل گیا۔اب صورتِ واقعہ کچھ یوں ہے کہ وہ طاقت ور اصحاب جنہوں نے پاکستان میں ایک منظم منصوبے کے تحت ’فیک نیوز‘ کی آبیاری کی اب وہ خود اس کی زد میں ہیں، یعنی ایک انگریزی محاورے کے مطابق ’ مرغیاں استراحت فرمانے گھر کو لوٹ رہی ہیں‘۔ان اصحاب کو ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ ’فیک نیوز‘ بہت بری چیز ہوتی ہے اور اس کا ہر حال میں تدارک ہونا چاہیے۔

یہ تو ہو گیا ہمارے ہاں فیک نیوز کا پس منظر، اب ہتکِ عزت کے قانون پر ایک نظر ڈال لیں۔سب سے پہلی بات کہ جھوٹی خبروں پر کارروائی کے لیے خصوصی ٹربیونل بنائے جائیں گے، جج رکھنے اور نکالنے میں حکومت عدلیہ سے مشورہ کرے گی،جج چھ ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے، او ر آخری فیصلہ ہونے سے پہلے ’ملزم‘ تیس لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا پابند ہو گا۔سب سے پہلے تو یہ فرمائیے کہ یہ متوازی نظام کھڑا کرنے کا شوقِ بے سروپا کب ہماری جان چھوڑے گا؟ دس تحقیقاتی اداروں کو درست کرنے کے بجائے ہم ان کے اوپر نیب بنا دیتے ہیں اور پھر دہائیوں تک اس ’بدنیتی‘ کا خراج ادا کرتے ہیں، فوجی عدالتوں سے شریعت کورٹس تک، سب اناپ شناپ تجربے ناکام ثابت ہوئے ہیں، ہم پھر باز نہیں آتے۔ آ گے چلیے، ٹربیونلز کے جج لگانے اور بالخصوص نکالنے میں، حکومت کا کلیدی کردار ہو گا۔ کیا واقعی ایسا ہو گا؟ پچھلے ہفتے پنجاب حکومت کی ایک مرکزی شخصیت سے نشست ہوئی، باتوں باتوں میں فرمانے لگے کہ فلاں اٹھارہ گریڈ کے افسر ’’چڑیا گھر‘‘ کے حکم پر اس اسامی پر تعینات کیے گئے ہیں۔ یعنی، اٹھارہ گریڈ کی جونیئر سطح تک یہ عالم ہے، ایسے میں ٹربیونل کے جج کیا حکومت خود لگا پائے گی؟ ان حالات میں ہمارا مشورہ یہی ہے کہ پہلے سترہ اور اٹھارہ گریڈ کے افسر اپنی مرضی سے لگا لیں، پھر ٹربیونل کے جج بھی لگا لیجیے گا۔ ویسے یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ کیا فیک نیوز کا مسئلہ صرف پنجاب کا مسئلہ ہے؟ باقی صوبوں میں یہ جانور عنقا ہے؟کیا باقی صوبوں میں جھوٹی خبریں دینے کی آزادی برقرار رہے گی؟ اگر یہ قانون بنانا مجبوری تھی تو وفاقی سطح پر بننا چاہیے تھا جب کہ وہاں حکومت بھی اغیار کی نہیں ہے۔ بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارا مسئلہ نئے قوانین حل نہیں کر سکتے، ہمارا مسئلہ قانون کی حکم رانی حل کر سکتی ہے، ہمارا مسئلہ کوئی آئینی ترمیم بھی حل نہیں کر سکتی، ہمارا مسئلہ آئین کی بالا دستی حل کر سکتی ہے۔ پاکستان میں آج تک کوئی قانون ناکام نہیں ہوا، قانون نافذ کرنے والے ناکام ہوئے ہیں۔ ہماری بدنیتی نے ہمیں نامراد کر دیا۔

لیکن ہم اپنے تمام تر تحفظات اور اعتراضات کے باوجود ہتکِ عزت کے اس قانون کی حمایت کرنے پر تیار ہیں۔ ہمیں صرف ایک ضمانت دے دیجیے کہ ایک دفعہ جب یہ جامع اور ہمہ گیر قانون نافذالعمل ہو جائے گا اور ہر جھوٹے اور گستاخ سے نپٹنے کا قانونی اور سریع راستہ مل جائے گا تو اس کے بعد کبھی کوئی شخص ’’لاپتا‘‘ نہیں ہو گا، اور نہ ہی کبھی کسی دریدہ دہن صحافی کو گولی ماری جائے گی۔ بس یہ گارنٹی دے دیجیے۔