آزاد کشمیر کے ناراض لوگ

May 24, 2024

سردار جاوید ایوب میرے تیس پینتیس سال پرانے دوست ہیں ۔آزاد کشمیر کے وزیر جنگلات بھی رہے ہیں ، آج کل شاید وائلڈ لائف و فشریز اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے وزیر ہیں اور بھی کئی محکموں کے وزیر رہے ہیں ۔کشمیر اور کشمیریوں کے مسائل بڑی باریکی سے سمجھتے ہیں اب جوآزاد کشمیر میں احتجاج کی لہر اٹھی تو معاملات کوسمجھنےکیلئے ان سے میری بات چیت ہوتی ہے۔ان کی ہفتوں پر مشتمل گفتگو کو میں کالم میں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔

عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر جب آزاد کشمیر میں مظاہرے شروع ہوئے تو اس سےپہلے عوامی نیشنل کمیٹی اور گورنمنٹ کے درمیان مذاکرات جاری تھے۔ گورنمنٹ کی طرف سے بارہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تھی جو انکے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھی اور انکے جو مطالبات منظور کر لیے گئے تھے۔ وہ آٹے کی قیمت اور بجلی کے ٹیرف کے حوالے سے تھے، چونکہ ان مطالبات کا تعلق وفاقی حکومت سے تھا اسلئے وزیر اعظم آزاد کشمیر نے وفاقی حکومت کو اس سلسلے میں آگاہ کیا۔ تمام مطالبات اسکے ٹونس میں لائے گئے۔ پھر جیسے ہی مظاہرے شروع ہوئے صدرِ پاکستان نے پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کی پارلیمانی پارٹی کو کال کی۔ انہیں مطالبات کی حساسیت کا احساس ہو گیا تھا۔ انہوں نے مطالبات کو پذیرائی بخشی اور پھر وزیر اعظم پاکستان سے بات ہوئی تو وزیر اعظم پاکستان نے آٹے کی قیمت اور بجلی کے حوالے سے نہ صرف مطالبات کا تسلیم کیے بلکہ اس مد میں فوری طور23 ارب روپے حکومت آزاد کشمیر کو منتقل کردئیے اور حکومت آزاد کشمیر نے بھی اسی روز نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔

جہاں تک احتجاج کی بات ہے توحکومت آزاد کشمیر کا یہی مؤقف رہا کہ پُرامن احتجاج عوام کا آئینی حق ہے۔وہ آئینی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اپنے مطالبات کیلئے احتجاج کر سکتے ہیں، جلوس نکال سکتے ہیں لیکن جوناخوش گوار واقعات رونما ہوئے ۔وہ کسی صورت نہیں ہونے چاہئے تھے۔میرے خیال میں احتجاج میں کچھ ایسے غلط عناصر شامل ہوگئے جنکا ایجنڈا کچھ اور ہے ۔وہ اس ایکشن کمیٹی کی آڑ میں پورے آزاد کشمیر کے امن کوسبوتاژ کرنا چاہتے تھے۔سو ایسی باتیں ہوئیں جو کشمیری عوام نے کبھی سوچی بھی نہ تھیں ۔جنہیں کوئی بھی درست نہیں کہہ سکتا ۔پوری دنیا نے ان کی مذمت بھی کی۔ حقیقت میں یہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے درمیان باہمی رشتے کو خراب کرنے کی ایک بیرونی سازش تھی ۔جس میں کشمیریوںکو استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اس احتجاج کوجس طرح بھارتی میڈیا نے کوریج دی ،جیسے تبصرے کیے، جیسے دنیا بھر میں پھیلایا ،اس سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس سازش کے تانے بانے کہاں جڑے تھے ۔ میں چاہتا ہوں کہ حکومت اور اسکے ادارے اس معاملہ کی خاص طور پر تحقیق کریں اور اس کی تہہ تک پہنچیں اور پھروہ اشخاص جو واقعتاً اس میں ملوث ہیں انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے ۔

جہاں تک مطالبات کی بات ہے توحکومت ِ آزاد کشمیر نے پچھلے سال جون میں بجلی کی قیمتیں فریز کر دی تھیں ۔بجلی کی قیمت میں پاکستا ن میں اضافہ ہوا، آزاد کشمیرمیں نہیں ۔اورخیر اب تو بجلی تین روپے فی یونٹ کر دی گئی ہے ۔بجلی کا ٹیرف کچھ یوں بنایا گیا ہے کہ ایک سو یونٹ تک اس کی قیمت تین روپے ہو گی ، تین سویونٹ تک اس کی قیمت پانچ روپے ہوگی اور اس سے اوپر چھ روپے ۔پوری دنیا میںبجلی کااتنا سستا ترین ٹیرف کہیں نہیں ۔آٹے کی قیمت میں بھی گیارہ سو روپے کی کمی کی گئی ۔اب کشمیر میں آٹا دو ہزار روپے فی من ملا کرے گا۔

یہاں تک تو جو کچھ میں نے لکھا ہے یہ ساری باتیں سردار جاوید ایوب کی تھیں ۔اب کچھ باتیں میں اپنی طرف سے بھی کرنا چاہتا ہوں ۔بے شک صدر پاکستان آصف علی زرداری کا کردار کشمیر کی موجود صورتحال میں قابل ِ تحسین رہا مگر27مئی کو عوامی ایکشن کمیٹی نے دوبارہ احتجاج کی کال دے دی ہے۔دس سے چودہ مئی کے دوران ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں ریاستی مشینری کا جتنا نقصان ہوا ہے۔شاید اس سے پہلے اتناآزاد کشمیر میں کبھی نہیں ہوا۔ میرے نزدیک عوامی ایکشن کمیٹی ہائی جیک ہو چکی ہےجنہیں کچھ سیاسی اور کچھ غیر سیاسی قوتیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہی ہیں۔ شائبہ ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کو ایک ایسی سیاسی قوت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جسےپاکستان کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔اہل کشمیر کی نئی نسل کو ورغلایا جارہا ہے۔مجھے بالکل ویسا ہی لگ رہا ہے جب جنرل ضیا الحق کے دور میں ایم کیو ایم بنائی گئی تھی اور اس نے تشدد کا راستہ اختیار کرلیا تھا جس سے کراچی میں اردو بولنے والوں کی کئی نسلیں تباہ ہو گئیں۔تشدد کا راستہ صرف تباہی کی طرف جاتا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ریاست کو چیلنج کرنیوالے بھول جاتے ہیں کہ یہ ہماری اپنی ریاست ہےکوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ریاست ہیں ، یعنی ہم اپنے آپ چیلنج کررہے ہیں ۔کسی معاملہ میں پُر امن احتجاج کے خلاف کوئی بھی نہیں مگر یہ کہنا کہ ہم بجلی کےبل نہیں ادا کریں گے۔یہ احتجاج نہیں ہے۔ احتجاج میں مطالبات منوائے جاتے ہیں اپنی حکومت کو بلیک میل نہیں کیا جاتا ۔سیکورٹی فورسز، انفراسٹرکچر اور حکومت کو ہدف بنانے کی باتیں نہیں کی جاتیں۔ ایسے رجحانات کو شہ دینے والے شر پسند عناصر آپکے دوست نہیں دشمن ہیں ۔آپ کو انہیں قانون کے کٹہرےمیں لانا چاہئے اور میرے خیال میں اس کام کیلئے مناسب ترین وقت یہی ہے۔اس وقت سب زیادہ پریشان وہ لوگ ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر روزی کماتے ہیں،دن بھر کی محنت سے ان کےگھر کا چولہا جلتاہے۔پھر کشمیر کے سیاحت کے شعبہ سے منسلک لوگ بھی اس احتجاج سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ سیزن نکل گیا تو اگلا پورا سال بھوک کے سوا کچھ پاس نہیں ہو گا۔ سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کر کے عام آدمی کی زندگی مشکل بنائی جارہی ہے۔ خدارا، انتشاریوں کو اپنی صفوں میں جگہ نہ دیں ۔ حکومت کے ساتھ میزپر بیٹھیں،اپنی جائز ڈیمانڈز دیں جن کا حل ممکن ہو۔ ہمکتے ہاتھ سے چاند پکڑنے کی کوشش نہ کریں ۔سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنےسے صرف اپنی آنکھوں کا نقصان ہوتا ہے۔