عید گزر گئی

June 23, 2024

دنیا بھر میں ہر سال عید منائی جاتی ہے اس سال بھی عید منائی گئی لیکن کیا ہم عید منانے اور قربانی کرنے کے بعد اپنے اعمال کی طرف دیکھتے ہیں؟ ہم نے پورے سال میں ملک وقوم کے لئے کیا کیا اور ملک کی ترقی اور خوشحالی میں حصہ ڈالنے کے علاوہ کتنے افراد کی مدد کی اور کتنی نیکیاں آخرت کے لئے کمائی ہیں؟ نہ ہم سوچتے ہیں نہ سیاسی افراد 'نہ بیوروکریسی اورنہ معاشرےکے افراد اس پر غور کرتے ہیں۔ عید کے دن جب میں صبح اٹھا تو عید کی نماز میں تھوڑا سا وقت باقی تھا باہر نکلا تو ہر طرف قربانی کے جانور بندھے ہوئے تھے اور عید کی نماز ہر کوئی پڑھنے کی جلدی میں تھا کہ قربانی کرکے گوشت تقسیم کرنے میں پہل کی جائے۔ قربانی کی حقیت اور قربانی کے اصل مقاصد ہم سے بہت دور ہیں۔ احتساب کے عمل سے ہم گزرنا نہیں چاہتے اور سال بھر کی نیکیوں کا حساب رکھنے کے ہم قائل نہیں۔ سارا سال ہمیں یہ نہیں پتا ہوتا کہ ہمارے ہمسائے کا کیا حال ہے بلکہ ہم یہ تک نہیںجانتے کہ ہمسایہ کون ہے اور کیا کام کرتا ہے، اس کے دکھ درد میں شریک ہونا تو دور کی بات ہم سارا سال اس کو پوچھتے تک نہیں کہ بھائی کوئی مشکل ہو تو شئیر کر لیا کرو۔ جب عید آتی ہے تو قربانی بھی دکھاوے کیلئےکرتے ہیں۔ دوسری طرف عید سے قبل ملک کا بجٹ بھی پیش ہوا اور اب منظور بھی ہوجاناہےملک کے وزیراعظم نے اس عید پر یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ یہ قرض آئی ایم ایف سے آخری قرض ہے جبکہ ملک کا ہر فرد 2لاکھ 80 ہزار کا مقروض ہے ہمارا نظام پچھلی عید سے بھی بدتر ہو گیا ہے اور اب افراد کی بقا کا سوال ہمارے سامنے ہے۔

عید کے دن گزرنے کے بعد ہم تمام مساکین اور حقداروں یتیموں کو بھول جاتے ہیں، اسمبلیوں میں سارا سال لڑائی جھگڑے اور الزامات کی بوچھاڑ ہوتی رہتی ہے پارلیمانی روایات کہیں نظر نہیں آتی ہیں۔ ہاں اکا دکاسیاست دان عید پر ووٹران کو ملتے ہیں اور پھر پورا سال غائب ہو جاتے ہیں ووٹ کو مقدس امانت تو خیال کرتے ہیں لیکن اس کا احترام نہیں کرتے۔ اسلامی سیاست کے پیروکار ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن ہمارا رویہ اور پارلیمانی اصولوں کی پاسداری ہمارے سامنے ہے یہ ہیں وہ سوالات جو عید گزرنے کے بعد بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اس عید پر حکومت کے سو دن بھی پورے ہوئے جن کی تشہیر کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے گئے بہتر ہوتا کہ حکومت کی جانب سےاس عید پر مساجد اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے جو بجلی کے بل لاکھوں میں آ رہے ہیں ان کو نصف کر دیا جاتا یا مساجد کے کچھ یونٹوں کو فری کر دیا جاتا مساجد کے بلوں کی انتہا ہو گئی ہے جن کی ادائیگی مساجد کی انتظامیہ کے لئے مصیبت بن گئی ہے۔ بات تو یہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں اور ملک و قوم کی سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے سیاست اور سیاسی جماعتوں میں بھی مثبت سوچ پیدا کریں ۔عید ان کی پوچھیں کیسے گزری ہے جن کے اسٹریٹ کرائم میں اپنے بچھڑگئے اور سندھ حکومت کرائم پر قابو پانے میں بری طرح نا کام رہی۔

عید کے روز ہمارے سامنے غزہ میں مسلمانوں پر جو بیت رہی ہے اس کوبھی بھول گئے کہ یہودیوں کے ہاتھوں قتل و غارت کا بازار گرم رہا بچوں کو بے دردی سے مارا گیا اور مارا جا رہا ہے انسانی حقوق کی پامالی جاری ہے اور کافروں کو روکنے والا کوئی نہیں خوراک کا بحران ہے روٹی میسر نہیں اور نسل کشی جاری ہے۔ عالمی انصاف کے فیصلے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ دنیا بھر کے احتجاجی مظاہرے کسی کام نہیں آئے اسرائیل کے سامنے پوری دنیا بے بس ہے۔ غزہ کےان مسلمانوں سے پوچھیں کہ ان کی عید کیسے گزری؟ وہ بے یار و مددگار سٹرکوں پر پڑے رہے کھانے کوبھی کچھ نہیں ملا، مسلمان کی ایمانی طاقت کہاں گئی جو حضرت عمر فاروق کے زمانے میں تھی، شیرخداحضرت علی کی تلوار میں تھی؟ اسرائیل کی اشیا کے استعمال کو روکنے کیلئے وہ مہم دم توڑ گئی جو مسلمانوں نے شروع کی ۔عید کے روز ہی شکرگڑھ میں اسرائیلی مشروب کا ٹرک الٹ گیا وہاں ان اسرائیلی مشروبات کو مال غنیمت جان کر لوٹا گیا، یہ ہے ہماری مسلمانی ۔ہزاروں مسلمان غزہ میں اسرائیل کی بربریت کا شکار ہو رہے ہیں لیکن دنیا کے 58 ممالک بے بس ہیں ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں انھیں کیا کہ فلسطین کے مسلمانوں نے عید کس کرب میں گزاری ان کے احساسات کیا تھے ہم سے تو غیر مسلم ممالک اچھے جنہوں نے فلسطین کی ریاست کو قبول کر لیا اورڈٹ گئے ہیں۔ ہم جنگ خیبر کو ابھی بھی یاد کرتے ہیں جس میں تھوڑے سے مسلمان ہزاروں غیرمسلم پر بھاری تھے۔ عید اصل میں ایثار و قربانی کا درس دیتی ہے پتہ نہیں کتنی عیدیں منا چکے لیکن ایثار کا جذبہ نہیں پیدا ہوا۔ قربانی کے جانوروں پر لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں اچھے جانور لیتے ہیں لیکن اندر کے جانور کو مارنے کی کوشش نہیں کرتے، قربانی کا گوشت محفوظ کر لیتے ہیں اور مہینوں کھاتے ہیں لیکن غربا، مساکین اور یتیم کے حصوں کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔ قربانی کے مقاصد اور اس کی اصل روح جب تک سمجھ نہیں آئے گی اور اس وقت تک ہماری عیدیں ایسے ہی گزرتی رہیں گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)