مذہبی جنونیت کا روگ

June 24, 2024

ہم سب زندگی کی تلخیوں سے لڑتے ہوئے گاہے سیر و سیاحت کی غرض سے کسی پرفضا مقام کی طرف نکل جاتے ہیں تاکہ غم دنیا سے چھٹکارا مل سکے ۔فرض کریں آپ سکون کی تلاش میں گھر سے کوسوں دور کسی جگہ موجود ہوں اور اچانک آپ پر توہین مذہب یا توہین قرآن کا الزام لگا دیا جائے تو آپ کیا کریں گے؟ خود کو کمرے میں بند کرلیں گے تاکہ مذہبی جنونیوں اور شدت پسندوں سے محفوظ رہ سکیں ۔بالعموم لوگ پولیس سے خوف کھاتے ہیں مگر ایسے مواقع پر پولیس کی تحویل میں چلے جانا بھی غنیمت ہوتا ہے ۔سوات کی تحصیل بحرین کے علاقہ مدین کے ایک ہوٹل میں مقیم سلیمان کا بھی یہی خیال تھا۔ مگر ایمان کا وہ شعلہ جو بھڑک رہا تھا اس نے دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ جلا کر خاکستر کردیا۔ پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کردیا گیا،کئی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں جلا دی گئیں اور اس بدنصیب شخص کو پولیس سے چھڑاکر سرعام آگ کے الائو میں پھینک دیا گیا۔ طرفہ تماشا تو یہ ہوا کہ جہالت میں لتھڑے ان لوگوں، جنہوں نے قرآن کی حرمت کے نام پر اس ظلم کا ارتکاب کیا، نے گاڑیاں جلاتے ہوئے ایک قرآن کو بھی نذر آتش کر دیا۔ ہوٹل کی انتظامیہ کے مطابق سیالکوٹ کا رہائشی یہ شخص 18جون کو یعنی عید کے دوسرے روز آکر وہاں ٹھہرا ۔20جون کو اچانک شور مچ گیا کہ اس شخص نے قرآن کی توہین کی ہے۔ مشتعل افراد اس کے دروازے پر دستک دینے لگے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا ،وہ سب آپ کے علم میں ہے۔سوال یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں بغیر کسی ویڈیو یا تصویری شہادت کے ان لوگوں کو کیسے یہ الہام ہوا کہ اس شخص نے قرآن کی توہین کی ہے؟ قرآن کی شان کا علم اُٹھا کر فساد پھیلانے والوں نے اگر اس کتاب کا مطالعہ کرنے کی زحمت گوارا کی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ اس حوالے سے شریعت کے احکامات کیا ہیں۔ اگر یہ لوگ صرف سورۃ الحجرات ہی پڑھ لیں تو اس طرح کے واقعات کی نوبت نہ آئے۔ قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔ اگر فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لیکر آئے تو تحقیق کرلیا کرو۔ اسی سورۃ الحجرات میں ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے،’’اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘ ابھی تک کوئی ایسا ثبوت، معتبر گواہی یا شہادت سامنے نہیں آئی جس سے ثابت ہوکہ جلائے گئے شخص نے قرآن کی توہین کی تھی۔ اس کے برعکس اس کی بے گناہی کی شہادت موجود ہے۔ تھانہ مدین کے ایس ایچ او اسلام الحق کے مطابق جب اسے گرفتار کرکے تھانے لایا گیا تو پہلا سوال یہ کیا گیا کہ کیاتم قادیانی ہو؟اس نے کہا، نہیں الحمد اللہ میں سنی مسلمان ہوں۔ پھر اس سے پوچھا گیا کہ تم نے قرآن پاک کے اوراق کو جلایا ہے؟ اس نے کہا ،توبہ نعوذ بااللّٰہ میں ایسی حرکت کیوں کروں گا۔ انحطاط و زوال کا شکار معاشروں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ لوگ حالت انکار میںجی رہے ہوتے ہیں۔سازشی تھیوریوں پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی سب کارستانیوں کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دیتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد بھی یہ ایسی گھسی پٹی باتیںکی جارہی ہیں کہ سیالکوٹ سے آئے ایک شخص نے سوات میں آکر توہین مذہب کا ارتکاب کیوں کیا؟یہ سازش ہے۔ یہ بے پرکی بھی اُڑائی جارہی ہے کہ اس شخص کو یہ کام کرنے کے لئے دس لاکھ روپے دیئے گئے۔ اول تو کسی قسم کی توہین کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ لیکن بالفرض محال یہ بات درست بھی تسلیم کرلی جائے تو دراصل یہ کہنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان دس لاکھ روپے لیکر ایسی حرکت کر سکتے ہیں؟ ایمان سے قطع نظر محض انسانی جبلت کو منطق کی کسوٹی پر جانچنے کی کوشش کریں تو یہ باتیں بہت بیہودہ معلوم ہوتی ہیں۔جب آپ کو معلوم ہو کہ انجام کیا ہوگا ،یہ دولت نہ آپ کے کام آئے گی اور نہ ہی آپ کے بچوں کے تو دس لاکھ کیا پچاس لاکھ میں بھی کوئی اس طرح کی حرکت نہیں کریگا۔ اور سوات کیا کسی اور سیارے پر واقع ہے ؟جب مذہبی شدت پسندی اور جنونیت کا سیلاب آتا ہے تو سب کچھ خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جاتا ہے۔ کوئی جزیرہ اس سے محفوظ نہیں رہ پاتا۔ یادش بخیر یہیں خیبرپختونخوا میں مردان یونیورسٹی کے طالبعلم مشعال خان کو کیسے اذیت ناک انداز میں قتل کیا گیا تھا۔ کیا وہ بھی سازش تھی؟ جن لوگوں نے لائوڈ اسپیکر پر اعلانات ہونے کے بعد گھروں سے نکل کر قانون کو ہاتھ میں لیا اور یہ سب کیا، کیا وہ مریخ سے آئے تھے ؟

کڑوا سچ یہ ہے کہ جس طرح یورپ کے عہد تاریک میں Inquisition Courtsلگائی جاتی تھیں اور پادری تجدید ایمان کے لئے لوگوں کو بلا کر فیصلے دیئے کرتے تھے،ہمارے ہاں بھی اسی نوعیت کا فساد برپا ہے۔ اطالوی فلاسفر جردانو برونو جنہیں سولہویں صدی میں ایسی ہی ایک عدالت میں ٹرائل کے بعد زندہ جلا دیا گیا تھا، ان کا مجسمہ آج بھی روم میں موجود ہے۔ سیالکوٹ میں دو بھائیوں حافظ مغیث اور منیب کو مشتعل ہجوم نے کس طرح قتل کیا ،سیالکوٹ میں ہی ایک فیکٹری کے سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کو توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر کیسے زندہ جلایا گیا، فروری 2023ء میں ننکانہ صاحب کے علاقے واربرٹن میں اسی طرح ایک شخص کو پولیس حراست سے چھڑا کر ماردیا گیا،اگست 2023ء میں جڑانوالہ کی مسیحی بستی کو توہین مذہب کے الزام میں آگ لگا دی گئی اور پھر گزشتہ ماہ سرگودھا میں کیا ہوا؟اگر کسی مہذب معاشرے میں پے درپے اس طرح کے واقعات پیش آئے ہوتے تو اب تک پورے نظام کو بیخ و بن سے اُکھاڑدیا گیا ہوتا لیکن یہاں راوی چین ہی چین لکھتا رہتا ہے۔اگر اس حیوانیت اور درندگی کو روکنا ہے تو کسی اگر مگر چونکہ چنانچہ کے بغیر ان فسادیوں کے خلاف کھڑے ہونا ہوگا اور ریاست کو طے کرنا ہوگا کہ یہ مذہبی جنونی دفاعی اثاثہ(Strategic asset)نہیں بوجھ (Liability)اور روگ ہیں۔