رچرڈ برینسن کی کامیابی کی کہانی

August 13, 2018

آپ ان صفحات پر اکثر سر رچرڈ برینسن کے کالمز اور ان کالمز میںسرمایہ کاری، کاروبار اور عالمی اقتصادی حالات پر پر مغز خیالات سے مستفید ہوتے ہیں ، اسی لیے ہم نے سوچا کہ آپ کو رچرڈ برینسن کی زندگی کے کچھ پوشیدہ پہلوئوں سے آگاہ کریں، تاکہ آپ آئندہ ان کے کالمز پڑھیں تو آپ کو زیادہ اچھا لگے گا ۔ عظیم ناول نگار پاولو کویلہو کا کہنا ہے کہ صرف ایک چیز ایسی ہے جو خواب کے حصول کو ناممکن بناتی ہے اور وہ ہے ناکامی کا خوف۔ ناکامی کے خوف میں مبتلا لوگ زندگی میں اپنے اہداف اپنے پوٹینشل سے بہت نیچے رکھتے ہیں، وہ ہر صورت میں ناکامی سے بچنا چاہتے ہیں۔ وہ شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں، چاہے اس کے لئے انہیں اپنے ہر خواب سے دستبردار ہونا پڑے، لیکن سررچرڈ برینسن نے اپنے خوابوں سے دستبردار ہونا سیکھا ہی نہیںتھا۔

سر رچرڈ چارلس نکولس برینسن ایک برطانوی کاروباری شخصیت اور ورجن گروپ کے بانی ہیں جس کے تحت 400 سے زائد کمپنیاں دنیا بھر میں موجود ہیںاور آمدن تقریباََ 5 بلین ڈالر تک ہے۔ لیکن سر رچرڈ کی زندگی اتنی آسان نہیںتھی، حقیقت تو یہی ہے کہ اربوں کھربوں روپے کامالک مطالعے اور حساب میں کمزور تھا۔ انہیں ہائی اسکول سے خارج کر دیا گیا تھاکیونکہ وہ ساری زندگی پڑھنے لکھنے سے معذور (Dyslexia) رہے۔ یہ بڑ ی عجیب سی بات تھی کہ ایک Dyslexia شخص، پوری دنیا کا میڈیا آئی کن اور کھرب پتی عوام دوست انسان کے طور پر پہلی چوائس میں ہرگز نہیں ہوتے۔سر رچرڈ اپنی درخشاں شخصیت اور 59 سال کی دھوپ میں سنہری ہو جانے والے بالوں کے ساتھ 400 کمپنیوں کا موروثی مالک نہیں تھے۔ ان کی پہلی کاروباری کوشش ایک طلبہ کا رسالہ تھا جو اس نے سولہ برس کی عمر میں شروع کیا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس رسالے نے برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کچھ مسائل پیدا کر دیے تھے۔ اپنے رسالے میں veneral بیماریوں کے علاج و ٹوٹکے چھاپنے کے نتیجے میں رچرڈ جیل جاتے جاتےبچےمگر یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ اس کی وِرجن ریکارڈز کی دکانوں کے خرچ و آمدن کے درمیانی مسئلے میں پھنسنے کی وجہ سے وہ دوبارہ سلاخوں کے پیچھے جاتے جاتے بھی بچے۔ کیونکہ اس بار ٹیکس بے فرار کا معاملہ تھا۔ ایک رات حوالات میں گزارنے کے بعد جب انہوںنے مدعی کو 60,000 پاؤنڈ کی بھاری رقم ادا کی تو اس کی گلوخلاصی ہوئی۔ اس تجربے کا ان پر بڑا اثر ہواور انہوں نے خود سے عہد کیا کہ وہ آیندہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس کی وجہ سے انہیںجیل جانا پڑے اور نہ کوئی اس قسم کا کاروبار جس سے انہیں خفت کا سامنا کرنا پڑے۔تاہم اان کی پوری زندگی میں ناکامی کا سفر بھرپور طریقے سے جاری رہا۔ وِرجن کولاکے لیے انہوں نے ٹائمز اسکوائر پر ایک ٹینک بھی چلایا ، پھر بھی وِرجن وائی، وِرجن ڈیجیٹل سب ناکام ہو گئےاور ناکامایوںکی فہرست طویل ہوتی چلی گئی۔

درحقیقت زیادہ تر لوگ جو رسالے Forbes کے دنیا کے امیرترین لوگوں کی فہرست میںنظر آتے ہیں، انھیں یہاں تک پہنچنے کے لیے رِسک لینے پڑتے ہیں۔ جس کا مطلب تقریباً ناکامی ہوتا ہے۔ ہم بڑی آسانی سے امیروں پر یہ فقرے چست کر دیتے ہیں کہ یہ تو منہ میںسونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہیںیا یہ غالباً خفیہ تنظیمیں یا دنیا میں تبدیلی لانے والے مافیا کے کام ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے سو امیر ترین افراد میں سے 73 نے یہ مقام اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔ اس بات میں کوئی سازش نہیں ہے بلکہ یہ ایک نشریاتی و اشاعتی ادارے Bloomberg کی پیش کردہ حقیقت ہے۔

ناکامیاں کیوں اہم ہے، بزنس کی دنیا کے لوگ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ سر رچرڈ برینسن کے خیال میں سرمایہ کار ان کاروباری کمپنیوںمیں سرمایہ لگانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جنہوں نے ماضی میں دو یا تین ناکامیوں کا سامنا کیا ہو۔ ان ناکامیوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ لوگ باہمت اور حوصلے والے ہیں اور مستقبل میں عارضی رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ہر کامیاب بزنس میں تین دفعہ ناکام ہوتا ہے ان ناکامیوں کے بعد وہ ایک کامیاب بزنس کا مالک بنتا ہے۔

برینسن کی زندگی کا ایک ہی فلسفہ تھا کہ ’’ناکامی سے سیکھیں۔ اگر آپ تاجر ہیں اور آپ کا پہلا کاروبار کامیاب نہیں ہوا تو اس حلقے میں خوش آمدیدکہا جاتا ہے۔ ‘‘یعنی خلاصہ کلام یہ تھا کہ ’’ناکامی بہترین اُستاد ہے۔‘‘