اردو دنیا کی ممتاز افسانہ نگار ’’شمع خالد‘‘

August 29, 2018

سلیم قاضی

خوب صورت، ذہن اور مثبت سوچ، زندگی کی تلخ حقیقتوں کو سمجھنے میں آسانی پیدا کردیتی ہے۔کسی بھی کر فن سے کئی دہائیوں تک وابستہ رہنا کوئی معمولی بات ،نہیں ہوتی۔راول پنڈی سے تعلق رکھنے والی شمع خالدنے اپنا قلم سے رشتہ اُس وقت جوڑا، جب بچے کھلونوں اور گڑیوںسے کھیل پر اپنا دل خوش کرتے ہیں۔انہوں نے زندگی کی جنگ قلم سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔وہ اس جنگ میں ہار جیت کی پروا کیے بغیرآگے بڑھتی رہیں، انہیں شہرت اور کام یابی کا کبھی لالچ نہیں رہا۔اس تخلیقی سفر میں اپنے پڑھنے والوں کو کتابوں کے تحائف دیتی رہیں۔۔شمع خالد نے ساری زندگی قلم کی آب یاری میںگزار دی۔پتھریلے چہرے 1985ءگیان کا لمحہ 1990ءبے چہرہ شناسائی 1995ءگمشدہ لمحوںکی تلاش 2003ءاوربند ہونٹوںپہ دھری کہانیاںنے 2007ء میںشائع ہوکر مقبولیت حاصل کی ۔وہ کہتی ہیں’’ ابھی تک میںنے دو سو کے لگ بھگ افسانے لکھے ہیں۔ میںاکثر اپنے آپ سے سوال کرتی ہوںکہ میںنے افسانے کیوںلکھے اور دل سے جواب آتا ہے کہ اس کے علاوہ اور کیا کرتی۔ جی ہاں!اگر میںافسانے نہ لکھتی تو میرے پاس زندہ رہنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ بظاہر میں ایک کامیاب براڈ کاسٹر، ایک ماں بیوی اور بہن ہوں اور عورت کے لیے یہ ہونا ہی بہت ہوتا ہے، لیکن میںسوچتی ہوںکہ اگر میںافسانے نہ لکھتی تو مرچکی ہوتی۔افسانوںنے ہی مجھے زندہ رہنے کا حوصلہ دیا ہے۔ ان کے کردار میری روحمیری سوچ کا حصہ ہیںکہ یہ کردار میری خوشی کے وقت رقص کرتے ہیں،اور دُکھ کے وقت میرے غموںکو آہستہ آہستہ چُن کر مجھے خاموش کردیتے ہیں۔‘‘


’’ شمع خالدیہ افسانے حقیقت پسندانہ انداز میںیوںلکھتی ہیںکہ فن کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیںاور معاشرے کے بارے میں بعضڈھکی چُھپی سچائیوںکے انکشاف کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ کہانی سنانے یا لکھنے کا یہی وہ خوبصورت انداز ہے، جو چیخوف،موپساں،منٹو اور بیدی سے ہوتا ہوا یہاںتک پہنچا ۔ شمع جانتی ہیںکہ کسی بھی صنف کے امکانات ختم نہیںہوسکتے ، اس لیے حقیقت پسندانہ کہانیوںکے امکاناتے آج بھی بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ شمع کے مطالعے ومشاہدے کی کوئی حد مقرر نہیں۔ ہر وہ واقعہ یا کردار، جو ان کے تجربے میں آتا ہے،وہ کہانی کی صورت میں‘انتہائی سادگی اور قرینے سے اظہار پاتا ہے۔شمع بات چیت کے انداز میںکہانی سُناتی ہیں،وہ سچی اور کھری کہانی کار ہیں، اس لیے ان کے بارے میں اعتماد کے ساتھ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ اگر انہوںنے فنی ریاضت جاری رکھی تو ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کا مستقبل تابناک ہوگا۔‘‘

ان خیالات کا اظہار، اردو دنیا کے ممتاز افسانہ نگار اور ادیب احمد ندیم قاسمی نے تقریباً 35برس قبل شمع خالد کے پہلے افسانوی مجموعے ’’پتھریلے چہرے‘‘کی اشاعت کے موقع پر کیا تھا۔ اُن کی بات سچ ثابت ہوئی ،شمع خالد ادبی دنیا کی ایک منجھی ہوئی افسانہ نگار کی حیثیت سے سامنے آئیں۔قدرت اللہ شہاب جیسے قدآور ادیب نے لکھا کہ ’’شمع خالد کے افسانے پڑھ کر مجھے تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔ نفسِ انساںکی ڈھکی چُھپی کمینگیاں،برملا خواہشات،ترغیبات،بے راہ رویاںاور طرحطرحکی محرومیاںاُن کے موضوع ہیں۔ ان کی سوچ میں بیباکی ‘مشاہدے میں سچائی اور اسلوبِ بیان میںسادگی و فن کاری ہے‘‘

شمع خالد ان دنوںعلیل ہیں،لیکن اُن کا تخلیقی سفر پوری توانائی کے ساتھ جاری وساری ہے، گزشتہ دنوںانہوںنے اپنے والد کی زندگی پر ایک کتاب لکھی ہے ،جسے ادبی حلقوںمیں بے حد سراہا جارہا ہے ۔اپنےتخلیقی سفرکے بارے میںوہ بتاتی ہیںکہ میںجب یہ سوچتی ہوںکہ میںنے افسانے کیوںلکھے؟تو مجھے بچپن میںاپنی لکھی کہانیاںیاد آتی ہیں۔ جب میں ساتویںجماعت میں تھی،تو میںنے اپنا افسانہ لکھ کر اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ روزنامہ’’تعمیر‘‘کے ادبی صفحے کے لیے بھجوایا۔ دوسرے روز جب بھائی نے بتایاکہ اخبار کے ایڈیٹر نے کہا ہے کہ افسانہ خوب ہے اور جلد ہی چھپ جائے گا۔ تو میںساری رات سو نہ سکی۔ افسانے کی ا شاعت کے اگلے ہفتے جب کسی صاحبہ نے لکھا کہ شمع پروین سے مستقبل میںتوقعات رکھی جاسکتی ہیںتو یہ جملہ میرے لیے مشعلِراہ بن گیا اور میں اس سفر پر چل پڑی اور کچھ نہ کچھ لکھتی رہی۔ صحافت کو آزمایا ،مضامین لکھے، قانون کی باتیںکیں، لیکن تسلی کہیںنہ ہوئی،جو سکون ایک افسانہ لکھ کر ملتاہے، وہ کہیںنہ ملا۔ میںنے جو کچھ دیکھا، سنا اپنے اردگرد پھیلی تلخ حقیقتوںکو محسوس کیا، انہیںسپردِ قلم کردیا۔ادب کا رشتہ اور تعلق زندگی ،زمین اور ماحول سے ہوتا ہے ،زندگی کی تیز رفتاری ، رہن ،سہن میںمشینی تبدیلی آج کے ادیب کو نت نئے تجربات سے روشناس کروا رہی ہے۔ آج کا قلم کار دن رات کی تبدیلی کو آہستہ آہستہ غیر محسوس انداز میںادب پر اثر انداز ہوتے دیکھ رہا ہے۔ اسی وجہ سے آج کے ادب میںجو نت نئے تجربے اور تبدیلیاںکی جارہی ہیں، وہ زندگی کی تیز رفتاری کی بھرپور عکاسی کررہی ہیں، اسی لیے لکھنے والے کے ذہنی‘فنی اور فکری ارتقاء کا لا زمی جُزو ہیں۔میرے خیال میںمیرے افسانے ان ہی خیالات کا تخلیقی اظہار ہیں۔‘‘

اُردو دنیا کے نامور ناوِل نگار اور دانشور ممتاز مفتی نےان کے بارے میں لکھا تھاکہ نوجوان افسانہ نویس شمع خالد کے افسانوں میںروایت اور جدیدیت دونوں کی خوشگوار آمیزش ہے۔ اُن کے ہر افسانے کی بنیاد مرکزی خیال اور وحدتِ تاثر پر رکھی گئی ہے جسے اسلوب کی سادگی،روانی اور شگفتگی کی پھول پتیوں سے سجایا گیا ہے۔ شمع خالد کے افسانے آج کے سماجی مسائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ مرکزی خیال بیشتر تمدّنی نوعیت کے ہیںاور ہماری زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ شمع خالد کے افسانوںمیں زندگی کی شمع ہر رنگ میںجلتی ہے۔اُن کے افسانوںمیںگھٹن‘محرومی ‘شدت یا تشدد کارنگ نہیں‘جو آج کی تحریروں میںفیشن کے طورپر سجایا جاتا ہے۔میری دانست میںیہ بہت بڑی خوبی ہے۔‘‘

شمع خالد کے پہلے افسانوی مجموعے پر قدرت اللہ شہاب ‘احمد ندیم قاسمی‘وزیر آغا‘ممتاز مفتی اور رشید امجد جیسے قدآور افسانہ نگار اور ادیبوں نے جن امکانات کا اظہار کیا تھا ،کئیبرس گزرجانے کے بعد اُن کی ساری باتیںسچ ثابت ہورہی ہیں۔شمع خالد اس بارے میںبتاتی ہیںکہ میری خوش نصیبی رہے کہ مجھے اپنے ابتدائی دور میںہی منجھے ہوئے ادیبوںاور شاعروںکی سرپرستی حاصل رہی ۔اگر وہ لوگ میری رہنمائی نہیںکرتے توشاید میرا فنی سفر اتنا آگے نہ بڑھتا ۔آج زندگی کے اس موڑ پر آچکی ہوںکہ جہاںاحساسِ زیاںکچھ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ریت کی مانند وقت مٹھی سے پھسلتا چلا جاتا ہے۔ میںنے پہلی تحریر لکھی تو ابی جان نے اسے سول ملٹری گزٹ میںچھپوادیا اور جب وہاں سے میرے نام کا فائل کور انعام کے طورپر آیا تو اس وقت میںنہ سمجھ سکی کہ ابی جان قلم کا بار مجھے سونپنا چاہ رہے ہیں۔ پھر پانچویںجماعت میںمجھے گورنمنٹ ہائی اسکول باغ سرداراں میںمضمون لکھنے کو دیا گیا۔ان دنوںہمارے پانچویںجماعت کے کورس میں اِسلام کے علاوہ بدھ مت بھی پڑھاجاتا تھا۔ مضمون لکھنےکے لیے میںنے ابی جان سےمدد مانگی،انہوںنے مجھے ہندو ازم اور عیسائیت کے بارے میں بتایا تو میںنے اپنی کاپی میں تین صفحات پر مشتمل مضمون لکھا۔ یہ میری باقاعدہ پہلی تحریر تھی جسے میری استانی مِس امتل نے بے حد سراہا۔ مِس امتل بھی کیا کمال خاتون تھیں، انہوںنے مضمون پڑھ کر کہا لڑکی تم ایک دن بڑی رائٹر بنوگی۔ وہ اکثر اخبار میرے کمرے میںلاکر دیتیںاور کہا کرتیںریڈیو پاکستان چلو، خبریں سنائو۔ یعنی قلم میرے ہاتھ میں ابی جان نے تھمایا اور اس کی شناخت مِس امتل نے دی۔ ابی جان نے ہمیشہ میری تعلیم میںدلچسپی لی جبکہ میری امی نے مجھے فنون، آرٹس اور اپنی ذات پر اعتماد کرنا سکھایا۔ میری امی ایک اچھی ماں ایک اچھی رہبر اور دوست اور لمحےلمحے کی ساتھی، جبکہ ابی جان جتنے پاس تھے اُتنے ہی دور تھے لیکن ہمیشہ فن کو بیان کرنے کی یہ میری عاجزانہ کوشش ہے۔ ابو ایک بہترین نعت خواں‘شاعر اور مصور ہونے کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میںہومیوپیتھک کے پہلے طبیب بھی تھے۔ نبض شناس اتنے تھے کہ لوگ اُنھیںجنوںوالا ڈاکٹر کہتے تھے۔‘‘

وزیر آغا نے شمع خالد کے بارے میںکیا خوب لکھا تھا کہ ’’کہانی کو تیز رنگوں اور شوخ لکیروںکی مدد سے بھی اُبھارا جاسکتا ہے اور مدھم رنگوںاور موہوم لکیروںکی وساطت سے بھی پہلی صورت میں پلاٹ منضبط اور کردار واضح ہوتا ہے‘جبکہ دوسری صورت میںکردار سائے میںتبدیل ہوجاتا ہے اور پلاٹ محض ایک خلاسا نظر آنے لگتا ہے،لیکن شمع خالد نے کہانی لکھنے کے ان مروّج رویوںسے ہٹ کر زندگی کے چھوٹے چھوٹے بظاہر غیر اہم واقعات اور معاملات پر افسانے لکھے ہیں‘اس طور کہ نہ تو وہ پلاٹ اور کردار کی سنگلاخیت کا شکار ہوئے اور نہ ہیولوں میںتبدیل ہوکر بے نام اور بے چہرہ ہوگئے ۔ کہانی کی تلاش کے لیے تاریخکے اوراق الٹنے‘اخبارات میںدرج بڑے بڑے حادثات اور واقعات کو گھنگالنے یا افیونی کے خوابوںسے مدد طلب کرنے کی ضرورت نہیں‘کیونکہ کہانیاںتو خود روپھولوں کی طرحہمارے چاروںطرف اُگی ہوئی ہیں۔ بس انہیں ایک نظر دیکھنے کی ضرورت ہے۔شمع خالد کی کامیابی اس بات میںہے کہ اسے معمولی واقعے کے غیر معمولی پن کو دیکھنے اور دکھانے کی صلاحیت حاصل ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں‘‘۔

شمع خالد نے اپنی زندگی کا ایک غیر معمولی واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میںراولپنڈی آرٹس کونسل میںکسی تقریب میںگئی تھی تو اچانک میری ملاقات عالمی شہرت یافتہ مصور صادقین سے ہوئی ‘انہوںنے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ تم سامنے کچھ دیر کے لیے خاموش کھڑی ہوجائو اور اُس کے بعد انہوںنے میری تصویر بنانا شروع کی تو میںحیران رہ گئی ۔وہ فن پارہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے ۔‘‘اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میںوہ بتاتی ہیںکہ میری شادی سولہ‘ سترہ برس کی عمر میںہوگئی تھی اور مجھے بہت پیار کرنے والا شوہر ملا میرے چھ بچے ہیں‘چار بیٹے اور دو بیٹیاںاعلیٰتعلیم حاصل کرکے زندگی کے مختلف شعبوںمیںوطنِعزیز کا نام روشن کررہے ہیں۔ بچوںمیں کہانیاںلکھنے کی صلاحیت تو نہیںہے، لیکن وہ شاعری میںگہری دلچسپی رکھتے ہیں۔میںنے زندگی کی تلخ حقیقتوںکو بہت قریب سے دیکھا ہے ،ریڈیو پاکستان سے ملنے والے معمولی معاوضے سے بچوںکی اعلیٰتربیت کی ۔جب بھی مجھے کوئی ریڈیو سے چیک ملتا تومیںاپنے بڑے بیٹے کے لیے کھلونے خرید لیتی تھی ۔میںنے ریڈیو اسٹیشن اسلام آباد اورحیدرآباد میںباقاعدہ ملازمت بھی کی ساری زندگی قلم سے رشتہ جوڑے رکھا میرے شوہر بہت اعلیٰتعلیم یافتہ تھے انہوںنے پانچ ایم اے کیے ہوئے تھے ۔ریڈیو پاکستان حیدرآباد میںحمایت علی شاعر ‘نور اظہر جعفری سے بھی ملاقاتیںرہیں‘وہ ریڈیو کا بہت خوبصورت دور تھا ‘ریڈیو کی ریکارڈنگ کے دوران میںاپنے بچے بھی ساتھ لے جاتی تھی، وہ سب اِدھر اُدھر کھیلتے رہتے تھے ‘‘۔