آخری کلمات

September 26, 2018

موت ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جسے انسان چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ اس کا کوئی وقت مقرر نہیں لیکن موت بر حق ہے، ایک نہ ایک دن اس کا مزہ ہر بشر کو چکھنا ہے۔ لیکن شاید مرنے والے کو مرنے سے قبل الحام ہو جاتا ہے یا پھر وہ قدرتی طور پر ایسی باتیں کرنے لگتا ہے جو اس کے گھر والوں، جان پہچان، عزیز و اقارب، دوست احباب یا پھر اگر وہ کوئی معروف شخصیت ہے تو اپنے مداحوں کے لیے کسی نصیحت یا مشعل راہ کا سامان کر جاتی ہیں۔ انہیں زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بتاتی یا پھر ان کے لیے عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔ آخری الفاظ کسی مشہور و معروف شخصیات کے ہوں تو یہ صرف اُس کے اہل خانہ کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کے مداحوں کے لیے بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ان کے چاہنے اور سراہنے والے اسی جسجتو میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح جان سکیں کہ جسے وہ آئیڈیلاز کرتے ہیں ان کی زندگی کے آخری لمحات کیسے تھے، انہوں نے کیا کہا، آخری پیغام کیا دیا۔ زیر نظر مضمون میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی چند ملکی و غیر ملکی، معروف و غیر معروف شخصیات، کے آخری لمحات کے بارے میں پڑھئے کہ انہوں نے آخری الفاظ کیا ادا کیے یا مرنے سے قبل آخری پیغام کیا دیا۔

٭ پروفیسر ڈاکٹر لیفٹیننٹ کرنل الٰہی بخش، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل اور بانی پاکستان قائد اعظم کے خصوصی معالج تھے۔ وہ اپنی کتاب ' With the Quaid-i-Azam during his last days میں قائد کے آخری الفاظ سے متعلق تحریر کیا ہے کہ، جب 11 ستمبر 1948ء کو 1 بجکر 15 منٹ پر قائد کی نبض کمزور پڑ کر بے قاعدگی سے چلنے لگی اور جسم کے تمام حصوں پر ہلکا ہلکا پسینہ آنے لگا۔ کورامین (طاقت کا ٹیکہ) دینے کے بعد معالج نے قائد اعظم کو مخاطب کیا ”ہم نے یہ طاقت کا ٹیکہ لگایا ہے، خدا کے فضل سے جلد اثر کرے گا اور آپ اچھا محسوس کریں گے‘‘۔ جواباً قائد اعظم نے موت سے آدھا گھنٹہ قبل بمشکل ’’میں اب نہیں‘‘ کہا، یہ ان کے مرنے سے قبل آخری الفاظ تھے۔ اس کے بعد کمزوری محسوس ہونے کے باعث آدھے گھنٹے تک خواب میں رہے، بعدازاں ان کا انتقال ہو گیا۔ جب کہ فزیشن ڈاکٹر ریاض علی شاہ کے مطابق قائد کے آخری الفاظ ”اللہ پاکستان“ تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے مطابق کمزور آواز میں آخری الفاظ یوں تھے ’’فاطمیٰ خدا حافظ، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘۔ واضح رہے کہ، قائد اعظم کے آخری لمحات میں ان کے پاس پانچ افراد تھے۔ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش، ڈاکٹر ریاض علی شاہ، ڈاکٹر ایس ایم عالم کے علاوہ محترمہ مس فاطمہ جناح اور اسٹاف نرس موجود تھیں۔

٭ شاعر مشرق علامہ اقبال کا انتقال طویل علالت کے بعد ہوا۔ ان کے آخری وقت کے متعلق تذکرہ نگاروں نے اقبال کے دیرینہ خادم علی بخش کے بیان کو نقل کیا ہے جس کے مطابق علی الصبح علامہ اقبال کے سینے میں درد اٹھا، علی بخش نے اقبال کو سہارا دیا، ”اللہ! میرے یہاں درد ہو رہا....“ کہتے ہوئے اقبال کا سر پیچھے کو ڈھلک گیا اور مشرق بلند ستارہ وقت سحر غروب ہو گیا۔

٭ پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران فائرنگ کرکے قتل کیا گیا اور مختلف رپورٹس کے مطابق ان کے لبوں پر دم آخرت یہ الفاظ تھے، ”اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔“

٭ انگریزی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق، ذوالفقار علی بھٹو سے پھانسی سے قبل وصیت تحریر کرنے کے حوالے سے پوچھا گیا تھا، جس پر انہوں نے مدھم آواز میں جواب دیا کہ، " میں نے کوشش تو کی تھی مگر خیالات بہت زیادہ منتشر تھے، اس لیے ایسا نہیں کرسکا اور کاغذات کو جلا دیا"، یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔ اس کے بعد وہ پھانسی تک خاموش رہے۔ جب کہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا تھا، جب ذوالفقا علی بھٹو کو جیل سے تختہ دار تک لے جایا جا رہا تھا تو انہوں نے نہایت مدھم آواز میں’’ I am sorry for my county, she will be left alone without its leader. ‘‘کے الفاظ ادا کیے تھے۔ چوں کہ یہ انتہائی مدھم آواز میں تھے اس لیے صرف وہ افسر جو ان کے اسٹریچر کے پاس تھے، انہوں نے یہ جملہ سنا اور سمجھا کہ، بھٹو اپنی اہلیہ کے لیے کہہ رہے ہی کہ وہ اکیلی رہ جائیں گی۔ بعدازاں پھانسی کے تختہ پر پہنچ کر ان سے پوچھا گیا کہ، کیا وہ خود پھانسی کا چبوترا چڑھ سکیں گے؟، وہ نہایت خود اعتمادی کے ساتھ چبوترے کے زینے چڑھ گئے۔ انہوں نے آخری چبوترے پر پہنچ کر اپنا پاؤں زور سے چبوترے پر مارا جیسے یہ دیکھنا چاہتے ہوں کہ یہ واقعی تختہ ہے یا کسی ڈرامے کا حصہ۔ پھر تارا مسیح نے ان کے چہرے پر نقاب چڑھایا اور گلے میں رسی ڈال کر گرہ لگا دی۔ ابھی پھانسی کا لیور کھینچا نہیں گیا تھا کہ انہوں نے تقریباً چیخنے کے انداز میں کہا ”Finish“ یہ آخری الفاظ تھے، جو ان کے منہ سے نکلے تھے۔ اس وقت دو بج کر پانچ منٹ ہوئے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ نے اشارہ کیا اور پھانسی کا لیور گرا دیا گیا، تختے نیچے گر گئے اور پاکستان کا بہت بڑا لیڈر 11 فٹ گہرے گڑھے میں معلق ہو گیا۔

٭ 1965 کی جنگ کے دوران شہید میجر عزیز بھٹی کو مسلسل چھ یوم تک دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بعد کرنل قریشی نے کچھ دیر کے لیے آرام کرنے، کانفرنس کے بہانے سے ہیڈ کوائٹر بلوایا۔ جب میجز عزیز بھٹی پر انکشاف ہوا کہ انہیں کسی کانفرنس کے لیے نہیں بلکہ آرام کرنے کے لیے بلوا یا گیاہے، تو انہوں نے کرنل قریشی سےکہا کہ، ’’ سر جس احساس اور جذبے کے تحت مجھے آپ نے بلایا ہے ، اس کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن آپ یقین مانیں میرے لئے آرام و راحت محاذ پر ہے ۔ مجھے اگر محاذ سے واپس بلا لیا جائے، تو میرے لئے یہ ایک روحانی عذاب ہو گا۔ مجھے فخر ہے کہ میرے جوانوں نے اپنی قوت ایمانی اور عزم سے دشمن کی کئی گنا زیادہ فوج اور بے پناہ اسلحے کے باوجود اس کی یلغار کو روک دیا ہے اور ہر مقابلے میں اسے شکست دی ہے ۔ میرے لئے یہ امر ناقابل تصور ہے کہ میں اپنے جوانوں کو محاذ پر چھوڑ کر یہاں آرام کرنے بیٹھ جائوں۔ میں پچھلے مورچوں پر نہیں جائوں گا، بلکہ وطن پاک کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنا پسند کروں گا‘‘۔کرنل قریشی کے بےحد اصرار پر میجز عزیز بھٹی صرف ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد محاذ پر یہ کہہ کر لوٹ آئے کہ، ’’مجھے اب دوبارہ نہیں بلوائیے گا، میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک وطن عزیز کی حفاظت کی خاطر قربان کر دوں گا‘‘۔یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔جس کے بعد 12 ستمبر 1965 کو انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔

٭ سقوط ڈھاکہ سے چند ماہ قبل 20 اگست 1971 کو جب بنگال سے تعلق رکھنے والے فلائٹ لیفٹینینٹ متاالرحمٰن نے شہید راشد منہاس کے تربیتی طیارے کو اغوا کرنے کی کوشش کی تو شہید راشد منہاس نے دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنادیا اور جام شہادت نوش کیا۔ شہادت کا رتبہ حاصل کرنے سے قبل دوران تربیت فلائٹ لیفٹینینٹ متالرحمٰن ،راشد منہاس کو بے ہوش کر کے ان کا طیارہ دشمن کے علاقے میں لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن پاکستانی حدود ختم ہونے سے 40 میل دور راشد منہاس ہوش میں آگے اور طیارے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ انہوں نے کنٹرول روم سے رابطہ کرکے انہیں آگاہ کیا کہ، ’’مجھے اغوا کیا جا رہا ہے‘‘۔ یہ شہید راشد منہاس کے آخری الفاظ تھے، جو کنٹرول روم میں ریکارڈ ہوئے۔ جس کے بعد وہ پاکستانی سرحد سے 32 میل کے فاصلے پر سندھ کے علاقے ٹھٹھہ میں طیارہ گرا کر جام شہادت نوش کیا۔

٭ 24 نومبر 2015 کو شہید ہونے والی مریم مختار پاکستان کی پہلی خاتون فاٹر پائلٹ تھی، جنہوں نے شہادت حاصل کی، موت کی آغوش میں جانے سے ایک روز قبل اہل خانہ سے ہونے والی آخری گفتگو میں انہوں نے اپنے والد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’’جب ایک پائلٹ اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر شہادت کو گلے لگاتا ہے تو آپ کو اس کا جست ِخاکی نہیں بلکہ اس کی راکھ ملے گی‘‘۔

٭ 1984 میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی حیثیت سے پولیس فورس کا حصہ بننے والے چوہدری اسلم کا نام شہری پولیس کے لیے نیا نہیں، سٹی پولیس میں 30 سالہ ملازمت کے بعد ایس پی چوہدری اسلم بہت سے لوگوں کے لیے فتح اور کچھ کے لیے نفرت کی علامت تھے۔ بیشتر شہریوں کے لیے وہ حفاظت کا ذریعہ تو کچھ کے لیے مستقل دہشت کی حیثیت رکھتے تھے، تنازعات ان کی زندگی کا اہم جزو رہے لیکن یہ چیزیں بھی مجرموں کو منہ توڑ جواب دینے کے اصول کی راہ میں حائل نہ کرسکیں۔ 1990 کی دہائی میں ہونے والے کراچی آپریشن سے لے کر 2009 میں عبدالرحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیٹ کے قتل تک، گینگ وار کے ملزموں کے خلاف اپریل 2012 لیاری میں کئی روز آپریشن سے لے کر اپنی ہلاکت سے کچھ گھنٹے قبل منگھو پیر میں مطلوبہ دہشت گردوں کے مارے جانے تک ، ایس پی خان میڈیا، پولیس حکام اور سیاسی جماعتوں میں کیب حوالوں سے جانے جاتے تھے۔ کالعدم تنظیم کے ارکان کی گرفتاری کے کامیاب آپریشن کے بعد آئی جی سندھ شاہد ندیم بلوچ کی جانب سے شہر کے خطرناک ترین افسران میں سے ایک قرار دیئے جانے والے ایس پی خان کرائم سندھ پولیس انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ(سی آئی ڈی) کے انسداد انتہا پسندی سیل کے سربراہ تھے۔ انہیں اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں بھرپور عزائم کی کئی بار قیمت چکانا پڑی۔ 2011 میں ان کے گھر پر بارود بھر گاڑی سے دھماکہ کیا گیا، تاہم وہ اور اہل خانہ اس دھماکے میں محفوظ رہے۔ لیکن 9 جنوری 2014 کو لیاری ایکسپرس سے گزرتے ہوئے ان کی گاڑی پر ایک بار پھر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں خوف کی علامت سمجھے جانے والے چوہدری اسلم جاں بحق ہوگئے۔ ان کے آخری کلمات کےبارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے، مگر ان کی اہلیہ کے مطابق چوہدری اسلم اپنی آخری گفتگو میں بار بار ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ، ’’میں شہید ہونے والا ہوں‘‘۔

٭ ماہر امور خانہ اور معروف شیف زبیدہ طارق عرف زبیدہ آپا طویل علالت کے بعد رواں برس کے آغاز میں 4 جنوری کو انتقال کر گئیں۔ انتقال سے چند روز قبل اپنے مداحوں کے لیےبنائی گئی وڈیو وائرل ہوئی ،جس میں انہوں نے سب کونئے سال کی مبارک بادکے ساتھ اہلِ کراچی کو شہرقائد صاف ستھرا رکھنے کی تلقین کی اور پیغام بھی دیا کہ، ’’جتنا ہو سکے کراچی کو صاف رکھیں تاکہ آنے والے لوگ کہیں کہ کراچی کتنا خوبصورت ہے، ہمیں تعلیم پر توجہ دینے اور گورنمنٹ اسکولز کو ٹھیک کروانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہر بچہ تعلیم حاصل کر سکے ‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ کاش 2018 اتنا خوبصورت آئے کہ ہماری ساری تکالیف دور ہو جائیں۔

٭ بابائے ترکی مصطفی کمال اتاترک نے کومے میں جانے سے قبل پوچھا ”کیا وقت ہوا ہے؟“

٭ خاموش فلموں کے مزاحیہ برطانوی اداکار اور ہدایتکار سر چارلس اسپینسر یا چارلی چیپلن کی موت 1977ء میں کرسمس کے روز ہوئی۔ بستر مرگ سے قریب بیٹھے پادری نے انہیں حوصلہ دیا اور کہا کہ ’’خداوند آپ کی روح پر رحم فرمائے‘‘، تو اس پر مزاحیہ اداکار نے جواب میں کہا کہ، ’’کیوں نہیں یہ روح اسی کی تو ہے‘‘۔ یہ ہی ان کے آخری الفاظ بھی تھے۔

٭کمیونزم کی سائنسی انداز میں صورت گری کرنے والے کارل مارکس نے اپنے گھریلو ملازم کے سوال کے جواب میں یہ آخری جملے کہے، ”نکل جاؤ یہاں سے، آخری کلمات وہ احمق کہتے ہیں جو زندگی بھر اپنی بات پوری نہ کر سکے ہوں۔ “

٭ برطانیہ کی پہلی رکن پارلیمانی لیڈی نینسی آسٹر نے جب اپنے بستر کے گرد عزیز و اقارب کا ہجوم دیکھا تو کہا، ”کیا میں مرنے والی ہوں یا آج میری سال گرہ ہے؟“۔

٭ صدام حسین نے دو دہائیوں تک عراق میں آمریت کا راج رکھا ۔ 2003ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں گرفتار کر لیا گیا، 2006ء میں 69 برس کی عمر میں انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔ انہوں نے آخری لمحات میں نا معافی مانگی اور نا کوئی افسوس ظاہر کیا۔ تختہ دار پر چڑھنے کے بعد زندگی کے آخری لمحات میں کلمہ طیبہ پڑھا اور کہا، ’’میں قسم کھاتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد۔۔۔ ‘‘ ان کے آخری الفاظ مکمل نہیں ہو سکے، اس کے بعد وہ آخری سانس تک پر سکون تھے۔

٭ ٹیلی فون کے مو جد الیگزینڈر گراہم بیل کی قوت سماعت سے محروم بیوی نے آخری وقت میں اس کے کان میں کہا، ”کیا تم مجھے چھوڑ کر جا رہے ہو؟“ تو گراہم بیل چلایا ”نہیں!!“ اور دم توڑ گیا۔

٭فرانس کے فرماں رواں نیوپولین بونا پارٹ کے آخری کلمات تھے ”فرانس، فوج ، جوزفین۔“

٭ دوسری جنگ عظیم کے دور میں سرونسٹن چرچل برطانیہ کے وزیر اعظم رہے، انہوں نے ادب میں نوبل انعام جیتا تھا، ان کی موت نوے برس کی عمر میں 24 جنوری 1965ء کو ہوئی، موت سے قبل وہ نو دن کومے کی حالت میں رہے۔ کومے میں جانے سے پہلے انہوں نےکہاکہ، ’’میں اب ان سب سے بہت اکتا/ بیزا رہو گیا ہوں‘‘۔ اس کے بعد وہ طویل کومے میں رہنے کے بعد آنجہانی ہوئے ۔

٭ نت نئی اور ایڈوانس ٹیکنالوجی سے بھرپور کمپیوٹرز اور فونز کی معروف کمپنی کے شریک بانی اور سی ای او اسٹیو جابز کا نام کسی کے لیے نیا نہیں، خاص طور سے ٹیکنالوجی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے۔ انہوں نے پرسنل کمپیوٹر کی دنیا میں میکنٹاش کے تعارف کے ساتھ انقلاب برپا کیا، ساتھ ہی انہوں نے آئی پیڈ اور آئی فون بھی متعارف کرایا۔ ان کی موت 2011ء میں 56 برس کی عمر میں لبلبے کے کینسر میں ہوئی۔ اسٹیو جابس کی بہن مونا نے ان کے جنازے کی دعائیہ تقریب میں اپنے بھائی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اسٹیو نے علالت کے دنوں میں ایک بار موت کے بارے میںکہا تھا کہ، ’’یہ زندگی کی واحد بہترین ایجاد ہے‘‘۔ ان کے آخری الفاظ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ، وہ تعجب کے احساس کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے، وہ کیا احساسات تھے کوئی نہیں جانتا، جس پر وہ خوشیاں منا رہے تھے، ان کی زبان پر دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ’’ارے واہ، ارے واہ، ارے واہ‘‘ کے الفاظ تھا۔

٭سکندر اعظم سے بستر مرگ پر جب پوچھا گیا کہ، ’’تمہارے بعد کس کو بادشاہ بنایا جائے‘‘، تو اس نے کہا، ”سب سے طاقت ور کو“ یہ ہی اس کے آخری کلمات تھے۔

٭ نظریہ ارتقا سے شہرت پانے والے چارلس ڈارون آخری دم کہہ رہے تھے ”میں موت سے ڈرنے والا دنیا کا آخری شخص نہیں۔“

٭ جب رومیوں نے یونانی سلطنت کے شہر سائزس پر قبضہ کر لیا تو فوج کو خاص طور پر حکم دیا گیا کہ معروف یونانی ماہر ریاضیات، طبیعات داں اور موجد ارشمیدس کو زندہ گرفتار کیا جائے۔ فوجی ارشمیدس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، انہوں نے دیکھا کہ، ارشمیدس زمین پر کچھ دائرے بنا رہا ہے۔ فوجیوں نے ارشمیدس کو اپنے ساتھ جانے پر مجبور کیا، جس کے جواب میں ارشمیدس نے کہنا شروع کر دیا ’’میرا دائرہ خراب مت کرو!‘‘ اس پر ایک رومی فوجی نے طیش میں آکے اسے قتل کر دیا۔

٭ گوتم بدھ کے آخری کلمات تھے، ”بھکشوؤ! یاد رکھنا تمام مرکب مادی اشیاء فنا ہو جائینگی، مستعدی اور محنت سے جدوجہد کرنا۔“

٭ جیک ڈینیل امریکا کے معروف شراب ساز کار خانے جیک ڈینیلز ٹینسی وہسکی ڈسٹیلیری کا بانی تھا، اس کے آخری الفاظ تھے ”ایک اور جام.... پلیز!“

٭ پاکستان میں تو بوب مارلے کا نام اتنا معروف نہیں مگر جمیکا سے تعلق رکھنے والے اس گلوکار کے آخری الفاظ ’’دوست سے زندگی نہیں خریدی جاسکتی‘‘ ضرور متاثر کن ہیں۔

٭ چارلز ڈکنز ممتاز برطانوی ادیب تھے۔ فطرت سے محبت اور اس کی منظر کشی ان کے کلام بنیادی موضوع رہا۔ یہ بات مشہور ہے کہ جب برطانیہ میں ریل کی پٹڑی بچھانے کے کام کا آغاز ہوا تو ڈ کنز نے زمین پر آہنی پٹریاں بنے کو پسند نہ کیا، جو ان کی زمین سے محبت کی ایک مثال بن گئی۔ اتفاق دیکھئے۔ جب چارلس ڈکنز اپنے گھر کے قریب چہل قدمی کر رہے تھے اور انہیں دل کا دورہ پڑا۔ انہوں نے سہارا دینے والے افراد سے کہا، ”زمین پر زمین پر“ یعنی زمین پر لٹا دو اور یہ کہتے کہتے ہی وہ عظیم شاعر دنیا سے رخصت ہو گیا۔

٭ مشہور سائنس داں تھامس ایڈیسن ،کی ایجادات نے اکیسویں صدی میں انسانی زندگی پر بے پناہ اثرات مرتب کیے۔ معروف مو جد جب بستر مرگ پر تھا تو اس کے سامنے کھڑکی کھلی ہوئی تھی وہ یہ کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوا ’’وہاں کتنی خوب صورتی ہے‘‘ ان کلمات کے مفہوم یر بہ بحث کی جاتی ہے کہ آیا ایڈیسن کھڑکی سے نظر آنے والے منظر کی خوب صورتی کی طرف اشارہ کر رہا تھا یا موت کے بعد آنے والی زندگی کی طرف۔

٭ پال واکر ایک تقریب کے اختتام پر باہر آئے، گاڑی میں بیٹھنے سے قبل کہا کہ، ’’ہم بس پانچ منٹ میں واپس آرہے ہیں‘‘۔ جس کے بعد ان کی گاڑی تیز آندھی کی ضبط میں آکر حادثے کا شکار ہو گئی جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے گئے۔

٭ بنجمن فرینکلن کا شمار ریاست ہائے متحدہ کے بانیوں میں ہوتا ہے، ایک موجد، ماہر طبیعات، سیاستدان، سفارت کار اور صحافی سمیت کئی حوالوں سے فرینکلن کا نام جانا جاتا ہے۔ اپنے آخری وقت میں اس نے ایک درد ناک حقیقت بیان کی، جب اس کی بیٹی نے اسے کروٹ بدلنے کو کہا ،تاکہ اسے سانس لینے میں جو دشواری پیش آرہی ہے وہ دور ہو جائے، تو فرینکلن نے کہا، ’’مرتا ہوا انسان کوئی بھی کام آسانی سے نہیں کر سکتا۔“

٭ معروف گلوکار مائیکل جیکسن کے معالج ’’کا نراڈ مرے‘‘ کے مطابق جیکسن نے موت سے قبل ’’مور ملک‘‘ کہہ رہے تھے، یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ، مائیکل جیکسن نے بے ہوشی کی دوا کی عرفیت ملک یا دودھ رکھی ہوئی تھی۔

٭ معروف ماہر نفسیات اور تجزیاتی نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائیڈ نے زندگی کے آخری لمحوں میں کہا، ’’واہیات ہے یہ کیا واہیات ہے ‘‘اس کا اشارہ موت کی تکلیف کی طرف تھا۔

٭ بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے اپنے قتل سے تھوڑی دیر پہلے سکیوریٹی اہل کاروں سے کہا، ’’پریشان مت ہو، ریلیکس....‘‘ ان الفاظ کی ادائیگی کے کچھ ہی دیر بعد وہ خودکش حملے میں ہلاک ہوگئے۔

٭ ایلوس پرسیلے کو، کنگ آف راک این رول کہا جاتا ہے، بلاشبہ اپنے عہد کے مقبول ترین گلوکار تھے، ان کی موت 42 برس کی عمر میں 16 اگست 1977 کو ہوئی، آخری لمحات میں انہوں نے کہا " ٹھیک ہے، میں نہیں کرتا"۔

٭ معروف ہسپانوی مصور پکاسو کے آخری کلمات تھے، ’’پلاؤ....‘‘.

٭ 1999 سے 2013 تک وینزویلا کے صدر رہنے والے ہیوگو شاویز 59 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ مرنے سے قبل ان کے آخری الفاظ تھے ’’میں مرنا نہیں چاہتا، پلیز مجھے مرنے نہ دو ، مرنے سے بچاؤ‘‘ تھے۔

٭ معروف ڈرامانگار جارج برناڈشاہ نے بستر مرگ پر آخری الفاظ کہے ”مرنا آسان ہے مگر مزاح لکھنا مشکل۔“

٭ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن جنہوں نے امریکی انقلاب میں فوج کی قیادت کی تھی، ان کی موت 1799 میں 67 برس کی عمر میں ہوئی۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ جارج واشنگٹن شدید علیل تھے اور جانتے تھے کہ وہ بچ نہیں سکیں گے۔ انہوں نے اپنی سیکرٹری، ٹوبائیس لیئر سے کہا کہ ’’میں اب جا رہا ہوں، مجھے باعزت طریقے سے دفنایا جائے اور میرے مرنے کے بعد میری لاش کو تین دن سے زیادہ کفنایا نا جائے، کیا تم سمجھ گئیں، میری موت تکلیف دہ ہے لیکن مجھے جانے کا غم نہیں‘‘۔

٭ ایڈگر پولن انیسویں صدی کے مقبول ترین امریکی مصنفین میں سے ایک ہیں۔ وہ صرف 40 برس جی سکے۔ ان کے آخری الفاظ ’’خدا میری روح کی مدد کرنا‘‘ تھے۔

٭ عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماؤزے تنگ نے مرتے دم کہا ’’ میں خودکو بیمار محسوس کر رہا ہوں ، ڈاکٹر کو بلاؤ....‘‘.

٭ معروف سیاح مار کو پولو کے سفر زندگی کا اختتام یہ کلمات کہتے ہوئے ہوا ’’میں نے جو کچھ دیکھا اس کا نصف بھی بیان نہیں کیا‘‘۔

٭سماجی کارکن مدر ٹریسا کے آخری الفاظ تھے ’’مسیح مجھے آپ سے محبت ہے، مسیح مجھے آپ سے محبت ہے‘‘۔

٭ فرانس کے معروف حریت پسند ادیب والٹئیر کے قریب کھڑا پادری اسے شیطان پر لعنت بھیجنے کی ترغیب دے رہا تھا اس نے پادری کو دم نکلتے نکلتے جواب دیا ”اے نیک آدمی! یہ وقت نئے دشمن بنانے کا نہیں“۔

٭ 1972 سے 1975ء تک شطرنج کا عالمی چیمپئین رہنے والے بوبی فشر کے آخری کلمات تھے، ”کوئی بھی شے درد کو کم کرنے میں انسانی لمس سے زیادہ کارگر نہیں۔“

٭ امریکا میں سیاہ فاموں کے شہری حقوق کی تحریک چلانے والے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو اپریل 1968 میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا، آخری لمحات میں انہوں نے کہا، ’’اپنے کھیل کو یقینی بنائیں، میرا ہاتھ پکڑ لو ، بہت اچھا کھیلنا‘‘۔

٭معروف روسی ناول نگار لیون ٹالسٹائی کے آخری کلمات تھے ’’کسانو! ایک کسان کیسے مرتا ہے؟“ ۔

٭ لیڈی ڈیانا برطانوی شہزادے چارلس کی پہلی اہلیہ تھیں۔ انہیں پرنسز آف ویلز کی شہزادی ہونے کے علاوہ سماجی و فلاحی کاموں کے حوالے سےبھی جانا جاتا ہے۔ شہزادی ڈیانا اور چارلس کے درمیان علحیدگی کےبعد 31 اگست 1997ء کو جب وہ پیرس میں تھیں تو ان کی کار کا پیچھا پاپارازی کا فوٹو گرافر کر رہا تھا، کار تیز رفتاری کے باعث ہولناک حادثے کا شکار ہوگئی۔ حادثے کے مقام پر سب سے پہلے پہنچنے والے فائر فائٹر نے بتایا کہ آخری لمحات میں جب ان کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں تو وہ ”میرے خدا! یہ کیا ہو گیا؟“ کہتے ہوئے موت کی آغوش میں چلی گئیں۔

٭ ’’بیٹ مین‘‘ کے مداح ’’دی ڈارک نائٹ‘‘ کے جوکر کو کبھی کوئی نہیں بھول سکتا، جس کا کردار ہیتھ لیجر نے ادا کیا تھا۔ خودکشی سے قبل اپنی بہن سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’کیٹی، کیٹی، دیکھو…، سب کچھ ٹھیک ہے، تم جانتی ہو، مجھے بس کچھ نیند کی ضرورت ہے‘‘۔ اس کے بعد ایسی گہری نیند سوئے کہ پھر اُٹھ نہ سکے۔

٭مغربی فلسفے کے بابا آدم قدیم یونانی فلسفی سقراط نے زہر کا پیالہ پینے سے قبل اپنے شاگردوں سےآخری کلمات کہے، ”کریٹو! ہمیں ایسکلی پئیس کی نذر ایک مرغا کرنا چاہیے، دیکھو! یہ بھول نہ جانا ” ایسکلی پئیس علاج اور نجات کے یونانی دیوتا کا نام تھا۔ ان کلمات سے لگتا ہے کہ سقراط روح کے جسم میں قید ہونے کو زندگی سمجھتا تھا اور موت کو روح کی نجات اور آزادی سے تعبیر کرتا تھا، جب ہی اس نے اپنی موت پر شکر بجالانے کیلئے نجات کے دیونا کو نذر چڑھانے کی وصیت کی۔

٭ فلسفے اور تفکر کی بات کی جائے تو چند ایسے نام ہے جو ذہن میں کوند جاتے ہیں۔ ان ناموں میں سے ایک ارسطو کا نام بھی شامل ہے۔ ارسطو کے آخری کلمات اس کے مشاہدے اور طرز فکر کو عیاں کرتے ہیں اس نے دم آخر کہا ”قدرت نے کوئی چیز بے کار نہیں بنائی۔“

٭ نابغہ روزگار سائنس داں آئزک نیوٹن نے اس کائنات پر غور و خوض ذریعے جو کارنامے انجام دیئے وہ ناقابل فراموش ہیں، لیکن وہ آخری لمحات میں اپنی ساری جدوجہد کو ان لفظوں میں بیان کرتا ہے ’’مجھے نہیں معلوم کہ دنیا کے بارے میں مجھ پر کیا کچھ ظاہر ہوا لیکن میں نے تو سمندر کے کنارے کھیلنے والے اس لڑکے کی طرح اس دنیا کو دیکھا جس کے سامنے حقیقت اور سچائی کا سمندر تھا اور وہ ساحل پرسیپیاں اور خوش نما پتھر تلاش کرتا رہا‘‘۔

٭ اسٹیو ارون جنگلی حیات کے ماہر تھے۔ ان کے کیمرہ مین کے مطابق مگرمچھوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے والے نڈر کروکوڈائل ہنٹر یا اسٹیو ،مرنے سے پہلے اپنی بیٹی کے شو کے لیے ایک سیگمنٹ تیار کر رہے تھے اور اس وقت ان کے سینے میں اسٹینگرے مچھلی کے کانٹے نے چھید کیا تو انہوں نے کہا، ’’میں مر رہا ہوں‘‘ اور پھر مر گئے۔

٭ وولف گینگ موزارٹ عہد قدیم کے مشہور اور ایک با اثر کلاسیکل موسیقار تھے۔ ان کی موت مختصر علالت کے بعد 1791ء میں 35 برس کی عمر میں ہوئی۔ موت سے دو گھنٹے پہلے مکمل طور پر بے ہوش تھے۔ انہوں نے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے کہا، ’’موت کا ذائقہ میرے ہونٹوں پر ہے، میں جو محسوس کر رہا ہوں وہ اس زمین کا نہیں ہے‘‘ یہ ان کے اخری الفاظ تھے۔