ادب پارے: جون ایلیا

October 10, 2018

جشنِ علی سردار جعفری کے موقع پر دوحہ میں مقیم بہاول نگر کے شاعر، سید منور گیلانی نور ہوٹل کے استقبالیہ پر کسی کا انتظار کررہے تھے کہ اچانک ان کی نگاہ جون ایلیا پر پڑی۔ انہوں نے کھڑے کھڑے پنجاب کے روایتی انداز میں دونوں بازو پھیلا کر بے ساختہ کہا:

’’اوئے جون تو!…‘‘

جون ایلیا ایک لمحے کو ٹھنکے اور ’’اوئے تو… اوئے تو… اوئے تو‘‘ کی گردان کرتے ہوئے اس کے قریب پہنچے اور اچھل کر اس کی گود میں سوار ہوگئے۔ اپنی دونوں ٹانگیں اس کی کمر کے گرد حمائل کردیں اور چٹاپٹ اس کے گال پر بوسے لینے شروع کردئیے۔ اسی اثناء میں ڈاکٹر اوجِ کمال نے تصویر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلی۔ منظر بڑا دلچسپ تھا علی سردار جعفری، احمد ندیم قاسمی، شہزاد احمد اور دیگر احباب لطف اندوز ہوتے رہے۔ منور گیلانی نے تصاویر اتارے جانے کے فوراً بعد جون ایلیا کو گود سے نیچے اتارا، احباب سے ہاتھ ملایا اور چلے گئے۔ ان کے جاتے ہی جون ایلیا نے برجستہ کہا: ’’جانی… کون تھا یہ؟‘‘

***********

جون ایلیا کے ایک ہمدم و ہمراز بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے ڈھائی بجے ان کے پھاٹک پر گھنٹی بجی۔ وہ آنکھیں ملتے ہوئے پہنچے تو جون ایلیا کھڑے تھے۔

فرمایا جانی!! میں اس وقت پیے ہوئے نہیں ہوں، میں رینجر بن کر بڑے بھائی (سید تقی صاحب) کو فون کرنا چاہتا ہوں، جن سے اُن کا جائیداد کا جھگڑ تھا۔

ان دنوں کراچی میں قتل و غارت کا زور تھا اور شہر میں رینجرز کے جوان گشت کررہے تھے۔ لوگ رینجرز سے بہت خوف زدہ تھے۔ دوست انہیں فون تک لے گیا، ان کے ہاتھ میں بے حد رعشہ تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ڈائل کے سوراخ یکے بعد دیگرے غلط طرف گھمائے۔ انہیں نمبر بھی یاد نہیں تھا۔ کہنے لگے جانی!! تمہارے فون کے سوراخ غلط جگہ بنے ہوئے ہیں، ہم نے سب ٹرائی کرکے دیکھ لئے، ذرا تم فون ملادو۔ دوست نے فون ملایا۔ سید محمد تقی فون پر آگئے تو جون نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے ریسیور پکڑ کے مہکتے ہوئے ہونٹ اس پر رکھ کر کہا، ’’بھیا! میں رینجرز بول رہا ہوں‘‘۔ (بھائی صاحب قبلہ نے جواب میں جو کچھ کہا، اسے یہاں دہرانا ضروری نہیں)۔

فون پھینک کر جون ایلیا دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ ’’صاحب! اس تہذیب نے ہمیں تباہ کردیا۔ اس تہذیب نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ اماں خفگی اور لڑائی جھگڑے میں بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ امروہے کی تہذیب نے مجھے تباہ کردیا‘‘۔

***********

ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ میں ناکام شاعر ہوں۔

اس پر مشفق خواجہ نے انہیں مشورہ دیا:

’’جون صاحب! اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ یہاں اہلِ نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود، ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں‘‘۔

***********

مشفق خواجہ کہتے ہیں کہ محسن بھوپالی نے مجھے بتایا کہ دورانِ سفر، جون ایلیا کی وجہ سے ایک مسئلہ پیدا ہوگیا۔ مشاعرہ گردوں کی ٹولی جہاں بھی جاتی تھی، جون ایلیا کو ان کے بالوں کی وجہ سے خاتون سمجھا جاتا تھا۔ کئی مرتبہ ہوٹل کے بیروں نے انہیں ’’میڈم‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ اہل کار نے انہیں روک کر کہا، ’’خواتین کا باتھ روم دوسری طرف ہے‘‘۔