پاکستان کیلئے پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی، معیشت اور عوام کی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو ہے۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے دریائے چناب کے بہاؤ میں اچانک اتار چڑھاؤ کے بعد بھارت کی پانی کو ہتھیار بنانے کی پالیسی پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ اسحاق ڈار نے بتایا کہ رواں سال 2 مرتبہ دریائے چناب کے بہاؤ میں غیر معمولی اور اچانک تبدیلیاں دیکھی گئیں، جو 13اپریل سے 21 مئی اور 7 دسمبر سے 15 دسمبر کے درمیان ریکار ڈ ہو ئیں، بھارت مسلسل ایک منظم انداز میں اس معاہدے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس پس منظر میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی جانب سے دریائے چناب کے بہاؤ میں اچانک اور غیر معمولی تبدیلیوں پر اظہار تشویش صرف بجا ہے۔ پاکستان کے کسانوں میں پھیلتی بے چینی اور معیشت کے مختلف شعبوں پر اس کے ممکنہ اثرات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سندھ طاس معاہدہ جو پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور تحفظ کیلئے طے پایا، اپنی روح اور مقاصد کے تحت دونوں فریقین پر لازم ہے۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی محض تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ علاقائی امن اور سلامتی کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ بھارت کی جانب سے دریاؤں میں بہاؤ کی غیر معمولی تبدیلی کشن گنگا اور ر تلے جیسے پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن میں تکنیکی شرائط کی خلاف ورزی اور غیر قانونی ڈیموں کی تعمیر اس بات کا ثبوت ہے کہ پانی کواب ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ رو یہ نہ صرف پاکستان کی انسانی اور اقتصادی زندگی کیلئے خطرہ ہے بلکہ سیلاب، خشک سالی اور غذائی بحران جیسے مسائل کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ حقیقت بھی نا قابل نظر انداز ہے کہ بھارت نے معاہدے کے تحت لازم ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا اور مشتر کہ نگرانی کے عمل کو معطل کر رکھا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نہ صرف پانی کے بہاؤ کے غیر متوقع ردو بدل سے متاثر ہو رہا۔ بلکہ اپنی منصوبہ بندی اور قدرتی وسائل کے مؤثر استعمال میں بھی رکاوٹوں کا سامنا کر رہا ہے۔ پانی کے وسائل پر یہ کنٹرول انسانی حقوق، غذائی سلامتی اور معاشی استحکام کیلئے براہ راست خطرہ ہے اور عالمی برادری کی عدم توجہ اسے مزید سنگین بنارہی ہے۔ اسحاق ڈار نے عالمی برادری کو متنبہ کیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی صرف ایک دوطرفہ تنازع نہیں بلکہ بین الاقوامی معاہدوں کی حرمت، علاقائی امن اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کیلئے خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی طریقہ کار اور مینڈیٹ ہولڈرز کی جانب سے بھی بھارت کے رویے پر سخت قانونی اور انسانی خدشات ظاہر کیے گئے ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے تحفظات محض داخلی نوعیت کے نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ پانی کے وسائل کے تحفظ، معاہدے کی شرائط کی پاسداری اور کسانوں، صنعت اور شہری زندگی پر ممکنہ اثرات کے تحفظ کیلئے متحرک رہے۔ پانی کی اہمیت کو سمجھنا اور اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کسی بھی کوشش کا مؤثر مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ بھارت کے یک طرفہ اقدامات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے نفاذ کے بغیر علاقائی تو ازن اور خطے میں پائیدارامن قائم رکھنا ناممکن ہے۔ پاکستانی حکومت کی پالیسی اور عالمی برادری سے مطالبات یہ یقینی بناتے ہیں کہ پانی کے وسائل پر کسی بھی غیر قانونی کنٹرول کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ سندھ طاس معاہدے کی روح کو زند ہ ر کھنا، پانی کی تقسیم میں شفافیت قائم کرنا اور خطے میں امن کو مستحکم کرنا ہر فریق کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے بھارتی اقدامات پر جو سوالات اٹھائے ہیں، وہ پاکستان کے اس دیرینہ مؤقف کی واضح تائید کرتے ہیں کہ بھارت دانستہ طور پر سندھ طاس معاہدے جیسے بین الاقوامی آبی معاہدے کو سیاسی اور عسکری مقاصد کیلئے یرغمال بنا رہا ہے۔1960ء میں عالمی بینک کی ضمانت کے ساتھ طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کا ایک مستند، قابلِ عمل اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فریم ورک ہے۔ اس معاہدے کے تحت مغربی دریا، سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کیلئے مخصوص ہیں، جبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں پر محدود حقِ استعمال دیا گیا۔ پاکستان نے گزشتہ 6 دہائیوں میں اس معاہدے کی نہ صرف پاسداری کی بلکہ ہر عالمی فورم پر اس کے تقدس کا دفاع بھی کیا۔ اس کے برعکس بھارت نے بارہا یکطرفہ اقدامات کے ذریعے اس معاہدے کی روح کو مجروح کیا۔پاکستان امن کا خواہاں ہے، لیکن امن کی خواہش کو قومی سلامتی، خودمختاری اور عوام کے بنیادی حقِ آب پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ اگر بھارت نے اپنی آبی جارحیت بند نہ کی تو یہ خطے کو ایک ایسے تصادم کی طرف دھکیل سکتا ہے جسکے نتائج کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ سندھ طاس معاہدہ صرف ایک معاہدہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں بقا اور امن کی ضمانت ہے۔ اس سے چھیڑ چھاڑ دراصل پورے عالمی نظامِ اعتماد کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر آج بھارت کو نہ روکا گیا تو کل دنیا کے دیگر آبی معاہدے بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان اپنے حقِ آب، خودمختاری اور علاقائی امن کے تحفظ کیلئے ہر سطح پر آواز بلند کرتا رہے گا اور عالمی برادری کو بھی بھارت کے جنونی توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر بھارتی جارحانہ عزائم سے دنیا کی تباہی بعید از قیاس نہیں۔