چین کی معاشی ترقی

July 22, 2019

بیجنگ : لوسی ہورنبے، شننگ لیو

قومی اعدادوشمار کے بیورو نے بتایا کہ سالہا سال سے مجموعی ملکی پیداوار میں 2.6 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں کی توقعات کی عین مطابق 1992ء میں جب چین کی معیشت کی طویل تیز رفتار ترقی کا جب آغاز ہوا ،سے این بی ایس نےجی ڈی پی کے اعدادوشمار کے موجودہ سلسلے کا حساب کتاب شروع کیا ، موجودہ اعدادوشمار اس کے مقابلے میں سست ترین رہے۔

امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ کے باعث برآمدات پر محصولات میں اضافے کی وجہ سے چین کی معیشت میںدوسری سہہ ماہی کے دوران تقریباََ تین دہائیوں میں سست رفتار میں ترقی ہوئی ہے۔

تاہم مستحکم ملکی کھپت کا مطلب یہ ہے کہ چین معاشی ترقی کی شدید سست رفتار کو ٹالنے کے قابل تھا،جس نے چین کے صدر شی جن پنگ کو خیال و عمل کی آزادی دی جیسا کہ وہ امریکا کے ساتھ تنازع کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی کوشش کررہے ہیں۔

قومی اعدادوشمار کے بیورو نے پیر کو بتایا کہ سالہا سال سے مجموعی ملکی پیداوار میں 2.6 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں کی توقعات کی عین مطابق 1992 جب چین کی معیشت کی طویل تیز رفتار ترقی کا جب آغاز ہوا ،سے این بی ایس نےجی ڈی پی کے اعدادوشمار کے موجودہ سلسلے کا حساب کتاب شروع کیا ،موجودہ اعدادوشمار اس کے مقابلے میں سست ترین رہے۔

چین نے 2018 کی پہلی سہہ ماہی میں 4.6 فیصد اور پورا سال 6.6 فیصد ترقی کی رپورٹ دی تھی۔

این بی ایس کے ترجمان ماؤ شینگ یانگ نے صحافیوں کو بتایا کہ سال کے شروع میں محصولات کی کٹوتیوں نے ملکی معیشت کو فروغ دینے میں مدد دی، تجارت کے حوالے سے مسائل کی تلافی کی۔ماؤ شینگ یانگ نے مزید کہا کہ چین کی اقتصادی ترقی ملکی طلب پر زیادہ سے زیادہ انحصار کررہی ہے ،بالخصوص کھپت پر۔

امریکی صدر نے چینی معیشت کی سست رو ترقی کے حالیہ شواہد کا خیر مقدم کیا،انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ امریکی ٹیرف کے ان کمپنیوں پر جو ٹیرف سے بچنے کیلئے ٹیرف کے بغیر ممالک جانے کیلئے چین چھوڑنے کی خواہاں ہیں ان پر گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

امریکی صدر نے کہا کہ ہزاروں کمپنیاں چین چھوڑ رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چین امریکا کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتا ہے اور سوچتا ہے کہ کاش اس نے پہلے ہونے والا اصل معاہدہ نہ توڑا ہوتا۔دریں اثناء ہم چین سے ٹیرف کی مد میں اربوں ڈالر وصول کررہے ہیں اور مزید ڈالر آنے کے امکانات ہیں۔

شنگھائی اور شینزین کے اندراج شدہ اسٹاکس کے سی ایس آئی 300 انڈیکس کے اعدادوشمار کے اجراء کے بعدحالیہ نقصانات کی شرح میں 9.0 فیصد بلند تجارتی خسارہ ہوا ، جبکہ ہانگ کانگ کے ہینگ سینگ بینچ مارک کو 2.0 فیصد کا فائدہ ہوا۔

امریکا کے ساتھ انتشار انگیز تعلقات کے دور کے بعد چین کی معیشت کی رفتار میں کمی آئی۔دونوں ممالک نے دھمکیاں دیں اور ایک دوسرے کی مصنوعات پر محصولات کے نئے دور کا نفاذ کیا، تاہم گزشتہ ماہ اوساکا میں جی 20 کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جنگ پنگ کی ملاقات کے بعد جنگ بندی پر اتفاق کیا۔

تجارتی جنگ میں اضافے کا بڑھتا ہوا خوف چین کی قابل اعتماد برآمدی صنعت کو نقصان پہنچائے گا، چین نے ایک آزاد مالیاتی پالیسی برقرار رکھی اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے صنعتی پالیسیوں کو متعارف کرایا ہے۔اس کے باوجود،چین میں چند ماہرین اقتصادیات کو دوسری سہہ ماہی میں کم ہوکر تقریبا 6 فیصد تک ترقی کی توقع تھی۔

جی ڈی پی کی دوسری سہہ ماہی میں زیادہ تر کمزوریاں برآمدات، جو ماہ جون میں کم ہو گئی اور ہاؤسنگ کنسٹرکشن میں زوال اور سرمایہ کاروں کے خیالات کے علاوہ دیگر علامتوں سے آئیں۔

کیپٹل اکنامکس میں چین کی معیشت کے ماہر جولین ایوانز پرنچارڈ نے کہا کہ ہم چین کے اقتصادی افق پر مزیدمعاشی کمزوری دیکھ رہے ہیں۔

ابھی تک ملکی ترقی خوردہ فروخت اور صنعتی پیداوار دونوں کے استحکام کے ساتھ متعدد کی توقعات کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ثابت ہوئی ہے۔میتھاس ایشیا میں سرمایہ کاری کے تزویرکار اینڈی روتھ مین نے کہا کہ صارفین کے اخراجات کی طرح آمدنی کی ترقی اچھی تھی اور پورا سال یہ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کشیدگی کے حوالے سے چینی صارفین گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے۔

ملکی معیشت کی مستحکم کارکردگی کا اظہار چین کے دلائل کو تقویت دیتا ہے کہ اس کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ کے ساتھ طویل تجارتی جنگ کا سامنا کرنے کیلئے اس کی ترقی کافی مستحکم ہے۔سنگاپور میں کمرزبینک میں تجزیہ کار شو ہاؤ نے کہا کہ دونوں طرفین نے اکانومی پر مضبوط کنٹرول ظاہر کیا، امریکا نے مستحکم اقتصادی نتائج پیش کیے اور چین نے اپنی معیشت پر اس کے مضبوط کنٹرول کا اظہار کیا۔

تجزیہ کاروں نے کہا کہ چین کی جی ڈی پی کے اعدادوشمار کی شہہ سرخی نے سیاسی مقاصد کیلئے مسائل کو بڑی حد تک کم کیا اور چین کے 2010 کے مقابلے میں 2020 تک اپنی معیشت کے حجم کو دگنا کرنے کے ہدف کو پورا کیا۔حتیٰ کہ عالمی سطح پر اعدادوشما ر کو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر چین کی معیشت کے استحکام کے اشارے کے طور پر دیکھا گیا۔

جی ڈی پی میں برائے نام ترقی ،جو افراط زر کے مطابق نہیں ہے تاہم این بی ایس کے اعدادوشمار کی جانب سے مسائل سے کامیابی سے نمٹنے کیلئے زیادہ زیربحث نہیںہے، فنانشل ٹائمز کے حساب کے مطابق پہلی سہہ ماہی کے ساتھ مقابلتاََ کم اضافہ ہوا۔

1989 میں تیانائن اسکوائر میں جمہوریت کے حق میں احتجاج پر کریک ڈاؤن کے نتیجے کے طور پر چین کی معاشی ترقی میں کمی آئی، تاہم ڈینگ شیاؤ پنگ کے 1992 کے جنوبی دورے کے بعد یہ بحال ہوئی اور اپنی طویل مدت کی توسیع کا آغاز کیا۔1990 کے آخر میں ایشیائی اقتصادی بحران کے دوران اور 2008 کے عالمی اقتصادی بحران کے نتیجے میں حقیقی معیشت بھی تیزی سے سست ہوگئی ۔

مئی تک سال میں 2.11 فیصد کے ساتھ مقابلے میں ابتدائی چھ ماہ میں جائیداد کی سرمایہ کاری میں 9.10 فیصد تک معتدل رہی۔جائیداد کی فروخت میں استحکام نے اپریل میں معیشت کو بہتر کیا لیکن دوسری سہہ ماہی میں شعبے کی رفتار کا زور ٹوٹ گیا۔

تاہم، ترقی کا ایک اور محرک مینوفیکچرنگ کا شعبہ تازہ دم ہوگیا، صنعتی پیداوار میں مئی کے 5 فیصد اضافے کے مقابلے میںجون میں سالانہ 3.6 فیصد اضافہ ہوا ۔

خوردہ فروخت کا فروغ مئی کے 6.8 فیصد سے جون میں 8.9 فیصد تک مستحکم ہوا،یہ ایک حوصلہ افزا علامت ہے کہ ملکی کھپت میں استحکام برقرار رہا۔دوسری پوری سہہ ماہی کے دوران خوردہ فروخت مستحکم رہی جیسا کہ غیرخوراکی اشیا میں مہنگائی کم رہی۔

ریاستی تعاون سے چلنے والی چینی اکمیڈمی آف سوشل سائنسز میں چین امریکا تعلقات کے ماہر لو جیانگ نے پہلے نصف اعدادوشمار کا حیرت انگیز تک اچھا کہتے ہوئے کہا کہ دباؤ کو کم کرنے کیلئے مرکزی حکومت کو نفسیاتی اور عملی طور پر تیار کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کے ساتھ تجارتی مزاکرات میں ہم نے ہمیشہ سودے بازی کی گنجائش رکھی تھی۔ ہم ترقی میں کمی کے دباؤ کا سامنا کرنے کی وجہ سے ہم اضافی رعایتیں دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔