جیکب آباد کا کبوتر گھر

August 27, 2019

150سال قبل’’ نامہ بر ‘‘کبوتروں کی رہائش کے لیے تعمیر ہوا تھا

سندھ کا تاریخی ضلع جیکب آباد، برطانوی تسلط سے قبل خان آف قلات کی حکومت میں شامل تھا اور ا نہی کی مناسبت سے یہ خان گڑھکہلاتا تھا۔ وہ یہاں سردیاں گزارنے آتے تھے۔ اس شہر کو غیر منقسم ہند کی تجارتی گزر گاہ کے طور پر استعما ل کیا جاتا تھا۔ سندھ پر برطانوی تسلط قائم ہونے کے بعد 1847ء میں بریگیڈیئر جنرل جان جیکب کا پولیٹیکل سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے تقرر کرکے خان گڑھ بھیجا گیا جو یہاں پہنچ کرمقامی آبادی میں گھل مل گئے اور شہر یوں کی فلاح و بہبود کے کاموں کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا۔ان کے تخلیق کردہ اس شہر کے دو عجوبے بہت مشہور ہیں ایک’’ جیکب کلاک‘‘ اور دوسرا ’’کبوتر خانہ‘‘، جوڈیڑھ صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی اپنی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

1812ء میں انگلینڈ میں پیدا ہونے والے جان جیکب ، 16 سال کی عمر میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں بھرتی ہوکر ہندوستان آئے۔ چند سالوں بعد ان کی تقرری خان گڑھ (موجودہ جیکب آباد) میں کردی گئی، جس کے بعد وہ یہیں کے ہوگئے، حتیّٰ کہ دسمبر1858ءکو 46 سال کی عمر میں فوت ہو نے کے بعد ان کی تدفین بھی اسی شہر میں ہوئی۔1838ء میں پہلی ’’اینگلو افغان وار‘‘ کے دوران انہوں نے سرجان کین (John Keane) کی کمانڈ میں میانی کی جنگ لڑی۔ اس جنگ میں وہ سندھ ہارس رجمنٹ کے کمانڈر تھے۔ وہ بہادرسپاہی ہونے کے علاوہ عسکر ی منصوبہ بند ی کے ماہر بھی تھے، چنانچہ کمپنی نے ان کی زیر کمان رجمنٹ کو 36 جیکب ہارس کا نام دیا۔ 1847 میں انہیں پولیٹیکل سپرنٹنڈنٹ بنا کرخان گڑھ بھیج دیا گیا۔ یہ علاقہ اس وقت ریگزار تھا اور یہاں پانی اور سبزے کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ خان گڑھ سے تجارتی قافلے گزرتے تھے جو بلوچستان سے ہوتے ہوئے افغانستان ،ایران، ازبکستان اور روس کی جانب عازم سفر ہوتے تھے۔ مقامی لوگ ان قافلوں پر حملہ کرکے ان کا تمام مال و اسباب لوٹ لیتے تھے۔ جنرل جان جیکب نے ان کی سرکوبی کرکے اس گزرگاہ کو محفوظ بنایا۔ ایک سپاہی ہونے کے ساتھ وہ مکینیکل انجینئر اور فن تعمیرات میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ انہوں نے اس بے آب و گیا علاقے کو ایک خوب صورت شہر اور سر سبز و شاداب علاقہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے جان جیکب نے خان گڑھ میں ایک وسیع و عریض تالاب بنایا جسے پانی سے بھرنے کے لیے گدو بیراج سےشہر کے درمیان سے دو نہریں، راج واہ اور بدھو واہ نکالی گئیں۔ ان کا پانی لوگوں کی آبی ضرورتیں پوری کرنے کے علاوہ اراضی کو بھی سیراب کرتا تھا، جس سے علاقے میں ہریالی آگئی، بے آب و گیا ریگزار،نخلستان میںبدل گیا۔جان جیکب نےسفری سہولتوں کے لیے، خان گڑھ کو 600 میل یا 965 کلو میٹر طویل شاہ راہ کے ساتھ ملادیا، جس سے یہ علاقہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ مربوط ہوگیا۔ وائسرائے ہند کو جب جان جیکب کے کارناموں کا علم ہوا تو اس نےاپنے نوجوان افسر کی خدمات کے صلے میں خان گڑھ کا نام تبدیل کر کے جیکب آباد رکھ دیا اور اسے کرنل سےترقی دے کر بریگیڈیئر جنرل بنا دیاگیا۔

جان جیکب نے اپنے بسائے ہوئے شہر میں انجینئرنگ کے کئی شاہ کار تخلیق کیے جن کے نقوش آج بھی اس شہر کے افق پر جگمگا رہے ہیں۔ ان میں سے پہلا عجوبہ’’ جیکب کلاک‘‘ ہے۔ یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد کلاک ہے، جو جان جیکب نے خود ہی ڈیزائن کرکے بنایا تھا ۔جان جیکب نے پانی اور مقنا طیس پر چلنے والا یہ گھڑیال انہوں نے نہ صرف خود ڈیزائن کیا بلکہ اسے اپنی زیر نگرانی بنوایا بھی جو آج بھی ان کی رہائش گاہ، پر نصب ہے۔ ان کی سابقہ رہائش گاہ ، ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں تبدیل ہوگئی ہے لیکن ’’جیکب کلاک ‘‘ آج بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس گھڑیال کی خوبی یہ ہے کہ یہ بیک وقت عیسوی اور ہجری سال، دن، تاریخ کے علاوہ چاند کی تاریخ بھی بتاتا ہے ۔ اسے ہر 15دن بعد چابی دی جاتی ہے اس گھڑیال کے نیچے کنواں ہے جس میں بڑی مقدار میں مقنا طیس اور پانی موجودہے۔ جب ان کی وفات ہوئی تو اُن کی وصیت کے مطابق انہیں جیکب آباد کی سرزمین پر ہی واقع عیسائیوں کے گورا قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ جنرل جان جیکب جو جیکب آباد کے عوام کے لیے کیے جانے والے فلاح و بہبود کے کاموں کی وجہ سے ’’جوکم صاحب بہادر‘‘ کے لقب سے معروف تھے، مرنے کے بعد لوگوں کی نظروں میں ایک روحانی ہستیکا درجہ اختیار کرگئے۔ جنر ل جیکب، جن کا انتقال 1858ء میں ہوا تھا، آج 161برس بعدبھی اپنے بسائے ہوئے شہر کے عوام میں مقبول ہیں۔ ان کی قبر کے سرہانے سیاہ پتھرہے، جس پر دیئے رکھے ہوئے ہیں۔ مقامی لوگ جان جیکب کی قبر پر آ کردیئے جلاتے ہیں، اپنے بیمار بچوں کی شفاء کے لیے منت مانگتے ہیں اوحیرت انگیز طور پر یہ بچے صحت یاب بھی ہو جاتے ہیں۔

جنرل جان جیکب کا ایک کارنامہ کبوتروں کا بہ طور ڈاکیے کے استعمال تھا۔ انہوں نے یہ کبوتر خانہ 1850 میں اپنے گھر کے احاطے میں بنایا تھا، یہ اینٹوں کی دس فٹ لمبی، دس فٹ چوڑی اور ساٹھ فٹ اونچی عمارت ہے۔ اس میں کبوتروں کے چھوٹے چھوٹےکابک بنے ہوئے ہیں۔ اینٹوں کو کبوتروں کی بیٹ کی تیزابیت سے بچانے کے لیے عمارت پر مٹی کا لیپ کیا جاتا تھا۔ یہ لیپ جان جیکب نے شروع کرایا تھا اور یہ آج تک ہوتا ہے۔یہ کبوتر اس زمانے میں سرکاری نامہ بری کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ جنرل جیکب ان کے پائوں کے ساتھ رقعہ باندھ کر اڑا دیتا تھا اور یہ جیکب آبادسے پیغا م لے جاکر، سکھر میںایک مخصوص مقام پر پہنچا دیتے تھے اور وہاں سے جواب لے کر واپس بھی آتے تھے۔جان جیکب کا بنایا ہوا یہ کبوتر خانہ آج بھی ان کی سابقہ رہائش گاہ اور موجود ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں موجود ہے، جہاں کبوتروں کے تقریباً 320 کابک بنے ہوئے ہیں، جن میں 300 سے زائد کبوتر مخصوص ’’غٹرغوں‘‘ کی آوازیں نکال کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔جنرل جان جیکب نے1850 میں پیغامات کی ترسیل کے لئےجب یہ کبوترخانہ قائم کیا تھا تو یہاں دن بھر کبوتروں کی آواز یں گونجا کرتی تھیں۔ ان کی دیکھ بھال، خوراک اور صفائی ستھرائی کے لیے عملہ تعینات تھا۔ انتظامیہ دن رات ان کبوتروں کے نخرے اٹھاتے نہیں تھکتی تھی ۔لیکن جب ڈاک کا نظام رائج ہوا اور خطوط لے جانے کے لیے ڈاک کے تھیلوں کا استعمال شروع ہوا تو کبوتروں کی افادیت بھی ختم ہوگئی ۔ لیکن مذکورہ کبوتر گھر آج بھی تاریخی ورثے کے طور پرجیکب آباد میں موجود ہیں ۔ یہاں کی سیر کے لیے آنے والے لوگ جان جیکب کے بنائے ہوئے اس کبوتر گھر کو دیکھنے کے لیے ضرورجاتے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر میں اس طرح کا کوئی دوسرا کبوتر خانہ موجود نہیں ہے، اس کی دیکھ بھال ، تعمیر و مرمت کی سخت ضرورت ہے لیکن حکومت کے سالانہ بجٹ میں ان کی خوراک کے لیے رقم مختص نہیں کی جاتی۔ جان جیکب کے نامہ بر کبوترمخیر حضرات کی جانب سے دی جانے والی خوراک پر پل رہے ہیں۔ جیکب آباد کے ایک تاجر کبوتروں کو روزانہ دس کلو دانا ڈالتے ہیں۔

1850ء میں تعمیر ہونے والا،یہ تاریخی کبوتر خانہ آج زبوں حالی کا شکارہے، محکمہ ثقافت کو اس کی جانب توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ چند سال قبل اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے اس کی چکنی مٹی سے مرمت کرائی تھی تاہم اب اس تاریخی کبوترگھر کی دیواروں میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جان جیکب کی تاریخی رہائش گاہ اور اس کبوتر گھر کو تاریخی ورثہ قرار دیا جائے، اس کی مرمت کراکے اس کی اصل حالت بحال کی جائے اور جنرل جان جیکب کے نامہ بر کبوتروں کی نسل کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔