’خاں صاحب عبدالکریم پلی‘ فقیر منش سیاستداں، جن کا مقصدِ حیات عوامی خدمت تھا

November 26, 2019

سندھ وہ سرزمین ہے جس نے زیادہ تر اولیا اللہ کو جنم دیا ان میں سے چند بزرگ ہستیاںاعلی پائے کی شاعربھی تھیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی،حضرت سچل سرمست ،عبدالکریم بلڑی وارو، شاہ عنایت وہ روحانی شخصیات تھیں،جنہوں نے صوبے سندھ کی خصوصیات ، لوک کہانیوں اور تاریخی روایات کو اپنے اشعار ،اور ادب و فلسفے کےذریعے دنیا بھر میں اجاگر کیا۔ سندھ دھرتی کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی اور حضرت عبد الوہاب المعروف سچل سرمست جیسے بزرگ شاعرکسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، انہوں نے اپنے صوفیانہ کلام سے سندھ دھرتی کے پیغام کو ساری دنیا میں عام کیا۔

ان کے بعد اس سرزمین پر بعض ایسے شعرائےکرام اور بزرگ ہستیوں نے بھی جنم لیا ، جن کا عالمی سطح پر تو کوئی شہرہ نہیں ہوا لیکن سندھ اور ملکی سطح پر انہوں نے مقبولیت حاصل کی۔ انہی میں سے سندھ کے ایک شاعر خان صاحب عبدالکریم پلی ہیں جن کا آبائی گاؤں ،تاریخی شہر عمرکوٹ کے قریب واقع ہے۔

خان صاحب عطا محمد پلی کی برسی ہر سال4 نومبر کو انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہے، جس کے سلسلے میں مختلف تقریبات کا اہتمام ہوتا ہے۔ عبدالکریم پلی 27 اگست 1940 میں اپنے آبائی گاؤں خاں صاحب عطا محمد پلی میں پیدا ہوئے۔بچپن سے ہی ان کا رجحان شعر و ادب کی جانب تھا، بڑے ہوکر مزید پروان چڑھتا گیا اور وہ خود ایک بڑے شاعر اور ادبی شخصیت بن کر ملک گیر شہرت کے حامل ہوئے۔

انہوں نے متعدد ادبی کانفرنسز کا انعقاد کیا جس میں ملک بھر کے شعراء کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ اس مقصد کے لیے ’’نوائے ادب‘‘ کے نام سے ایک ادبی ادارہ بنایا، جس کے دفتر میںانہوں نے کئی ادبی تصنیفات رکھیں جن میں ان کی خود کی تخلیقات بھی شامل تھیں۔ مذکورہ کتابیں اب بھی ادارے کے دفتر میں موجود ہیں ۔

عبدالکریم پلی کی شاعری میں انسان کے اندرونی و بیرونی جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔ خان صاحب عبدالکریم کی زندگی کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ انہوں نےایک بڑے شاعر اور سیاست داں ہونے کے باوجود ’’خان صاحب ‘‘ کا لاحقہ نہیں لگایا اور وہ نمود و نمائش کو معیوب سمجھتے تھے۔

ضلع عمرکوٹ جس کو نارا کہا جاتا تھا اور ریونیو ریکارڈ میںاس کا اندراج ناراویلی سب ڈویژن کی حیثیت سے کیا گیا تھا، یہاں رہائش پذیرپلی برادری کو اس علاقے کی نواب فیملی کا رتبہ حاصل تھا۔ عبدالکریم پلی کے والدخان صاحب عطا محمد پلی جو اپنی برادری کے سربراہ تھے، برٹش سرکار کی طرف سے انہیں خان صاحب کا لقب دیا گیاتھا۔ عطا محمد پلی کی وفات کے بعدان کے فرزند عبدالکریم پلی کے سر پر پگڑی بندھی اورانگریز سرکار کی جانب سے یہ خطاب انہیں منتقل کردیا گیا۔

عبدالکریم پلی صاحب کاملک کے معروف شاعر مرحوم فیض احمد فیض سے دیرینہ تعلق تھا جب کہ گلوکار مہدی حسن کے علاوہ بعض دیگر فن کار بھی ان کے قریبی حلقےمیں شامل تھے۔ خاں صاحب عبدالکریم پلی کے کلام کو ملکی سطح پر گلوکارہ رونا لیلی، علی سلیم ،عابدہ پروین اور محمد یوسف نے اپنی گائیکی کے ذریعے ملکی سطح پر عام کیا۔

1970 میں عبدالکریم پلی نے سیاست میں قدم رکھا اوراس صوبائی حلقے سے جو سامارو عمرکوٹ اور چھاچھرو پرمشتمل تھا آج کے صوبائی حلقے سے تین گنا زیادہ بڑا تھا، انہوں نے کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کی بجائے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑااور کامیابی حاصل کی۔ الیکشن جیتنے کے بعد انہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ، یوں بھی ان کا شہید ذوالفقار علی بھٹو سے قریبی تعلق تھا۔

وفاق میں حکومت بنانے کے بعد بھٹو صاحب نے عبدالکریم پلی کو صوبائی وزیر کا عہدہ دینے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ میری کامیابی، میرے حلقے کے عوام کی مرہون منت ہےاور ان کی خدمت میرا مشن ہے، مجھے عوام کی خدمت کے لیے کسی وزارت کی ضرورت نہیں۔

خاں صاحب عبدالکریم نے اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے اپنے علاقے کی ہر ممکنہ خدمت کی ۔وہ اپنے گھر پر آنے والے ہر غریب، یتیم، مریض اور مستحق شخص کی اپنی جیب سے مالی اعانت کرتے تھے۔ یتیم اور غریب بچیوں کی شادیاں کرانے اور جہیز کے لیے مالی مدد کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔وہ ادیب، شاعر اور صحافیوں کا دل سے احترام کرتے تھےاور ان کی آمد کی اطلاع سن کر ان کی تعظیم وتکریم کے لیے بنگلے کے گیٹ سے چند قدم آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتے تھے۔

ان کی اوطاق میں ہر وقت ادیبوں ،شاعروں اور صحافیوں سے رونق رہتی تھی۔ حیدرآباد اور کراچی سے بھی معروف ادبی شخصیات اور اور نامور صحافی دوردراز کا پر صعوبت سفر کرکے عمرکوٹ میں خاں صاحب عبدالکریم پلی کے درودولت پر حاضری دیتے تھے۔4نومبر 1991 کو ہمہ جہت شخصیت کا مالک، محبت وخلوص اور جذبہ ایثار کا یہ پیکر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوکر خالق حقیقی سے جا ملا۔