’’برین ڈرین‘‘

January 24, 2020

پاکستان میں ہر سال ہزاروں نوجوان یونیورسٹیوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل ہو کر ملازمت کے لیے در بدر پھرتے ہیں،جس کی بڑی وجہ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر میں آسامیاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ قیام پاکستان کےتہتربرس گزرنےکے باوجود فی الحال یہاں نوجوان نسل کے مسائل کا حل یا ان کے مستقبل کے لیے بہتر مواقع فراہم کرنے کی منصوبہ بندی، حکومتی ترجیحات کی فہرست میں آخری سطر میں ہی دکھائی دیتی ہے۔سیاسی جماعتوں کے منشور میں تو نوجوانوں کے حوالے سے مختلف پروگرام اورمنصوبے نظر آتے ہیں، لیکن عملی طور پر وسائل کی کم یابی کا رونا رو کر حکمران وعدوں سے مُکر جاتے ہیں اور ایسا ہربار ہی ہوتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کل آبادی کا نصف نوجوانوں پر مشتمل ہے یعنی 15 سے 30 سال کے افراد کی عمر کی تعداد 40 فی صد سے زائد ہے۔ نوجوانوں کو ملک کا مستقبل تو کہا جاتا ہے تاہم حالات یہ ہیں کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 15 سے 24 سال کی عمر کے 9 فی صد نوجوانوں کے پاس نہ تعلیم ہے اور نہ ہی روزگار ۔

دوسری جانب عالمی اداروں کے مطابق یہ شرح 16 فی صدہے۔ ایسے حالات میں پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے یا ملازمت کرنے کی خواہاں ہے، جبکہ یہ رجحان بہت تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔معاشی و معاشرتی ناہمواری، وسائل اورانسانیت کی قدر و قیمت میں کمی کے سبب قابل افرادکا ترکِ وطن ’’برین ڈرین‘‘ کہلاتا ہے۔

مسائل کا شکار ایسے لائق اورذہین نوجوان تعلیم تو حاصل کر لیتے ہیں ،لیکن عملی قدم ’’پردیس‘‘میں اٹھانا پسند کرتے ہیں۔حصول رزق کی خاطرملک چھوڑنے کا رُجحان اب خطرناک حدوں کو چُھونے لگاہے۔کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کرنے والے ہزاروں نوجوان جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، تو ملازمت کے حصول کے لیے سرکاری تعاون تو نہیں ملتا ،لیکن انہیںرشوت اور سفارش کلچر کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور در در بھٹکنے کے بعد اپنی جمع پونجی لگا کر وہ بیرون ملک جانے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں اور بالآخر اس میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ تعلیمی اداروں کے بہترین نتائج بھی نوجوانوں کو ملک چھوڑنے سے روک نہیں سکتے۔

صوبہ پنجاب کے سرکاری میڈیکل کالجوں سے ہرسال 2300جبکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجزکے ذریعے 800 نوجوان ڈاکٹربن کر نکلتے ہیں۔ جن میں سے تین سو سے زائد ڈاکٹرز پاکستان سے باہرچلے جاتے ہیں۔ پے بیک نہ ہونے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے، کیونکہ ایک ڈاکٹر اور انجینئر کی تعلیم پر ملک کا خطیرسرمایا خرچ ہوتا ہے۔ جو ڈاکٹر اور اِنجینئر باہر نہیں جا سکتے، اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سی ایس ایس کرکے دیگر اہم ملازمتوں کا رُخ کرلیں، کچھ تو اپنے پروفیشن کو ہی خیرباد کہہ کر حصول رزق کے لیے دیگر راستے اختیار کر لیتے ہیں۔

ٹیلنٹ، صلاحیت اورذہانت کسی بھی معاملے میں ہمارے نوجوان کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق تیس لاکھ سے زیادہ طلبا و طالبات گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پروگراموں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ہر سال تقریباً پانچ لاکھ نوجوان ڈگری لیتے ہیں،لیکن اہلیت، قابلیت اوراعلیٰ تعلیم کے ہوتے ہوئے نوجوانوں کا ملک سے باہر چلے جانا پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

گزشتہ ایک دہائی میں صرف صحت ،تدریس اور انجینئرنگ کے شعبوں سے متعلقہ 70ہزارسے زائداعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں نے بہترروزگار اوراچھے مستقبل کی خاطر وطن کو خیربادکہا۔جن میں سے 67فی صد انجینئرز ، 20فی صدڈاکٹرز او ر 12فی صدٹیچرزشامل ہیں۔

گزشتہ برس قومی اسمبلی میں جمع کی جانے والی وزارت برائے افرادی قوت کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں پانچ لاکھ گریجویٹ نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں،صرف اسلام آباد میں 6 ہزار 776 نوجوان بے روزگار ہیں ،جن میں مردوں کی تعداد 3 ہزار 819 اور خواتین کی 2 ہزار 957 ہے،رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب میں گریجوٹ نوجوانوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے، صوبہ پنجاب میں کل 3 لاکھ 10 ہزار نوجوان ذریعہ معاش کی تلاش میں سرگرداں ہیں، جن میں مرد اور عورت کی تفریق کے اعتبار سے 2 لاکھ 10 ہزار خواتین جبکہ 99 ہزار 874 مرد بے روز گریجویٹ ہیں۔

بے روزگار گریجویٹ نوجوانوں کی دوسری بڑی تعداد صوبہ سندھ میں ہے جہاں کل 97 ہزار 222 نوجوانوں میں سے 53 ہزار 673 مرد اور 43 ہزار 549 خواتین شامل ہیں۔ مذکورہ سروے سال 15-2014 میں کرایا گیاتھا۔دیگر دو صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بے روزگار گریجویٹ کی کل تعداد بالترتیب 83 ہزار 367 اور 11 ہزار بتائی گئی،ایسی صورت حال میں نوجوانوں کے لیے بیرون ملک ملازمت کا حصول ہی تمام مسائل کا حل لگتا ہے۔

گزشتہ ماہ منظر عام پر آنے والی بیورو آف امیگریشن کی رپورٹ کے مطابق ملک میں روزگار کی عدم دستیابی اور بڑھتی مہنگائی سے تنگ آکر صرف 2018-19 کے دوران آٹھ لاکھ چوراسی ہزارتعلیم یافتہ پاکستانی نوجوان حصول روزگار کی خاطر بیرون ملک روانہ ہوئے۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ بیرون ملک جانے والے مزدوروں کے ساتھ بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بھی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 29 ہزار 312 اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی بیرون ملک گئے، جبکہ 17 ہزار 609 اعلیٰ تربیت یافتہ اور 3 لاکھ 69 ہزار اسکلڈ لیبر نے بیرون ملازمت کو ترجیح دی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ موجودہ حکومت کے دور میں 10 ہزار انجینئرز، ساڑھے 3 ہزار ڈاکٹرز جبکہ ساڑھے 9 ہزار اکاؤنٹنٹ نے ملازمت کےحصول کے لیے دوسرے ممالک کا رخ کیا۔اسی طرح 25 ہزار الیکٹریشن، 3 ہزار ٹیچرز، ڈھائی ہزار فارما سسٹ، 5 سو نرسز اور زراعت کے شعبے میں مہارت رکھنے والے 13 ہزار پاکستانیوں نے بیروزگاری کے باعث بیرون ملک ملازمت کو ترجیح دی۔

اسی حوالے سےپاکستان اوور سیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے اعداد و شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں اب تک 36 ہزار پاکستانی نوجوان، جن میں ڈاکٹرز، انجینئرزاور اساتذہ شامل ہیں ، بیرون ملک اپنی خدمات فراہم کرنے کے لئے ہجرت کر چکے ہیں، جبکہ ماہرین کے غیر سرکاری اندازوں کے مطابق یہ تعداد 45 ہزار سے کہیں زیادہ پہنچ چکی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں سوا دو کروڑ افراد اقتصادی بحران کے باعث وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں ،جن میں سے 21 لاکھ نوجوان ہیں،جبکہ وہاں پہنچنے پر ان نوجوانوں کو انگنت مسائل ،قوانین اور مقامی ثقافت سے ناواقفیت کی بنا پر نسل پرستی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور حقارت کا سامنابھی کرنا پڑتا ہے۔

غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت امریکا میںتیرہہزار چار سو، برطانیہ میں نوہزار، آسٹریلیا میں تین ہزار اور مڈل ایسٹ میں ساڑھے آٹھ ہزار پاکستانی ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں ،یہ محض ڈاکٹروں کی غیرممالک میں خدمات ہیں، دیگر تمام اہم شعبوں میں پاکستانیوں کے پیشہ وارانہ کردارکا تناسب بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ہے، جبکہ پاکستانی سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداداِس کے علاوہ بیرون ملک خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

خدمات کا معقول معاوضہ نہ ملنا، جان و مال کا عدم تحفظ، سفارش کلچر، میرٹ کا فقدان، رشوت ، اقرباء پروری اور غیر یقینی صورت حال ، وہ بنیادی عوامل ہیں کہ جنہوں نے نوجوانوں کے دل ودماغ میں مایوسی کی جڑیں گاڑ رکھی ہیں۔سیاسی جماعتیں انتخابات کے وقت نوجوانوں کوبہتر تعلیم اور روزگار کی امیدیں دلاتی ہیں ،انہیں اپنے جلسے جلوسوں میں استعمال کرتی ہیں،لیکن اقتدار میں آکر اپنے سارے وعدے بھول جاتی ہیں۔

ہر سال ملک بھر کی مختلف پروفیشنل یونیورسٹیوں سے ہزاروں طلبہ روشن مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں ،تاہم حقیقت اس کے برعکس ہی ہوتی ہے۔ اگرحکومت ملک کےنوجوانوں کو اُن کی خدمات کا معقول صلہ اور اُن کی جان ومال کی سلامتی کو یقینی بنانے، اُن کے اعتمادکو بحال کرنے اوراُن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے ٹھوس اورعملی اقدامات کرے، تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کے یہ فرزند وطن چھوڑکر جائیں۔