’آئی جی سندھ کی تبدیلی‘ ڈسپلن کی خلاف ورزی اور امن و امان کنٹرول کرنے میں آئی جی پر ناکامی کے الزامات

January 19, 2020

صوبائی حکومت اور آئی جی سندھ کے درمیان اختلافات کی خبریں کافی عرصے سے زیر گردش تھیں تاہم اس حوالے سے دونوں فریقین کی جانب سے ہمیشہ ان کی تردید کی جاتی رہی۔تاہم بدھ 15جنوری کو سندھ کابینہ کے اجلاس میں آئی جی سندھ کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کی منظوری دے دی گئی۔سندھ حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام کے خلاف چارج شیٹ کے بعد سندھ پولیس کے بعض افسران کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق بااثرپولیس افسران صوبائی حکومت اور آئی جی سندھ میں اختلافات کی بڑی وجہ بنے۔ذرائع کے مطابق آئی جی سندھ کی متعدد شکایت پر بھی سندھ حکومت نے لاڈلے افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔آئی جی نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے 14 پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔ یہ سفارش اعجاز احمد ،غلام اظفر مہیسر، جاوید احمد،نثاراحمد چنہ، سید ذولفقارعلی شاہ کے خلاف کی گئی جبکہ الطاف حسین،محمد فاروق اعظم،غلام سرور ابڑو،اعجازاحمد ہاشمی، کامران رشید بھی فہرست میں شامل تھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے ایس ایس پی غلام اظفرمہیسر کے علاوہ کسی افسر کے خلاف کارروائی نہیں کی۔واضح رہے کہ اس سے قبل سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے ساتھ بھی سندھ حکومت کے اختلافات رہے ہیں۔

سندھ کابینہ نے انسپکٹر جنرل آف پولیس کی ناکامی کے باعث وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ موجودہ آئی جی سندھ کی خدمات واپس لے اورپولیس افسران کےپینل میںسے کسی تجربہ کار سینئر پولیس افسر کی سندھ میں تعیناتی کی جائے۔ کابینہ نے 4 ناموں کے ایک پینل کو فائنل کیا،جس میں غلام قادر تھیبو،مشتاق مہر،ثناء اللہ عباسی اور کامران فضل کے نام شامل ہیں ۔کابینہ نے کہا کہ اغواء برائے تاوان بالخصوص لڑکیوں،کار اور موٹر سائیکل چھیننے کےبڑھتے ہوئے واقعات ، معصوم افراد کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت اورامن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں انسپکٹر جنرل آف پولیس ناکام رہے ہیں ۔

ایک نکاتی ایجنڈے پر مشتمل صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کہا گیا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس صوبے میں جرائم کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں اور انہوں نے متعدد بارڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے جس میں فارن مشنز اور سفارت خانوں سے حکومت اور فارن آفس کی اجازت کے بغیر براہ راست رابطے اور براہ راست خط و کتابت شامل ہے۔واضح رہے کہ آئی جی پولیس نے وزیراعلیٰ کو ایک خط تحریر کیا جس میں ڈی آئی جی خادم رند کی خدمات کوسرینڈر کرنے کا کہاگیاتھا۔کچھ عرصے کے بعد انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو دوبارہ اس حوالے سے خط لکھا۔

جب وزیراعلیٰ سندھ نے ڈی آئی جی خادم رند کی خدمات وفاقی حکومت کو واپس کیں تو آئی جی پولیس نے چیف سیکریٹری کو ایک ’’ سیکرٹ‘‘ خط لکھا اور ان سے ان کے علم میں لائے بغیر ڈی آئی جی کو سرینڈر کرنے پر احتجاج کیا اور اس خط کی کاپی میڈیا کو لیک کردی۔ انہوں نے صوبائی حکومت کی پوزیشن سندھ اور پاکستان کےعوام کے سامنے خراب کی۔واضح رہے کہ آئی جی پولیس نے موجودہ ایس ایس پی کے نام کی شکار پور میں تعیناتی کی سفارش کی۔ذرائع کے مطابق آئی جی سندھ کو بتایا گیا تھاکہ مجوزہ ایس ایس پی صوبے میں بالکل نئے ہیں اور شکار پور قبائلی جھگڑوں کے حوالے سے ایک حساس ضلع ہے ۔

ایس ایس پی شکار پور امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے اور اغواء برائے تاوان کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوا۔ جب ضلع کے عوام نے احتجاج شروع کیا تو ایس ایس پی نے معصوم لوگوں کومنشیات کے مقدمات میں گرفتار کرنا شروع کردیا اور ایک گرفتار نوجوان پولیس کے تشدد سے ہلاک بھی ہوا۔ ایس ایس پی نے 22 دیہاتیوں کے خلاف اے ٹی سی قوانین کے تحت مقدمہ بھی درج کیا۔ ایک ڈی آئی جی مقدمے کی تحقیقات کررہاتھا اور اُس نے بھی ایس ایس پی کی من مانیوں کے خلاف لکھا۔کابینہ نے کہا کہ ایس ایس پی کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے آئی جی پولیس نے اس کا دفاع کیا ۔ صوبائی کابینہ نے اس بات کو بھی نوٹ کیا کہ بسمہ،دعا اور منگی کے اغواء کیسزمیں ان کے والدین کی جانب سے تاوان کی رقم کی ادائیگی کے بعد اُن کی واپسی ہوئی۔

کابینہ نے ارشاد رانجھانی کے ایشو کو بھی اٹھایا جسے رحیم شاہ نے بھینس کالونی میں عوام کے سامنے گولی ماری تھی۔ پولیس اہل کار ارشاد رانجھانی کو اسپتال لے جانے کے بجائے اپنی موبائل میں ڈال کر پولیس اسٹیشن لے آئے ، ایک طرح سے پولیس نے رحیم شاہ کو اُسے گولی مارنے کی اجازت دی تھی۔آئی جی نے پولیس کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے اُن کا دفاع کیا ۔ اس کے ردعمل میں لاڑکانہ میں قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے 4 بے گناہ پشتون مارے گئے۔ ان کے قتل کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے واضح کیا کہ 4 معصوم پٹھانوں کے قاتلوںکو گرفتار کرلیاگیاہے۔

کابینہ نے کہا کہ آئی جی پولیس نے قواعد و ضوابط اور وفاقی حکومت کی ایس او پی کی خلاف ورزی کی اور براہ راست کراچی اور اسلام آباد میں کام کرنے والے فارن مشنز کے ساتھ خط و کتابت کی۔ کابینہ نے متفقہ طور پروفاقی حکومت سے آئی جی پولیس ڈاکٹر کلیم امام کی خدمات واپس لینے کا کہا اور کسی سینئر افسر جس نے سندھ میں خدمات انجام دی ہوں، اُسے ان کی جگہ تعینات کرنے کے لیے کہا ۔نئے آئی جی کی تعیناتی کے لیے صوبائی کابینہ نے متفقہ طور پر 4 ناموں کی سفارش کی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے گریڈ 21 اور گریڈ 22 کے 30 پولیس افسران کے ناموں کی فہرست کو پڑھا اور کابینہ نے 4 ناموں کے ایک پینل کو فائنل کیا۔

کابینہ نے غلام قادر تھیبو،مشتاق مہر،ثناء اللہ عباسی اور کامران فضل کے ناموں کو حتمی شکل دی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ثناء اللہ عباسی کو حال ہی میں خیبر پختونخواہ میں آئی جی پولیس تعینات کیاگیا ہے مگر وہ اس کے باوجود وفاقی حکومت سے درخواست کریں گے۔کابینہ نے وزیراعلیٰ سندھ پر زور دیا کہ وہ کابینہ کی سفارشات کی روشنی میں وزیراعظم سے آئی جی پولیس سندھ کی تبدیلی کی درخواست کریں تاکہ صوبے میں امن و امان اور پولیس کی مجموعی کارکردگی بہتر ہوسکے۔کابینہ نے وزیراعلیٰ سندھ سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ آئی جی پولیس ڈاکٹر کلیم امام کے خلاف ان کے مس کنڈیکٹ اور صوبائی قواعد و ضوابط پر عملدرآمد پر ناکامی کے حوالے سے مکمل تفصیلات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھیجیں تاکہ وہ اس کے خلاف ڈسپلنری ایکشن لیں۔

دوسری جانب ایس ایس پی شکار پور نے ایک صوبائی وزیرکے خلاف خفیہ رپورٹ مرتب کر کے ڈی آئی جی لاڑکانہ کو بھیجی ہے۔ایس ایس پی شکارپور کی پورٹ میں صوبائی وزیر پر سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔شکار پور میں جرائم پیشہ عناصر سے متعلق ایس ایس پی کی رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ امن و امان خراب کرنے کے ذمہ دار سردار اور بااثر سیاسی افراد ہیں اور مذکورہ صوبائی مبینہ طور سے ان کی سرپرستی کرتے ہیںجب کہ وہ سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے کرمنل ونگ کابھی استعمال کرتے ہیں۔پولیس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مذکورہ صوبائی وزیر پولیس میں اہم عہدوں پر من پسند افسران تعینات کراتے ہیں جس کی وجہ سے پولیس کے کئی خفیہ آپریشن انفارمیشن لیک ہونے کے باعث ناکام ہوئے۔رپورٹ میں ان کے بھائی مقبوور بیٹے کا جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ ٹیلی فونک رابطےکا ریکارڈ بھی شامل کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ رپورٹ میںصوبائی وزیر اور کرمنلز کے درمیان رابطے کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ایس ایس پی شکارپور کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ وزیر اور ڈکیت اتو شیخ کے درمیان متعدد بار رابطے ہوئے۔دوسری جانب صوبائی وزیرنے اس رپورٹ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ قانونی مشاورت کے بعد کارروائی کریں گے اور ان پر جو الزامات لگے ہیں اس کا ریکارڈ مانگیں گے۔

ان کا کہنا ہےکہ شکار پور ضلع پیٹرول کی چوری کے لیے مشہور ہے، ہم نے اس کی نشاندہی کی تو برے بن گئے۔ ہم اس معاملے کومنطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ صوبائی وزیر کے مطابق پولیس کے تین اعلی ٰافسران کی ایس ایس پی شکار پور سے متعلق رپورٹس موجود ہیں ،جن میں ایس ایس پی کی نااہلی ، جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی ، بے گناہوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے جیسے سنگین الزامات موجود ہیں ۔

جمعرات16 جنوری کو کو آئی جی سندھ کلیم امام کی تبدیلی کے لیے وفاق کو خط لکھ دیا گیا ، سیکرٹری سروسز کی جانب سے خط سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو لکھا گیاجس میں آئی جی سندھ کی ناقص کارکردگی کی نشان دہی کی گئی ہے۔خط کے متن کے مطابق کلیم امام کے دور میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ، اسٹریٹ کرائم ، اغوا برائے تاوان، بھتہ ، گاڑیوں کی چھینا جھپٹی کے واقعات میں اضافہ ہوا ۔آئی جی سندھ کی انتظامی معاملات پر گرفت خاصی حد تک کمزور رہی ۔ ڈیفنس سے لڑکیوں کے اغوا کے واقعات میں اضافہ ہوا ، لڑکیوں کے اہل خانہ پولیس پر عدم اعتماد کرتے ہوئے رابطہ تک نہ کیا۔

خط میں بتایا گیا ہے کہ آئی جی سندھ کلیم امام نے کئی ایسے اقدامات کیے جو پولیس ایکٹ کی خلاف ورزی تھی۔انہوںنے سندھ حکومت کے خلاف میڈیا پر غیر ضروری بیانات دیئے۔وہ بغیر کسی اجازت کےماتحت افسران کو ایف آئی اے میں تعینات کرتے رہے اور سرکاری خط وکتاب میڈیا پر لیک کرتے رہے۔ڈاکٹر کلیم امام پبلک سیفٹی کمیشن کے احکامات کو خاطر میں نہ لائے ۔

آئی جی سندھ کو متعدد بار کارکردگی بہتر بنانے کا موقع دیا گیالیکن وہ کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے کابینہ کے تحفظات کو جھٹلاتے رہے۔ آئی جی سندھ کابینہ کا اعتماد کھوبیٹھے ہیںاس یے انہیں فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے ۔ وفاق صوبے کی مشاورت سے نیا آئی جی سندھ تعینات کرے، خط کے متن کے مطابق نئے آئی جی کی تقرری تک گریڈ اکیس کے پولیس افسر کو قائم مقام تعینات کیا جائے۔