خودی کے درس کو یاد رکھیں

January 31, 2020

سیدہ عبیلہ تمیز

ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں وسائل کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے اور نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کی بدولت پہلے کی نسبت کئی گنا مواقع فراہم ہورہے ہیں، وہیں اس کے بکثرت استعمال نے نوجوانوں میں ڈپریشن کی شرح بھی بڑھا دی ہے، بلکہ یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال نے نوجوانوں کا دماغ کسی حد تک ناکارہ کردیا ہے۔جس طرح ہر شہ کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے، اسی طرح انٹرنیٹ نے بھی نوجوانوں کی صحت، چستی، توانائی اور قوت ارادی چھین لی ہے۔

ایک چھوٹے سے بچے کو بھی جلد تھکن کا احساس ہوجاتا ہے اور زیادہ تر بچے بھی آج کل مستقل بیٹھے رہنا ہی پسند کرتے ہیں ،جس کی ایک وجہ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے بے مقصد اور تباہ کن کھیل، سوشل میڈیا اور یو ٹیوب کہی جاسکتی ہے۔ان غیرضروری سرگرمیوں نے بچوں اور نوجوانوں دونوں کی چستی اور چاق چوبند صحت و توانائی کو ختم کرکے ان میں غصہ، مایوسی اور جلد ناامیدی پیدا کر دی ہے اور جب کسی نوجوان میں یہ تینوں چیزیں بڑھتے بڑھتے اپنے عروج کو پہنچتی ہیں، تو ڈپریشن کی وجوہ بن جاتی ہیں،جوکہ کسی بھی نوجوان کے لیے بے حد تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے اور کچھ کے لیے تویہ خودکشی کا بھی باعث تک بن جاتی ہے ۔

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ڈپریشن کو دماغی دبائو یا بیماری ہی نہیں تسلیم کرتے اور نہ ہی ماہر نفسیات سے رجوع کرتے ہیں، جبکہ اسی ناسمجھی کے نتیجے میں ہم اس نوجوان کو جو ہمارے آنے والے کل کا روشن ستارہ ہے، اسے اس کے حال پر ناصرف چھوڑ دیتے ہیں اور اس کی زبانی کلامی مدد کرنا تو دور کی بات ، لمحہ با لمحہ اس کو مزید اپنے منفی الفاظ کے چنائو اور برے رویوں سے تکلیفیں پہنچاتے ہیں۔

ڈپریشن سے بچنا یا ڈپریشن سے نکلنا اتنا ہی آسان ہے جتنا اس میں چلے جانا ۔ والدین، اہل و عیال اور دوست احباب میں سے کوئی بھی باآسانی درج ذیل مشوروں پر عمل کر کے اس ذہنی دباؤ کا شکارنوجوان کا پیچھا چھڑا سکتا ہے:

سب سے سادہ حل یہ ہے کہ ڈپریشن کے حامل نوجوان سے اس کا حال دل سننا۔ بہت کچھ مریض کے دل و دماغ میں ناگوار اور منفی پنپ رہا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی سوچ منفی ظاہر ہونے لگتی ہے۔ اس سوچ سے چھٹکارہ پانے کے لیے حال دل کہنا بہت ضروری ہے،اس طرح وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرے گا۔

انگریزی کا مقولہ ہے، sharing is caring یعنی ہم بچوں کو آپس میں مل جل کر اور بانٹ کر کھانے کے لیے کہتےہیں، لیکن درحقیقت انسان جب کچھ بانٹتا ہے، تبھی وہ کسی کا خیال بھی کرتا ہے، اب چاہے کسی کو اس کے مسئلے کا حل بتا کر ہی کیوں نہ اس کا خیال رکھا جائے۔

ٹیکنالوجی کے اس دور نے انسان کو سات سمندر پار بیٹھے انسان سے تو قریب کردیا ہے، لیکن قریب بیٹھے انسانوں سے دور کردیا ہے۔ اس لئے ایسے حالات میں کسی کو ڈپریشن میں دیکھیں تو اس کی دل آزاری کرنے کے بجائے دل جوئی کرنا سیکھیں، کسی کے کام آنا سیکھیں ناکہ اس شخص سے عاجز آکر قطع تعلق کر بیٹھیں کیونکہ:

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیان

ڈپریشن میں مبتلانوجوان کو آپ کے میٹھے بول اور ستائش کی اشد ضرورت ہوتی ہے ،ایسے الفاظ اس کا حوصلہ بڑھا کر اسے مایوسی کے اندھیرے سے نکال دیتے ہیں اور آپ کی ہی حوصلہ افزائی کی بدولت ایک بار پھر سے امید کی کرن اور کچھ کر دکھانے کی لگن اس کے دل میں اجاگر ہوسکتی ہے۔

والدین کو چاہئے کہ وہ شروع سے ہی اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ مختلف کارکردگی میں بھی پیش پیش رکھیں، جیسے مختلف آئوٹ ڈور گیمز، تخلیقی امور، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح بچوں میں ڈپریشن جیسے مرض کی شرح دوسروں کی نسبت کم یا نہ ہونے کے برابر دیکھنے میں آتی ہے۔

جس مثبت کام میں خوب دل لگتا ہے، اس میں پڑھائی کے بعد خود کو مشغول رکھیں جیسا کہ مختلف کتابیں پڑھنے/ لکھنے کا شوق، مصوری کا شوق، کسی صحت بخش کھیل کا شوق، فلاحی سرگرمیوں اور دوسروں کے کام آنے کا شوق۔اس لے علاوہ اقبال کی ’’خودی‘‘ کو ذہن میں لائیں اور ایک کاپی و قلم ہاتھ میں تھام کے دل کی باتیں لکھیں۔

جس سے آپ نا صرف بے حد پریشان ہوچکے ہیں بلکہ مایوس ہوکر ڈپریشن کی حالت آپ پر ظاہر ہوچکی ہے۔ تمام تر دل کی بھڑاس کا غذ پر لکھنے کے بعد آپ کو اپنا آپ جو کچھ دیر پہلے بہت بھاری اور گھٹا گھٹا سا لگ رہا تھا، بہت ہلکا لگنے لگے گا اور آخر میں آپ اپنی کھوئی ہوئی خود اعتمادی کو دوبارہ محسوس کرنے لگیں گے۔ (اس عمل کو آپ تب تک جاری رکھیں جب تک مکمل خود اعتمادی حاصل نہ کرلیں) اس تمام تحریر کو لکھنے کے بعد ضائع کرکے کچرا دان میں ڈال دیں تاکہ آپ کا یہ ڈر بھی دل سے نکل جائے کہ اگر کسی نے آپ کی اس تحریر کو پڑھ لیا تو آپ کا مذاق اڑائے گا ۔ ضرورت صرف خودی کے درس کو یاد رکھنے کی ہے۔