کورونا وائرس وبائی امراض اور تعملیماتِ نبویﷺ

March 20, 2020

مفتی سعد بن قاسم…مفتی اظفر اقبال

بیماریوں کا آنا جانا دنیا کے نظام کا حصہ ہے۔ بعض بیماریاں وبائی شکل اختیارکرکے پورے معاشرے کو متاثر کرتی ہیں۔آج کل ’’کورونا وائرس‘‘ بھی ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کرچکا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس عام وائرل انفیکشن نزلہ زکام ہی کی طرح ہے ۔ تاہم یہ تیزی سے انسانوں سے انسانوں کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ اس وائرس کے اثرات کچھ دنوں بعد ظاہر ہوتے ہیں ، تاہم اس سے قبل ہی یہ عموماً دیگر انسانوں کو متاثر کرچکا ہوتا ہے۔ اس بیماری نے دنیا کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے۔ اس لیے مناسب ہےکہ اس بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی حاصل کی جائے ۔

بیماریاں اور مصیبتیں کیوں آتی ہیں…؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ اللہ نے تقدیر میں لکھ رکھا ہے ، صحت اور بیماری بھی اللہ ہی کے حکم سے آتی ہے اور یہ تقدیر کا حصہ ہے چناںچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ’’یقین جانو! اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو تمہیں نفع نہیں پہنچا سکتی، سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سارے مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے، سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ۔‘‘ (مسند احمد)

اسی طرح قرآن ِ کریم اور احادیث ِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے اپنے اعمال بھی مصیبتیں اورپریشانیاں آنے کا سبب بنتےہیں ۔ چناںچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے ، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ : 30)

نیز بعض احادیث میں تو نبی اکرم ﷺ نے بہت وضاحت کے ساتھ اُن اعمال کی نشاندہی بھی فرمائی ہے، جن کی وجہ سے خطرناک بیماریاں آتی ہیں، چناںچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب بھی کسی قوم میں کھلم کھلابے حیائی ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔‘‘ (ابن ماجہ)معلوم ہوا کہ معاشرے میں بے حیائی اور گناہوں کے پھیلنے کی وجہ سے نت نئی اور خوفناک بیماریاں پھیلتی ہیں ، جن سے معاشرے کا ہر طبقہ متأثر ہوتا ہے۔

مسلمانوں کے لئے سبق…!

البتہ مسلمانوں کے لیے ہر تکلیف ، بیماری اور مصیبت میں بھی ایک سبق پوشیدہ ہوتا ہے، نیز اس سےبندۂ مومن کے گناہوں کی معافی بھی ہوتی ہے، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جب مومن کو کوئی تکلیف یا بیماری لا حق ہوتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے شفا عطا فرماتا ہے تووہ بیماری یا تکلیف اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور آئندہ کے لئے یاد دہانی ہو جاتی ہے اور منافق جب بیمار ہوتا ہے اور اس کی وہ تکلیف دور ہو جاتی ہے تو وہ اس اونٹ کی طرح ہوتا ہے ،جسے اس کے مالک نے پہلے تو باندھا اور پھر چھوڑ دیا اور اسے یہ پتہ ہی نہیں چلتا اسے باندھا کیوں گیا اور چھوڑ کیوں دیا گیا ہے؟‘‘ (سنن ابوداؤد)

چناںچہ بیماری اور پریشانی میں جزع وفزع کرنے کے بجائے ان اعمال کی طرف متوجہ ہونا چاہئے جن کی تعلیم اللہ اور اس کے رسولﷺ نے دی ہے۔ ذیل میں مختصراً چند اہم ترین اعمال ذکر کیے جارہے ہیں ،اگر ہر فرد ان کا اہتمام کرے تو ان شاءاللہ! حالات میں ضرور بہتری آئی گی۔

٭…رجوع الیٰ اللہ: ۔ ہر قسم کے گناہوں سے سچی توبہ کریں اور اللہ کی طرف رجوع کا اہتمام کریں (خصوصاًکبیرہ گناہوں سے جیسے بدکاری و بے حیائی ، ناپ تول میں کمی، زکوٰۃ کی عدم ادائیگی ، سودی لین دین ، نماز کا چھوڑنا وغیرہ )

٭…مسنون دعاؤں اور اذکار کا اہتمام:۔آیتِ کریمہ کاکثرت کے ساتھ ورد کریں، اس سے پریشانیاں دور ہوتی ہیں:’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَكَ اِنِّی كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ ‘‘(سورۃ الأنبياء: 87)نیز صبح و شام حفاظت کی مسنون دعائیں پڑھنے کا معمول بنائیں۔ہم نےبیماریوں سے حفاظت کےلیے چند مستنددعائیں جمع کی ہیں جو اس مضمون کے آخرمیں درج ہیں، ان کا مستقل معمول بنائیں)

٭…صدقہ کی عادت بنائیں:۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے۔(ترمذی ) اس لیے اپنی استطاعت کے مطابق صدقہ و خیرات ادا کرنا جان و مال کی حفاظت کا سبب ہوتا ہے۔

٭…صبرکو شیوہ بنائیں:۔بندۂ مومن اگرخدانخواستہ کوئی ایسی وبائی بیماری میں مبتلا ہوجائے تو گلے شکوے کرنے کے بجائے صبر کرے ،کیونکہ تکلیف پر صبر کرنے میں بڑا اجر ہے،ایک حدیث شریف میں ارشاد ہے:’’جو بندہ کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے اس کا ظہار نہ کرے اور نہ لوگوں سے شکوہ شکایت کرے تو اللہ کے ذمہ یہ وعدہ ہے کہ وہ اسے بخش دےگا۔‘‘ (معجم اوسط طبرانی)

٭…ظاہری اسباب کو بھی اختیار کیجئے:۔مندرجہ بالا اعمال کو اختیارکرنے کے ساتھ ساتھ ظاہری اسباب کو اختیار کرنا بھی سنتِ نبوی ﷺ ہے۔ اس لئے: علاج معالجے کے لیے دستیاب مستند وسائل اور احتیاطی تدابیر کو اختیار کیجیے ۔ظاہر ی و باطنی صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا خاص خیال رکھیے۔باوضو رہنے کا معمول بنائیے، اس سے اعضاء کی صفائی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی نیکیاں بھی حاصل ہوتی ہیں ۔جس مجمع یا جس مقام پر بیماری لگنے کے خطرات واضح طور پر موجود ہوں ، وہاں بلاضرورت جانے سے گریز کریں۔اگر آپ ایسے علاقے میں پہلے سے موجود ہوں جہاں وبائی بیماری پھیل چکی ہے تو وہاں سے باہر نہ نکلیں ، بلکہ صبر اور مضبوط ایمان کے ساتھ وہاں ٹھہرے رہیں۔

٭…وبائی مرض میں فوت ہونے والا شہید ہے :۔حدیث شریف کے مطابق طاعون اللہ کا عذاب ہے،لیکن اللہ نے ایمان والوں کے لیے اسے رحمت بنادیا ہے۔ چناںچہ جو کوئی مسلمان وبائی بیماری کا شکارہو کر فوت ہوجائے،اس کے لیے آخرت میں شہید والا اجر ہے۔حدیث میں آتا ہے : ’’جو شخص طاعون میں مبتلا ہو اوروہ اپنے شہر میں صبر کرتے ہوئے اور ثواب کی امید کے ساتھ ٹھہرا رہے، یہ جانتے ہوئے کہ اسے صرف وہی چیز پہنچ سکتی ہے، جو اللہ نے اس کے لیے (تقدیر میں) لکھ دی ہےتو ایسے شخص کےلیے شہید جیسا اجر ہے۔‘‘ (مسنداحمد)اس میں وہ شخص بھی داخل ہے جو طاعون کے زمانے میں کسی اور سبب سے مرجائے،بشرطیکہ جس علاقے میں ہو، وہیں ثواب کی نیت اور صبر کے ساتھ ٹھہرا رہے اور راہِ فرار اختیار نہ کرے۔ ( احکامِ میّت)

لہٰذامسلمانوں کےلیے’’ کورونا وائرس‘‘ یا کسی بھی دوسری بیماری میں گھبرانے اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے ۔ احتیاطی تدابیر ، علاج معالجہ ، مسنون دعاؤں اور اعمال کا اہتمام ، اللہ پاک کی طرف رجوع اور ثواب کی امید کے ساتھ اپنے معمولات کو جاری رکھیں اور بلاتصدیق و تحقیق بے بنیاد چیزوں یا افواہوں کو پھیلانے سے گریز کریں۔

حفاظت کی مسنون دعائیں…!

حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص تین مرتبہ صبح کے وقت درج ذیل کلمات کہے تو شام تک اور شام کو کہے تو صبح تک کوئی چیز اسے نقصان نہیں پہنچاتی (ترمذی ) اور ایک روایت میں ہے کہ اس پر کوئی ناگہانی آفت نہیں آتی ۔ (سنن ابوداؤد )

’’بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهٖ شَیْءٌ فِی الاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِوَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ ‘‘ (۳ مرتبہ)اس اللہ کے نام سے (دن شروع کرتا ہوں )جس کے نام کے ساتھ آسمان و زمین کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

موذی امراض سے حفاظت کی مسنون دعا

’’اَللّٰهُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ اَللّٰهُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ اَللّٰهُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ‘‘(۳ مرتبہ)اے اللہ ! میرے جسم میں صحت و عافیت عطافرما، اے اللہ! میری قوتِ سماعت میں عافیت عطا فرما! اے اللہ! میری قوتِ بینائی میں عافیت عطا فرما!آپ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔(مسند احمد)

مختلف بیماریوں سے حفاظت کی جامع دُعا

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَالْجُذَامِ وَمِنْ سَیِّیِئِ الْاَسْقَامِ۔(ترجمہ)اے اللہ، میں تجھ سے برص، جنون،جذام اور تمام بری بیماریوں سے پناہ مانگتا ہوں۔(سنن ابو داؤد)

کسی بیمار کے ساتھ کھاتے وقت

اگر کسی بیمار کے ساتھ کھانا کھانے کا اتفاق ہو تو یہ دُعا پڑھ لیں:’’بِسْمِ اللّٰهِ ثِقَةً بِاللّٰهِ وَتَوَكُّلًا عَلَيْهِ‘‘(ترجمہ)اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں،اس پر بھروسا اور اعتماد کرتے ہوئے۔(ترمذی)

بیمار کو دیکھ کر یہ دعا پڑھیں…!

بیمار لوگوں کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کریں اور یہ مسنون دُعا پڑھیں:’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاكَ بِهٖ وَ فَضَّلَنِیْ عَلٰى كَثِيْرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيْلًا‘‘ (ترجمہ) تمام تعریفیں اللہ کی ہیں ، جس نے مجھے اس تکلیف سے عافیت عطافرمائی جس میں تم مبتلا ہو اور مجھے اپنی بہت سی مخلوق کے مقابلے میں بہتر بنایا۔ (ترمذی)

مختلف وبائی امراض اور ناگہانی مصائب و آلام سے محفوظ رہنے اور آفات سماوی و ارضی سے حفاظت کے لیے یہ وہ تعلیمات اور ہدایات ہیں،جو ہمیں ہمارے دین اور پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے ہمیں دی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے پروردگار کی جانب رجوع کریں،توبہ و استغفار کو اپنا معمول بنالیں،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی کے مرتکب نہ ہوں،اللہ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کی رضا اور اطاعت کو اپنا شعار بنالیں،اسی میں دین و دنیا کی کامیابی اور آخرت میں نجات کا راز پوشیدہ ہے۔