موسیقار ’سلیم اقبال‘

March 24, 2020

پاکستان کی فلمی صنعت کے آغاز ہی ست فنِ موسیقی کے درخشاں دور کا آغاز ہوگیاتھا۔ وہ زمانہ ایک ایسا نولکھا ہار تھا،جس کا ہر فن کار ایک انمول ہیرا بن کر جگمگ کرتا نظر آیا۔ معروف موسیقار سلیم اقبال دراصل دو سگے بھائیوں کی جوڑی بن کر فن موسیقی میں مقبول ہوئی۔ پاکستان کی فلمی موسیقی میں جن موسیقار جوڑیوں نے شہرت پائی۔ ان میں اس جوڑی کا نام سرفہرست ہے۔ اقبال حسین بڑے بھائی 1931ء اور سلیم حسین چھوٹے بھائی 1933ء علم و فن کے مرکز لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان اندرون شہر میں آباد تھا۔ والد علم دین کی تربیت میں دونوں بھائیوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بڑے بھائی سلیم حسین نے کلاسیکل موسیقی کے اسرار و رموز کے لیے دہلی کے مشہور استاد خان صاحب سردار خاں کی شاگردی میں اس مشکل دریا کو عبور کیا۔

سلیم حسین کے بارے میں کہا جاتا ہے پاکستانی فلمی گیتوں میں کلاسیکی موسیقی پہلی بار انہوں نے شامل کی۔ موسیقار فیروز نظامی کے ساتھ دونوں بھائی بہ طور معاون موسیقار کے طور پر فلم ’’دوپٹہ‘‘ اور ’’چن وے‘‘ میں شامل تھے۔ 1958ء میں پنجابی فلم شیخ چلی میں ان دونوں بھائیوں کی جوڑی سلیم اقبال کے نام سے بہ طور موسیقار شروع ہوئی۔ اس فلم کے مقبول گیتوں میں ’’سیونی میرا دل دھڑکے‘‘ اور ’’لال پراندہ‘‘ نے اہل پنجاب کے دل جیت لیے تھے۔

معروف شاعر، مصنف فلم ساز سیف الدین سیف نے 1959ء میں کلاسیک پنجابی کلچرل فلم ’’کرتار سنگھ ‘‘ میں سلیم اقبال کو بہ طور موسیقار سائن کیا۔ اس فلم کے تمام نغمات نے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ مرتب کیے۔ خاص طور پر فلم کا یہ گانا ’’دیساں دا راجا میرے بابل دا پیارا‘‘ وہ پہلا کلچرل پنجابی گیت ثابت ہوا، جسے تمام پاکستانیوں نے شادی بیاہ کے موقع پر گانا اور بجانا ضروری سمجھ لیا۔ اپنی ریلیز بعد سے یہ گانا شادی والے گھروں میں ضرور سنائی دیتا ہے۔ اس شہرہ آفاق گیت کو وارث لدھیانوی نے لکھا اور زبیدہ خانم اور نسیم بیگ نے اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ گانا بڑے بھائی سلیم نے اپنے چھوٹے بھائی اقبال کی شادی میں ڈھولک پر کمپوز کیا، جسے ان کی خواتین نے گانا شروع کیا۔ اس شادی میں سیف الدین سیف بھی شریک تھے۔ انہیں یہ دُھن پسند آئی اور انہوں نے اس گیت کو فلم ’’کرتار سنگھ ‘‘کے لیے منتخب کرلیا۔

سلیم اقبال کی اصل شہرت کا آغاز فلم کرتار سنگھ سے ہوا۔ 1962ء میں انہوں نے فلم ’’جادوگر‘‘ کے لیے گلو کارہ نسیم بیگم کی آواز میں یہ سدا بہار غزل ریکارڈ کروائی ’’رنگ محفل ہے اور تنہائی‘‘ اس غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس صرف دو سازوں میں ترتیب دیا گیا۔ بغیر آرکسٹرا کے انہوں نے اس دل کش غزل کی کمپوزیشن بنائی۔ اسی سال سیف الدین سیف کی اردو فلم ’’دروازہ‘‘ میں انہوں نے استاد امانت علی خان اور نور جہاں کی آوازوں کو یکجا کرکے ایک نہایت اعلیٰ کلاسیک نغمہ ’’پیا نہیں آئے‘‘ تخلیق کیا۔ 1963ء میں ہدایت کار ایس سلمان کی فلم ’’باجی‘‘ کی موسیقی میں ان کے سروں کا جمال، دل میں بس جانے والی دُھنوں نے ہر طرف ایک ایسی خوشبو بکھیر دی، جس کی مہک آج بھی اس فلم کے گانوں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ ’’لگن لاگی توری‘‘ میں نور جہاں اور فریدہ خانم کو پہلی بار ایک ساتھ گوایا گیا۔ اسی فلم میں انہوں نے استاد نزاکت علی خان اور سلامت علی خان سے کیا خوب کلاسیک گیت ’’پیا پوچھے نہ موری بات‘‘ گوا کر ایک نیا تجربہ کیا۔ اسی فلم میں نسیم بیگم کا گایا ہوا یہ نغمہ کا ’’چندا توری چاندنی میں‘‘ اور نورجہاں کی آواز میں سوز و الم میں ڈوبا یہ گیت ’’اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا‘‘ آج بھی اپنے اندر ایک تاثر اور گداز لیے سماعتوں کو متاثر کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

باجی کے لازوال گیتوں کی تخلیق کے بعد انہوں نے فلم اک پردیسی اک مٹیار،پھنے خان اور مہندی والے ہتھ کے لیے موسیقی دی۔ خاص طور پر پھنے خان میں نور جہاں کا گایا ہوا، یہ المیہ نغمہ ’’جیو ڈھولا‘‘ کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ 1966ء میں پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں بنائی گئی فلم سازو ہدایت کار سیف الدین سیف کی جرأت مندانہ فلم ’’مادرِ وطن‘‘ کے لیے موسیقار سلیم اقبال نے ایک ایسا ترانہ کمپوز کیا، جسے سُن کر آج بھی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ ملی نغمہ نسیم بیگم اور ساتھیوں نے ریکارڈ کروایا ’’اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو‘‘ اس نغمے کو قومی سطح پر بڑی اہمیت حاصل رہی۔ مشیر کاظمی اس کے شاعر تھے اور آج بھی 65ء کی جنگ کے شہداء کو خراجِ تحسین اسی نغمے کے ذریعے خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ نئے سنگرز نے بھی اس ملی نغمے کو اپنی آوازوں میں ریکارڈ کروایا، مگر جو بات نسیم بیگم کی آواز میں اس نغمے میں پائی جاتی ہے۔ اُس تک شاید ہی کوئی دوسری آواز پہنچ پائے۔

موسیقار سلیم اقبال کی دیگر چند فلموں میں رسوائی، لٹ دا مال، میرا ویر، یتیم، یار دوست، پاکیزہ، مراد بلوچ، میرا گھر میری جنت، پیا ملن کی آس، بھائیاں باہجھ نہ جوڑیاں، دکھ سجناں دے شامل ہیں۔فلمی نغمات کے علاوہ انہوں نے ملی نغمات بھی تخلیق کیے۔ یہ خاص اور مخلص موسیقار تھے۔

انہوں نے کبھی چربہ دُھنیں نہیں بنائیں۔ بڑے بھائی اقبال حسین کا انتقال 1984ء میں ہوا۔ سلیم اس صدمے سے کافی دل برداشتہ ہوئے، جس کا اثر ان کی بینائی پر پڑا۔ فلمی دنیا سے دور ہو کر سلیم حسین ریڈیو اور ٹی وی پر کلاسیکل موسیقی پر مامور ہوگئے۔ 2اپریل 1996ءکو سلیم حسین بھی وفات پا گئے۔ سلیم اور اقبال کا نام اور کام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا۔