نوبیل پرائز پانے کا آسان طریقہ

March 26, 2020

اٹلی میں دنیا کے ماہر ترین ڈاکٹر نیکولا سگاربی نے آئی سی یو کے باہر اپنی کھینچی ہوئی ایک ایسی تصویر (سیلفی) سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہے جس میں ان کی آنکھوں اور چہرے کے گرد مسلسل فیس ماسک پہننے کے زخم نمایاں ہیں اور وہ ساتھ لکھتے ہیں ’’میں نے یہ تصویر اپنی ایک سالہ بیٹی کے لیے پوسٹ کی ہے کہ جب وہ بڑی ہوگی تو میں اسے بتائوں گا کہ ہم نے کیسے مشکل ترین حالات میں موت کا سامنا کیا‘‘۔

اس تصویر اور ڈاکٹر نیکولا کے جذبے کو دنیا بھر میں بہت سراہا گیا اور یہ رجحان فروغ پایا کہ ہیلتھ کیئر ورکرز کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں کورونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن ہیرو کے طور پر خراجِ تحسین پیش کیا جائے، آج یہ جذبہ پوری دنیا میں ایک تحریک کی شکل میں فروغ پا رہا ہے۔

کورونا وائرس موت کا پروانہ بن کر کیا آیا کہ ساری دنیا کی کایا ہی پلٹ گئی۔ ہرطرف خوف، موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ دنیا کا ہر بشر ﷲ سے پناہ مانگ رہا ہے۔ عالمی معیشتوں کی جو تباہی ہو رہی ہے یہ خدائی اشارے ہیں کہ اب بھی باز آجائو! ﷲ کی پناہ میں آنے سے پہلے اپنے اعمال سدھار لو۔

حال کی تباہی مستقبل کی بدحالی کی تصویر دکھا رہی ہے اور ایک ہم ہیں کہ اب بھی سدھرنے کو تیار نہیں، ہمیں اپنے اعمال کی فکر ہے نہ اپنی جان کی۔ آسمانی وبا کو ماضی کی تباہ حال قوموں کی طرح مذاق ہی سمجھ رہے ہیں۔ خدا کے بندو! ﷲ سے ڈرو، اس کی پناہ میں آ جائو۔ یہ آسمانی وبا ساری دنیا کا نقشہ بدلنے جا رہی ہے اور اس وبا سے بچ نکلنے والی قومیں ہی دنیا پر راج کریں گی۔

چین کے صوبے ووہان سے شروع ہوئی یہ وبا آج دنیا کے 197ممالک کو بُری طرح متاثر اور اٹلی، امریکہ، برطانیہ، اسپین، فرانس اور پورے یورپ کو بری طرح شکنجے میں لے چکی ہے۔ کالی موت یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کون سا ملک کتنا ترقی یافتہ اور کون سا انسان کتنا مالدار ہے، ہرطرف اپنے پنجے گاڑتی جا رہی ہے۔

اس کے سامنے اب یہ بحث ختم ہو جانی چاہئے کہ اورنج لائن ٹرین، میٹرو بسیں، سڑکیں، پل زیادہ ضروری تھے یا اسپتال۔ یہ بھی وقت گزر گیا کہ کپتان خان دو سال میں آسمان سے کون سے تارے توڑ لایا یا معیشت کا بیڑا غرق پچھلوں نے کیا یا صاحبِ اقتدار لوگوں نے۔آج آسمان والا احتساب بھی کر رہا ہے اور انصاف بھی۔

اس پل صراط سے وہی بچ کر گزرے گا جس کے اعمال اچھے، ایمان سچا اور عزم پختہ ہوگا۔ کپتان خان اپنی انا کے خول سے باہر کیوں نہیں نکلتے اور ساری سیاسی قیادت اور قوم کی سوچ کے ساتھ اپنی سوچ کو ہم آہنگ نہیں کر پاتے اور ’’لاک ڈائون نہیں کروں گا‘‘ کی گردان گردانتے وسیم اکرم پلس نے پنجاب میں لاک ڈائون کا اعلان کیوں کر دیا اور خیبر پختونخوا میں شٹ ڈائون کیوں کیا؟

آخر یہ انائوں کی جنگ کب تک جاری رہے گی؟ اگر یہ کالی موت میرے دروازے پر کھڑی ہے تو آپ کا بند دروازہ بھی محفوظ نہیں، ﷲ کے نام پر اپنے دلوں کے بند دروازے کھول دو، اس کالی موت کے خلاف ایک ہو جائو، اس پاکستان اور قوم کے نام پر توبہ تائب ہو جائو۔

یہ ستر برسوں میں سب سے زیادہ نازک وقت ہے، اس کو کھیل تماشوں، جگت بازی میں نہ ٹالیں بلکہ اسے سنبھالیں۔ یہ وقت گزر گیا اور ہماری سیاسی قیادت نے مؤثر اجتماعی فیصلے نہ کیے تو ایک ایسا آسمانی انقلاب سر پر کھڑا ہے کہ بڑی بڑی جاگیریں، محلات، بنی گالے زمین بوس ہو جائیں گے۔

خدا کے واسطے اس پاکستان کی خاطر ﷲ کے نام پر ایک ہو جائو، اپنی بند تجوریوں کے تالے غریبوں کی مدد کے لیے کھول دو، ﷲ تمہاری مشکلات آسان کر دے گا۔ آج یہ امتحان پاکستان کے غریبوں سے زیادہ ان کا خون نچوڑ نچوڑ کر بڑی بڑی سلطنتیں قائم کرنے والوں کا ہے۔ ان سلطنتوں، جاگیروں اور خزانوں کا کچھ حصہ غریبوں پر نچھاور کر دیجئے اور انہیں احساس دلائیے کہ وہ بھوکے نہیں مریں گے، ان کی ملازمتیں محفوظ رہیں گی اور یہ حوصلہ دیجئے کہ وہ اپنے آپ کو لاوارث نہ سمجھیں، امن و سکون سے اپنے گھروں میں اس وقت تک مقیم رہیں جب تک یہ کالی موت ٹل نہیں جاتی اور ہمارا رب ہم سے راضی نہیں ہو جاتا۔

آئیے! آج ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر تعاون کے جذبے کو فروغ دیں۔ آس پڑوس کا بےلوث سہارا بنیں، کسی ضرورت مند کی مدد کرنے میں ذرہ برابر بھی غفلت نہ کیجئے۔

مجھے اپنے رب پر پورا یقین ہے کہ وہ ہماری کوتاہیوں، غفلتوں، منافقتوں کو درگزر کردے گا، ہمیں معاف کر دے گا اور ہم اس امتحان سے نکل کر دنیا بھر میں ایک عظیم قوم بن کر ابھریں گے اور دنیا ہماری مثال دے گی کہ یہ ہے نیا پاکستان، یہ ہے زندہ قوم۔ موت کا کیا ہے، یہ تو کہیں بھی کسی بھی گھر کا کسی بھی وقت دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے، اس سے کیا ڈرنا؟

قومی جذبے اور ایثار کے ساتھ آگے بڑھیے، قومی ہیرو بننے کے اس نادر موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیجئے۔ ﷲ کے ہاں نوبیل پرائز پانے کا یہی آسان طریقہ ہے جو گلگت بلتستان کے سپوت ڈاکٹر اسامہ ریاض شہید نے کورونا وائرس کے مریضوں کی جان بچانے کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اپنایا۔ آپ بھی یہ اعزاز حاصل کر سکتے ہیں۔