…عہدِ نو…

April 29, 2020

رئیس ؔامروہوی

اندھیری راتوں کی خامشی میں مجھے یہ آواز آرہی ہے

اٹھیں گے کب تک نہ سونے والے نئی سحر جگمگا رہی ہے

اُفق پہ چھایا تھا جو اندھیرا وہ رفتہ رفتہ سمٹ رہا ہے

فضا میں پھیلی تھی جو اداسی وہ دمبدم منہ چھپا رہی ہے

جہان کہنہ کو رونے والے! جہان کہنہ میں کیا دھرا ہے؟

وہ دیکھ سلمائے عصرِ تازہ نقاب رخ سے اٹھا رہی ہے

وہ وقت آیا کہ ہم کو قدرت ہماری سعی و عمل کا پھل دے

بتارہی ہے یہ ظلمت شب کہ صبح نزدیک آرہی ہے

فلاکتوں کے نشاں ہیں باقی ابھی تو کچھ امتحاں ہیں باقی

قدم نہ پیچھے ہٹے کہ قدرت ہمیں آزما رہی ہے

تباہیوں سے حزیں نہ ہونا ستم سے اندوہ گیں نہ ہونا

جسے سمجھتے ہیں آزمائش وہی تو بگڑی بنا رہی ہے