روزہ دار کی حاضر جوابی

May 17, 2020

محمد اُسامہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تین اشخاص کہیں جارہے تھے۔ چونکہ رمضان کا مہینہ تھا،اس لئے ان میں ایک کا تو روزہ تھا لیکن باقی دونوں نے کچھ اپنی سستی اور کچھ سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھا تھا۔ چلتے چلتے سورج غروب ہونے کوآیاتورات گذارنے کےلئے یہ تینوں ایک گاؤں کی ایک مسجد میں چلےگئے ۔مسجد کے پڑوسی نے تینوں کو روزہ دارسمجھ کر بہت ساپکوان پکایااورایک برتن میں ڈال کر لے آیا۔اورکہاکہ لو بھائیوں ، روزہ افطارکرو۔ پکوان دیکھ کر ایک شخص نے دوسرے سے مشورہ کیا کہ ہمارا یہ ساتھی روزہ سے ہے،اگر پکوان افطار کے وقت کھالیا تو کہیں یہ اکیلا ہی سارا ہی نہ چٹ کرجائے۔

کوئی ایسی ترکیب کرو کہ پکوان اس وقت تو محفوظ رکھ دیں اور صبح اٹھ کر کھالیں۔ اس ساتھی کا صبح روزہ ہوگا اورہم دونو ں مزہ سے کھالیں گے، چنانچہ دونوں نے اس کو بلایا اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پکوان اس وقت سنبھال کررکھ دیتے ہیں اور صبح کو اٹھ کر تینوں اپنااپناخواب سنائیں گے،رات کو جس نے سب سے اچھا خواب دیکھا ہوگا ،سارے پکوان کا وہی مالک ہوگا۔مقصد ان دونوں کا یہ تھا روزدار کو خوابوں میں الجھا دو۔صبح تو اس کو روزہ ہوگا ہی ،پکوان بہرحال ہمارے کام ہی آئے گا۔اس فیصلہ کے بعد پکوان کو سنبھال کر ایک کونہ میں رکھ دیاگیا۔

اور تینوں سو گئے ،سحری کا وقت ہوا توروزہ دار حسب معمول اٹھااور سحری کرکے سوگیا ۔ صبح وہ دونوں شخص جاگےتو پکوان کی فکر میں ایک جگہ بیٹھ کر روزہ دار کے سامنے اپنا اپنا جھوٹا خواب بیان کرنے لگےجو انہوں نے پکوان کے لالچ میں گھڑ لئے تھے ۔ ایک بولا ،’’کیا پوچھتے ہوبھائی ،رات کو میں کوہ طور پرچلاگیااورکوہ طور کی خوب سیر کی۔ اس سے بہتر خواب بھلا اور کیاہوگا،لہذا سارا پکوان میں کھاؤں گا۔دوسرا بولا،’’سنو میاں رات کو آسمان پرچلاگیا،کوہ طور تو زمین پر ہے میں تو آسمان سے ہوکر آیاہوں۔لہذاسارا پکوان میں کھاؤں گا۔‘‘

اب انہوں نے روزہ دار سے پوچھا کہ تم بھی اپنا خواب سناؤ۔وہ خاموش رہا ۔ انہوں نے اصرا ر کیاتو وہ کہنے لگا کہ بس کچھ نہ پوچھو ایک عجیب سا خواب دیکھا تھا اور یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔ انہوں نے پھر اصرارکیا تو کہا ،کہ’’ میں سویاہواتھا تو سحری کے وقت میرے پا س دو نہایت نورانی شکل کے فرشتہ تشریف لائے اور فرمانے لگے۔ ’’ اے افضل الانبیا ء نبی کے امتی! اٹھ کر سحری کھا،پکوان موجود ہے یہی کھالو۔‘‘ چنانچہ میں اٹھا اور ان فرشتوں کے حکم کی تعمیل میں مجھے پکوان کھانا پڑا، اور میں نے وہ سارا ہی پکوان کھالیا۔دونوں شخص یہ سن کر فورا پکوان کی کی طرف دوڑے لیکن وہاں تو خالی برتن ان کا منہ چڑارہاتھے،وہ واپس آکر اس سے شکوہ کرنے لگے کہ یار ہمیں تو بلالیتے۔روزہ دارنے کہاکہ میں نے تو بہت آوازیں دی تھیں ،پرآپ میں سے ایک کوہ طور پر تھا ،ایک آسمان پر۔ کوئی سنتا ہی نہ تھا۔مجبوراسارا مجھے ہی کھانا پڑا۔