بچے کھیل کھیل میں لڑتے ہیں

June 19, 2020

عائزہ ناز

اکثر وبیشتر بچوں میں کھیل کے دوران آپس میں لڑائی ہوجاتی ہیں جو کہ ایک معمولی سی بات ہے ۔کچھ بچے تو زیادہ تر لڑائی والے کھیل کھیلنا پسندکرتے ہیں یا پھر کھیلتے کھیلتے لڑپڑتے ہیں ۔ان میں سے کچھ بچے چلبلے اور شرارتی ہوتے ہیں جو نظر میں آجاتے ہیں اور بعض بہت ہی بھولے بھالے ہوتے ہیں ۔ان میں سے کچھ بچےمائوں کے بے جا لاڈ پیا کا نا جائز فائدہ بھی اُٹھاتے ہیں ۔والدین کے لیے ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کے جھگڑوں میں دخل اندازی نہ کریں ،کیوں کہ بچے آپس میںلڑتے ہیں ،کچھ وقت ایک دوسرے سے خفا رہتے ہیں اورپھر خود ہی دوست بن جاتے ہیں ۔بچوں کے درمیان جھگڑوں کے حوالے سےوالدین مختلف تاثرات اور رائے رکھتے ہیں۔

کھیل کے دوران لڑکے اور لڑکی کی شکایتوں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ۔مثا ل کے طور پر اس نے مجھے مارا ہے ،یہ مجھے کھیلنے نہیں دیتا ،میرا کھلونا چھین لیا ،یہ میر ی نقل اتار رہا ہے ،اس نے میری گڑیا کے بال نوچ لیے وغیرہ وغیرہ ۔اس مسئلے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بہن بھائیوں میں ہونے والی یہ لڑائیاں بچوں کی آئندہ زندگی پر بھی اثرات مرتب کرتی ہیں ۔ بچوں کے ان جھگڑوں میں والدین مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں اگر وہ ان کے جذبات، شخصیت اور انداز کو سمجھ لیں ۔اس کے لیے خاموشی سے بچوں کی حرکات کا جائزہ لیں ،ان کے درمیان جھگڑوں میں ظاہری صورت دیکھ کر فیصلہ نہ کریں۔ مظلوم نظر آنے والا بچہ بھی جھگڑے کا سبب ہوسکتا ہے۔

اس طر ح بچوں کا مشاہدہ والدین کے لیے بے حد مفید نتیجہ رکھتا ہے،وہ ان کی عادات سے آگاہ ہو کر مناسب فیصلہ کرسکتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ بچوں کی اچھی عادتوں کی تعریف کرکے مزید اچھا بنا سکتے ہیں ۔بہت سے والدین اپنی الجھنوں اور پریشانیوں کے باعث سخت رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔وہ سوچے سمجھے بغیر فیصلے کرکے بچوں کے درمیان ذاتی فاصلہ بھی بڑھاتے ہیں۔بچوں کے معاملے میں والدین کو غیر جانبدار بن کر فیصلہ کرنا چاہیے۔یہ بچوں کے حق میں بھی بہتر ہے ۔ ماں اور باپ ہونے کے ناطے خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔بچے نہیں جانتے ہیں کہ والدین کس قدر پریشان ہیں ۔نہ ہی وہ آپ کی پریشانیاں حل کر سکتے ہیں۔ہاں ان سے گھل مل کر والدین ذہنی کوفت اور بیزاری سے نجات پا سکتے ہیں۔

لڑ جھگڑکر بچے اپنی بات ڈھنگ سے نہیں کہہ پاتے ہیں بلکہ جذبات میں کچھ کا کچھ کہہ جاتے ہیں ۔ممکن ہے حقیقت اس سے بہت مختلف ہو۔بچوں کے نزدیک انفرادی حق اور ملکیت کے احساس کی طرح مستقل مزاجی بھی اہم ہوتی ہے ۔ضروری ہے کہ والدین خود بھی اصولوں کو ترجیح دیں۔ ٹی وی دیکھنے کا وقت ویڈیو اور کمپیوٹر گیمز کی باری۔پڑھنے کا وقت ،آرام کا وقت، جو بات بھی طے ہواس پر عمل کیا جائے۔بچوں کے مسائل حل کرنے کے لیے خود انہیں سوچنے اور فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔

پہلے یہ طے کیا جائے کہ مسئلہ کیا ہے؟اس کا حل کیا ہو سکتا عام طور پر بچوں میں ٹی وی پروگرام دیکھنے پر تکرار ہوتی ہے ،مثلاً ایک بچہ کارٹون دیکھنا چاہتا ہے تو دوسرا بچہ کھیل کا کوئی پروگرام یا کوئی فلم۔انہیں آپس میں کسی ایک چینل پر متفق ہونے دیں ۔بچوں کی تعداد دو سے زیادہ ہونے پر جمہوری طریقہ اپنایا جاسکتا ہے۔

اگر ایک پروگرام کسی اور وقت بھی نشر ہوتا ہوتو اسے پسند کرنے والے بچے کے ٹی وی دیکھنے کا وقت بدلا جا سکتاہے ۔وہ اس دوران کمپیوٹر کی باری بھی لے سکتا ہے ۔اس طرح بچوں میں افہام وتفہیم کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے ۔بچوں کی تربیت میں ماں اور باپ دونوں ہی مثالی کردار ادا کرتے ہیں ۔بچوں کے جھگڑوں میں ماں عام طور پر ریفری کا کردار ادا کرتی ہے لیکن باپ کا مثبت رویہ بچوں میں تعاون کے جذبے کو ابھارتا ہے ۔تحقیق کے مطابق ایسے باپ جو اپنے بچوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں وہ اپنے طرز عمل سے بچوں میں باہمی تعاون کا جذبہ پروان چڑھاتے ہیں۔

والدین بچوں میں تعاون اور جدوجہد کے یقین کا احساس دلانے کے لیے ایسے کھیلوں کا انتظام کر سکتے ہیں جو سب مل کر کھیلیں۔باری باری اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کریں اور جو بھی نتیجہ سامنے آئے اسے قبول کریں ۔ایسے کھیل کو ترجیح دی جائے جو مل جل کر کھیلیں جائیں ۔ٹیم بنا کرکھیلے جانے والے گیمز(مثلاً کیرم ،لوڈووغیرہ)کو ترجیح دی جائے۔ بچے گھر کے بڑوں میں اپنا ئیت اور قربت محسوس کرکے خود بھی ان جذبوں پر مائل ہوتے ہیں خوش گوار ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے کا میاب زندگی گزار تےہیں۔