ٹام اینڈ جیری!

August 10, 2020

پاکستانی قوم بھی کمال کی، گلاں دا کھٹیا کھان والی، مطلب باتیں ہی باتیں، عمل صفر، باتیں بھی ایسی کہ چین اسموکر آپ کو تلقین کررہا ہوگا کہ سگریٹ سے بچو، سگریٹ نوشی موت، اول درجے کا جھوٹا آپ کو سچ کے فوائد سے آگاہ کر رہا ہوگا، ماہر فریبی آپ کو صراط مستقیم کی برکتیں گنوا رہا ہوگا، جیسے ایک شخص چرچ کا کلاک چوری کرنے کی غرض سے اسے اکھاڑ رہا تھا کہ اسے عقب میں آہٹ سنائی دی، اس نے مڑ کر دیکھا کہ ایک شخص جوتوں سمیت چرچ میں گھسا چلا آرہا ہے، جس پر وہ اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے بولا ’’میں فارغ نہیں ہوں ورنہ تمہیں چرچ کی بےحرمتی کا مزا چکھاتا‘‘۔

میرا دوست (ن) کبھی کسی کے کام نہیں آیا مگر اس کا تکیہ کلام ہے کہ آسانیاں تقسیم کیجئے ورنہ مشکلیں جمع ہو جائیں گی، کئی بار کہا، قبلہ بہت ہو گیا اب کسی کیلئے ایک آدھ آسانی پیدا بھی کردیں، ہنس کر کہے، آج کہہ رہا ہوں کل کر بھی دوں گا۔شیخو کا کہنا، پاکستانی مرد اندر سے منٹو باہر سے اشفاق احمد ہوتا ہے۔

شیخو کا ہی کہنا، اگر 30سال کی عمر تک آپ کا کوئی جانو نہیں تو سمجھ لیں آپ صرف مردم شماری کیلئے پیدا ہوئے ہیں، ایک دن جب میں نے کہا، ہم پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کیلئے امریکی اسکول ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں جبکہ امریکہ پہنچ کر اپنے بچوں کیلئے اسلامی اسکول کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

ہم کتنے کنفیوژ ہیں، شیخو بولا، یہ کنفیوژن نہیں منافقت ہے، ویسے سچ ہی کہا شیخو نے، ہم نہ صرف منافق بلکہ ایسے چکر باز منافق کہ وہ سردار یاد آجائے جو سامنے جلیبیاں رکھ کر آواز لگا رہا تھا آلو لے لو، آلو لے لو، کسی نے پوچھا، سردار جی، یہ کیا، سامنے جلیبیاں اور آوازیں آلوؤں کی، سردار جی غصے سے بولے، چپ کرو، میں مکھیوں کو دھوکہ دے رہا ہوں، بلاشبہ یہ بھی سچ کہ جیسے کوئی انسان خوبیوں کا مجموعہ نہ خرابیوں کا پتلا، ویسے ہی اگر کچھ چیزیں ہم میں بری تو کچھ اچھی بھی۔

جیسے حالات جتنے بھی خراب ہوں، ہم کوئی نہ کوئی رستہ نکال لیں، جیسے ہم مشکل ترین لمحوں میں مسکرا دینے والے، جیسے بغلول سے بغلول شخص بھی ایسا فقرے باز کہ کچھ نہ پوچھیں، ابھی اس عید پر میرا پڑوسی قصائی اوردوستوں کی مدد سے بیل کو ذبح کرنے کیلئے لٹا چکا تھا کہ پاس سے گزرتے ہوئے میں کہہ بیٹھا، قربانی ہو رہی ہے۔

اس سے پہلے پڑوسی کوئی جواب دیتا، اس کا بیٹا بول پڑا، نہیں انکل، بیل دا کورونا ٹیسٹ کرن لگے آں، ابھی پچھلے مہینے میں آم چوس رہا تھا کہ شیخو آگیا، مجھے دیکھ کر بولا، کچھ لوگ تو ایسے آم چوستے ہیں کہ گھٹلیاں شرما شرما کر کہہ رہی ہوتی ہیں، اب چھوڑ دیجئے نا، بس کیجئے۔

سب دیکھ رہے ہیں، اس عید پر ایک دوست کو گوشت دینے گیا، مجھے دیکھتے ہی بولا، بابا جی فرماتے ہیں، پتر اصل دوست وہ نہیں ہوتا جو چھوٹے شاپر میں بڑا گوشت لائے بلکہ اصل دوست وہ ہے جو بڑے شاپر میں چھوٹا گوشت لائے۔ہمارے ایک دوست سے دوموٹر سائیکل سوار موبائل چھین کر لے گئے، یہ کئی دن ہمیں ہنس ہنس کر بتاتا رہا، سالے موبائل کا کیا کریں گے۔

چارجر تو میرے پاس ہے، اسی طرح ایک دوست نے اپنے گاؤں کے میراثی کا قصہ سنایا، کہنے لگا، ہمارے گاؤں کے میراثی کے گھر ڈاکو آئے، انہوں نے میراثی کو قابوکیا، ہاتھ باندھے، صحن میں ایک دائرہ بناکر اور اسے دائرے میں کھڑا کرکے کہا، اگراس دائرے سے نکلے تو گولی مار دیں گے، ڈاکو سب کچھ لوٹ کر چلتے بنے۔

صبح ہر اظہار ہمدردی کرنے والے کو میراثی فخریہ بتارہا تھا، وڈے ڈاکو بنے ہوئے سن، ایہہ وی پتا نہ لگا کہ میں کئی واری دائرے توں باہر نکلیا (بڑے ڈاکو بنے پھرتے تھے، انہیں یہ بھی پتا ہی نہ چلا کہ میں کئی بار دائرے سے باہر نکلا)۔

ہمارا ایک دوست اسکالر، ہمارے حلقے میں عقل کی باتیں کرنے والا واحد ذی روح، ایک دن کسی نے پوچھا، شور اور شعور میں کیا فرق ہے، بولا، ’ع‘ کا فرق ہے، پوچھا گیا، کیا مطلب، بولا، ’ع‘ سے مرادعلم، عقل، عمل، اگر علم، عقل اور عمل کی بنیاد پر بات کرو گے تو شعور کہلائے گا ورنہ شور، ایک با ر کہنے لگا، انسان باہر کی مشکلات سے نہیں اندر کی کمزوریوں کی وجہ سے ہارتا ہے، کہا، سمجھ نہیں آئی، بولا، راستہ کنکروں سے بھرا ہو مگر اچھا جوتا پہن کر آسانی سے چلا جا سکتا ہے لیکن اگر جوتے میں ایک بھی کنکر ہو تو رستہ جتنا آرام دہ بھی ہو، چلنا مشکل ہو جائے۔

یہی ہمارا عقلمند دوست ایک دن پکا سا منہ بنا کر بولا، ہمارے ہاں 90فیصد خواتین مردوں کو بھائی احتراماً نہیں احتیاطاً کہتی ہیں، ایک دن کہنے لگا’’ عورت خوبصورت ہو اور مرد امیر تو سچی محبت ہونے میں دیر نہیں لگتی‘‘، ایک دفعہ کہا، کچھ لوگ تو نماز کے فوراً بعد یوں موبائل دیکھ رہے ہوتے ہیں، جیسے نما ز قبولیت کا میسج آنا ہو۔

ایک لائلپوری دوست خاندانی روداد سناتے ہوئے بولا، میرے چاچے نے ہوائی فائرنگ کرکے 4بندے ماردتے سن، ہم نے اسے ٹوکا، قبلہ ہوائی فائرنگ سے بندے کیسے مرگئے، بڑے اطمینان سے بولا ’’چاچا کُبا سی‘‘، آخری بات سے پہلے یہ بھی سن لیں، ایک چوہے نے بل سے سرنکالا، باہر بلی تیار بیٹھی تھی، اس نے چوہے کو 100کا نوٹ دکھاتے ہوئے کہا’’ اگر تم اپنے بل سے نکل کر سامنے والے بل میں داخل ہوجاؤ تو یہ 100کا نوٹ تمہارا‘‘، چوہے نے تھوڑی دیر سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ فاصلہ کم ہے اور پیسے زیادہ، ضرور کوئی گڑ بڑ ہے، چنانچہ اس نے معذرت کر لی۔

دوستو، جہا ں یہ بتانا، آپ کے چاروں طرف چکری، مکری وہاں یہ بھی سمجھانا کہ چوکنا رہا کریں، آپ بھلے بلی جتنے دوراندیش نہ ہوں مگر چوہے جتنے عقلمند تو ضرور ہوں، اگر آپ بلی، چوہے دونوں سے ماٹھے تو زندگی کے اس چوہے، بلی کے کھیل میں آپ کی زندگی ٹام اینڈ جیری بن جائے گی، لہٰذا ہوشیاری سے کام سے لیں۔

آپ تو انسان، آج کل کے تو جانور اتنے ہوشیار کہ ایک شخص جنگل میں شکار کھیل رہا تھا، اچانک شیر آگیا، وہ شخص شیر کو دیکھتے ہی سانس روک کر زمین پر لیٹ گیا، شیرآیا، بولا، اُٹھ جانی، شاباش، سانس روک کر مجھ سے بچنے کی کہانی اب پرانی ہو چکی۔