اور اب آیا شمسی جیٹ ایندھن

September 07, 2020

ماحول دشمن گیس کاربن ڈائی آکسائیڈکا فضا میں بڑھنے کی اہم وجہ ہماری سر گرمیاں ہیں ۔جن میں سے ایک ہوائی سفر ہے ۔ایک یا دو انجن والا سفری جہاز ایک گھنٹے میں 6000پائونڈ کیروسین (مٹی کا تیل )جلا تا ہے ۔جو ماحول میں تقریبا ً 19000پائونڈ کا ربن ڈائی آکسائیڈ کے اضافہ کاموجب ہے ۔ہوائی سفر سے ماحول میں نقصان دہ گیسوں کااضا فہ اس قدر واضح ہے کہ سوئیڈن کے لوگوں نے اس کے لیے ایک مخصوص اصطلاح’’فلائی اسکام‘‘ یعنی فلائٹ شیم۔ بھی وضع کرلی ہے۔لیکن اگر ہوائی سفر صفر کاربن پر کیا جا ئے تو کتنا بہتر ہوجائے گا؟

حال ہی میں ایک ایسی شمسی ٹیکنا لوجی وضع کی گئی ہے، جس کے ذریعہ صرف دو اجزاء سے رقیق ایندھن تیار کیا جاسکتا ہے:ایک شمسی توانائی اور دوسری ارد گردکی ہوا!یہ دعویٰ ایک قابل تجدید توانائی کے ماہر نے کیا ہے، جس کا نام آلڈو اسٹائن فیلڈ ہے جو سوئس فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ہے۔یہ ہائیڈرو کاربن ایندھن جلنے سے فضا میں اتنی ہی کار بن ڈائی آکسائیڈ خارج کرے گا جتنی اس کی تیاری کے لیے فضاء سے کشید کی گئی ہے۔ یہ کیمیا بنانے والی بات ہے! لیکن اسٹائن فیلڈ نے موسٹولیس میں میڈرڈ کے قریب ایک شمسی ریفائنری تعمیر کی ہے، جس میںکیمسٹری کا استعمال کیا گیا ہے۔ شیشوں کا ایک مجموعہ جن کی ترتیب کو ہیلیو اسٹیٹ کہا جاتا ہے وہ سورج کی حرکت کی مطابقت میںاس کا پیچھا کرتا ہے اور سورج کی روشنی کی مقدار میں2500گنا اضافہ کرکے اس کو 50 فٹ اونچے مینار پر منعکس کرتا ہے۔

چمچماتی روشنی کی دھار ایک ری ایکٹر کو گرم کرتی ہے، جس کی کور سیریم آکسائیڈسے بھری ہوئی ہے جو ایک کم قیمت کمپائونڈ ہے جو گلاس پر پالش کرنے میں استعمال ہوتا ہے ۔ 2700ڈگری فارن ہائیٹ پر گرم ہونے پر اس سے آکسیجن خارج ہوتی ہے ،جس کوجمع کیا جاتا ہے۔ بعد ازاںفضا ء سے کشید کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کو ری ایکٹر میں داخل کرتے ہیں۔ پھر جب ری ایکٹر ٹھنڈا ہوتا ہے تو سیریم آکسیجن کےمالیکیول جذب کرکے ہائیڈ روجن اور کاربن مونو آکسائیڈکا ایک مکسچر چھوڑ دیتی ہے،جس کو’’سائن گیس‘‘ کہتے ہیں۔ جسے ایک اور ری ایکٹر میں کیروسین مالیکیول میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ جون 2019ءمیں موسٹولیس ری فائنری نے پہلی مرتبہ ایندھن کشید کرنے کا اعلان کیا تھا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ شمسی توانائی کو ایندھن میں بدلنے کی ضرورت کیا ہے؟ جب کہ سڑکوں اور ریل پرچلنے والی گاڑیاں بجلی سے چلائی جاتی ہیں؟ اس لیے کہ موجودہ بیٹری ٹیکنالوجی اتنی توانائی بیٹری میں اسٹور نہیں کرسکتی جو سمندر میں باربرداری اور ہوائی سفرکے لیے درکار ہوتی ہے۔ چناں چہ جیٹ ایندھن کے مقابلے پرکوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے۔ جو اس طرح کی بھاری صنعتوں کو چلانے کے قابل ہو‘! اسٹائن فیلڈنے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا ۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ بیٹریوں کے بل پر ایک بوئنگ یا ایربس کی فلائٹ میںاٹلانٹک کو پار کیا جاسکتا ہے ؟

ماہرین کے مطابق شمسی کیروسین میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ موجودہ اسٹورکرنے اور ٹرانسپورٹ کرنے کی ان عالمی سہولتوں میں آسانی سے سما سکتا ہے جو معدنی تیل کے لیے بنائی گئی ہیں۔ لیکن قیمت میں وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے، کیوں کہ اگر اس کو استعمال کرنے والوں کو فروخت کیا جائے تو اس کی قیمت 9 ڈالر فی گیلن بنے گی۔ لیکن یہ ٹیکنالوجی کی کارکردگی میں بہتری اور بڑی مقدار میں تیاری سے کم ہوجائے گی ۔اسٹائن فیلڈ کاکہنا ہے کہ امریکی ریاست انڈیانہ کے سائز کا ہیلیو اسٹیٹ اور شمسی ری فائنریاں تمام دنیا کی ضروریات کا جیٹ ایندھن فراہم کرسکتی ہیں۔ یہ انقلاب عمل پذیر ہے۔

گذشتہ سال مئی میں نیدر لینڈ کے ایک بڑے ائیر پورٹ نے اعلان کیا تھا کہ یہ دنیا کے پہلے اس پلانٹ کو تیار کرے گا جو ماحول میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو رقیق ایندھن میں تبدیل کرے گا۔ کلائم ورکس نام کی کمپنی جو فیلڈ کی لیباریٹری کی 2009ءکی تحقیق پر کام کرتے ہوئے وہ موڈیول فراہم کرے گا جو ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کوکشید کرے گی ۔اگر ہم سورج کی روشنی اور ہوا کے امتزاج سے کوئی جیٹ ایندھن تیار کرتے ہیں تواس میں کوئی مسئلے کی بات نہیں ہے ،کیوں کہ فضا میں کاربن کی مقدار میں تو کوئی اضافہ ہی نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ تو صفر ہی رہ گا۔