سندھ۔ ہزاروں بےگھر۔ ہمارے منتظر

September 17, 2020

میری 80سالہ بوڑھی آنکھوں کو پھر اپنے ہم وطن ٹوٹے پھوٹے خیموں میں دیکھنے پڑ رہے ہیں۔

یہ مناظر مجھ سے نہیں دیکھے جاتے۔

یہ بےگھر، بےکس، مجھے پھر 1947میں لے جاتے ہیں۔ اب تو 21ویں صدی ہے۔ انسان نے آفاتِ سماوی سے تحفظ کیلئے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ خیمہ بستیاں مجھے تاریخ کے صحرائوں میں لئے پھرتی ہیں۔ بادشاہوں کے خیموں میں اور شہدا کے خیموں میں کتنا فرق ہوتا ہے۔پاکستان میں جب جب دریا بپھرے ہیں تو غریبوں کے گھر بہے ہیں۔ اونچی سڑکوں پر اسی طرح خیمہ بستیاں ابھری ہیں۔ 1951کے سیلاب سے لے کر 2010کے سیلابوں تک میں یہی دیکھتا رہا ہوں۔ پھر جب 1979کی پالیسیوں کے نتیجے میں دہشت گردی انتہا پسندی ہماری پہچان بنی تو پھر سے ہم وطنوں کو اپنے بستے گھر چھوڑنا پڑے۔ اکیسویں صدی کے آغاز کے برسوں میں خیبر پختونخوا کے کئی شہروں میں فاٹا کے علاقوں سے بے دخل کیے جانے والوں کے لیے خیمہ بستیاں بسائی گئیں۔ 2005کے زلزلے کے بعد بھی انسان خیموں میں منتقل ہوئے۔

اب میں اسلام کوٹ سے عمر کوٹ پہنچنے والا ہوں تو سڑک کے دونوں طرف دور دور تک رنگ برنگ خیمے پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ میرے اور آپ کے ہم وطن، مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بھائی، بیٹے کھلے آسمان تلے بہت ہی خستہ ٹینٹوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بارش بھی کھل کر ہوتی ہے۔ دھوپ بھی بہت کڑی، یہاں جو نسلیں آنکھ کھول رہی ہیں۔ وہ اپنے ملک کے بارے میں کیا سوچ رکھتی ہوں گی۔ یہ بھی کسی کے ووٹر ہیں۔ کسی کے سیاسی حامی ہیں۔ انہوں نے جن کو ووٹ دیے، وہ تو کراچی اسلام آباد میں اپنے بڑے بڑے ایئر کنڈیشنڈ بنگلوں میں آرام فرمارہے ہوں گے۔

ہم یہاں تھر میں آئے تھے۔ برسات سے گل و گلزار ہونے والے ریگ زار دیکھنے، عمر کوٹ سے پہلے مٹھی، اسلام کوٹ، ننگر پارکر میں ہریالی نے دل موہ لیا، وہاں بارش رحمت ہی رحمت بنی۔ برسوں کی پیاسی مٹی پانی کو گود لیتی رہی۔ سینے میں چھپاتی رہی۔ اس کے بدلے ہرے بھرے درخت، خوش نما جھاڑیاں، بیلیں جنم دیتی رہی۔ تھر نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ وہ پاکستان کی تقدیر بدلے گا۔ وہاں قدم قدم پر یہ لکھا ملتا ہے ’’تھر بدلے گا پاکستان‘‘۔ یہ سطر بہت ہی حوصلہ افزا ہے۔ بہت امیدیں، تمنّائیں اور امنگیں، اس پر آپ سے بات ہوگی آئندہ۔

عمر کوٹ سے میرپور خاص جاتے ہوئے تو میری آنکھیں بار بار آنسو برساتی رہیں۔ سڑک کے دونوں کناروں پر بہت ہی شکستہ، سالخوردہ ٹینٹ، خال خال ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے عطیہ خیمے نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر ان بارش زدگان نے خود ہی کھڑے کیے ہیں۔ سڑک کے دونوں طرف کپاس کی فصلیں۔ سبزیوں کے کھیت گہرے پانیوں میں ڈوبے ہوئے۔ دور دور تک پانی ہی پانی۔ ان علاقوں میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول پانچ راتیں گزار کر گئے ہیں۔ معلوم نہیں ان کے تصور کی صلاحیت کتنی گہری ہے۔ کیا وہ اندازہ کرسکے ہوں گے کہ یہ ہر چھوٹا سا ٹینٹ، اس میں پناہ لیتے ماں باپ، بچے محرومی اور بےبسی کی کتنی بڑی داستانیں لیے ہوئے ہیں۔ یہ ان ٹینٹوں میں کیسے گزارہ کرتے ہیں۔یہاں چولہے کس طرح گرم ہوتے ہوں گے۔ یہ اپنی حاجات سے فارغ کیسے ہوتے ہوں گے۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔

میں نے یہ سطور لکھنے سے پہلے پی ڈی ایم اے (Provincial Disaster Management Authority) کے میڈیا انچارج سے رابطہ کیا ہے۔ پی ڈی ایم اے بارشوں کے موسم سے پہلے سے متحرک ہے۔ دریا ئے سندھ کے کچے علاقوں کے مکین۔ پھر بارشوں کی تباہ کاری سے بے گھر ہونے والے انکی خصوصی توجہ کے حق دار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے سندھ کے متاثرہ اضلاع میں 142200مچھر دانیاں، 65475ٹینٹ، 97316راشن بیگ، 4680جیری کین، 267ڈی واٹر پمپنگ، 24امدادی کشتیاں، 3780ترپال، 2579 حفظانِ صحت کا سامان، 5300کمبل، 2350واٹر کولر پہنچائے ہیں۔ عارضی واش روم بھی بناکر دیے ہیں۔ کچن سیٹ اور واٹر ٹینک بھی۔ اعداد و شُمار بہت اچھے ہیں اگر چہ بارش زدگان کی تعداد کے مقابلے میں بہت کم ہیں اور ہمیں یہ کہیں نظر بھی نہیں آرہے تھے۔ یہ تاثر بھی ہے کہ سڑک کنارے بیٹھے یہ لوگ اصلی بارش زدہ نہیں ہیں۔ یہ مقامی انتظامیہ کے افسر امداد لینے کے لیے ایسی بستیاں آباد کروادیتے ہیں۔ رات میں یہ لوگ اپنے گھروں میں چلے جاتے ہیں۔ میرپور خاص میں تو بعض محلوں اور گلیوں میں بھی یہ خیمے لگ گئے ہیں۔

یہاں کہیں مجھے ایدھی رضا کار دکھائی دئے نہ چھیپا کے۔ نہ سیلانی کے لنگر۔ میں تو بہت دُکھی ہوں کہ اتنی بڑی تعداد میں میرے ہم وطن انتہائی کٹھن زندگی گزار رہے ہیں۔ کھیتوں میں کھڑا پانی عام طور پر کہا جارہا ہے سوکھنے میں دو ماہ لگا دے گا۔ کاشتکاروں اور زمینداروں کی فصلیں ڈوب گئی ہیں۔ صرف گنا ان طوفانی بارشوں کا مقابلہ کر سکا ہے۔ ان اضلاع کی معیشت ایک برس تک بحال نہیں ہوسکے گی۔ سیم نالے بنائے گئے تھے لیکن وہ بھی پانی کے ریلے سنبھال نہیں سکے اور با اثر زمینداروں نے اپنی زمینیں بچانے کے لئے ان کا رستہ بھی بند کیا ہے۔ کہیں رُخ موڑ دیا ہے۔ کراچی کے مخیر حضرات اور اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے ان بھائی بہنوں کی مدد کے لیے پہنچیں۔ جس طرح زلزلے میں نوجوان کراچی سے ٹرک لے کر گئے تھے۔ اسی طرح اب بھی کراچی کے باہمت نوجوان بدین، سانگھڑ، میرپور خاص، عمر کوٹ اور تھرپارکر جائیں۔ ان بےگھروں کو اکیلے ہونے کا احساس نہ ہونے دیں۔

سندھ کی تمام یونیورسٹیوں کے لئے یہ موقع ہے کہ وہ تحقیق کریں کہ بارش اور سیلاب کی تباہ کاری سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ ان شہروں اور قصبوں میں بارش کا میٹھا پانی جمع کرنے کے لیے اور گندے پانی کے نکاس کیلئے کیا راستے اختیار کیے جائیں۔ 73سال میںیہ انتظامات کیوں نہ ہوسکے۔