سی سی پی او لاہور سے اظہار ہمدردی

September 18, 2020

فرانس سے آئی ہوئی ہماری اوورسیز پاکستانی خاتون کے ساتھ لاہور موٹروے پر ہونے والی زیادتی انتہائی افسوس ناک اور تکلیف دہ سانحہ ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔اس واقعے کے ملزمان کو صرف دردناک سزا دینا کافی نہیں بلکہ ان کو عبرت ناک سزا دینا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ معاشرے میں پھیلنے والی لاقانونیت کو روکا جاسکے ۔

پوری قوم اورپوری اوورسیز پاکستانی کمیونٹی کی ہمدردیاں مظلوم خاتون کے ساتھ ہیں لیکن مجھے معاشرے میں موجود منافقت پر بھی انتہائی افسوس ہوتا ہے خاص طورپر جب سی سی پی او لاہور عمرشیخ کے ایک بیان کو میڈیا نے اس طاقت سے پھیلایا کہ معاشرے کی ایک بہت بڑی آواز جو عمر شیخ کی حمایت میں موجود تھی وہ بھی دب کر رہ گئی ۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ موٹروے واقعے کے فوری بعد سی سی پی او لاہور نے جہاں مجرموں کی گرفتاری کے لیے اقدامات شرو ع کیے وہیں ایک نصیحت قوم کی بیٹیوں کی عزت اور وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے کی۔ آئیے چند لمحوں کے لیے سی سی پی او کی اس نصیحت کو اپنے آپ پر رکھ کر اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔

سی سی پی او نے اپنے بیان کے پہلے حصے میں کہا کہ مذکورہ خاتون کو ساڑھے بارہ بجے اکیلے گھر سے نکلتے ہوئے احتیاط برتنی چاہیے تھی ، اگر وہ اکیلی تھیں تو دن کی روشنی میں نکلنا چاہیے تھا یا پھر اپنے ساتھ کسی اہل خانہ کو بھی لے لینا چاہیے تھا ۔

سی سی پی او کی نصیحت کے اس حصے میں ایسی کیا غلط بات تھی جو پورا میڈیا ان کے خلاف ہوگیا ؟ کیا ہم اپنی بہنوں، اپنی اہلیہ ، اپنی بیٹیوں کو یا اپنی والدہ کو رات ساڑھے بارہ بجے لاہور سے گجرانوالہ کے لیے جانے کی اجازت دے سکتے ہیں ؟بالکل نہیں حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو نماز مغرب کے بعد سے ہی گھر میں رہنے کے لیے کہا جاتا ہے ، یااگر کسی مجبوری سے باہر جانا بھی ہو تو بھائی ، یا والد خود ساتھ جاتے ہیں ، کوئی شادی شدہ خاتون بھی رات گئے پرچون کا سامان لینے جانے سے گریز کرتی ہے ، بلکہ اسکول ، کالج اور یونیورسٹی جانے کے لیے بھی لڑکیوں کو احتیاط برتنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔

خواتین تو دور کی بات نوجوان لڑکوں اور مرد حضرات کو بھی رات کو ایسی جگہوں پر جانے سے منع کیا جاتا ہے جہاںسناٹا زیادہ ہو یا جس علاقے میں حالات خراب ہوں یا وہ علاقہ رہزنی اور چوری ڈکیتی کے حوالے سے معروف ہو ۔یقین مانیے ہمارے معاشرے کی اکثریت اور سی سی پی او پر تنقید کرنے والے افراد کی اکثریت اپنی ماں ،بہن ،بیٹیوں کو کبھی رات ساڑھے بارہ بجے ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں جانے دے گی لیکن یہ ہماری منافقت ہی ہے کہ دل میں کچھ اور زبان پر کچھ آتا ہے اور جو کہا جائے وہ بھی بلامقصد نہیں ہوتا ہے ۔

سی سی پی او کے بیان کے اگلے حصے میں انھوں نے کہا کہ اگر مذکورہ خاتون گھر سے کسی بہت بڑی مجبوری میں نکل ہی گئی تھیں تو انھیں چاہیے تھا کہ وہ موٹر وے پر چڑھنے سے پہلے گاڑی کا پیٹرول چیک کرلیتیں یا جی ٹی روڈ کے ذریعے زیادہ پرر ونق علاقے سےگجرانوالہ جانے کا راستہ اختیار کرتیں ۔

سی سی پی او کے بیان کے دوسرے حصے سے معاشرے کی بہت بڑی تعداد پوری طرح متفق ہے کہ ایک طویل سفر سے پہلے جب ایک خاتون اکیلی سفر کرنے جارہی ہوں ، ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے تین بچے ہوں ،انھیں چاہیے کہ ایک پررونق راستہ اختیار کریں ساتھ ہی وہ گاڑی کا پیٹرول چیک کرلیں تاکہ رات کے اندھیرے میں انھیں کسی جگہ رکنے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔یہ وہ نصیحت ہے جو ایک باپ اپنی بیٹی کو کرسکتا ہے ، ایک بھائی اپنی بہن کو اور ایک شوہر اپنی بیوی کو کرسکتا ہے، اس میں کیا برائی ہے ۔

برائی صرف یہ تھی کہ سی سی پی اوعمر شیخ سے سیاست اور میڈیا کے بہت سے لوگوں کو ذاتی بغض تھا اس لیے اس بیان کوضرورت سے زیادہ اچھالا گیا اور ان کو عہدے سے ہٹانے کے بھرپور جتن کیے گئے ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں رہنے والا ہر چوتھا فرد موبائل اسنیچنگ کا شکار ہوچکا ہے درجنوں شہری ڈاکوئوں کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں اور سب کو ایک ہی بات ان کے اہل خانہ اور پولیس کی جانب سے سننے کو ملتی ہے کہ کبھی موبائل فون کے لیے ڈاکوئوں سے مزاحمت نہیں کرنا اور ایسے علاقوں میں جانے سے گریز کرو جہاں سناٹا ہو یا وہ علاقہ رہزنی کے حوالے سے بدنام ہو ۔

یہی بات سی سی پی او عمر شیخ کے منہ سےنکلی تھی کہ ملک میں طوفان آگیا اور جتنی بحث عمر شیخ کے بیان پر ہوئی اتنی تو پارلیمنٹ میں ایف اے ٹی ایف قانون کی منظوری کے وقت بھی نہیں ہوئی ، بہرحال سی سی پی او کے بیان کا دفاع کرنے کا مطلب پولیس کی ذمہ داریوں اور نااہلی پر پردہ ڈالنا نہیں ہے۔

ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم کو روکے ، عوام کو تحفظ فراہم کرے ، عورتوں اور بچوں کی عزت سے کھیلنے والے درندوں کو کھلے عام پھانسی دے کر نشان عبرت بنائے کیونکہ معاشرے سے ڈر ختم ہوچکا ہے جہاں ریاست ماں جیسی شفیق ہو وہاں باپ جیسی سخت بھی ہونی چاہیے جہاں ہر شخص کو اپنی غلطیوں کو سزا ملنے کا بھی یقین ہوتا ہے اوروہ جرائم سے اجتناب کرتا ہے ۔