دنیا کی اولین فہرستِ کتب اور کتابوں کے اشاریے

September 23, 2020

مصر کے شہر اسکندریہ میں زمانۂ قدیم میں ایک عظیم کتب خانہ قائم تھا جس میں کالی ماخوس (Callimakhus) نامی ایک شخص ملازم تھا۔کالی ماخوس کا کام کتب خانے کے مشمولات کی فہرست بنانا تھا۔ ظاہر ہے کہ اُس زمانے میں ایسا کا غذ تو تھا نہیں جیسا آج کل ہے اور کتابیں ہاتھ سے پیپی رَس (papyrus) پر لکھی جاتی تھیں۔پیپیرس دراصل ایک پودا تھا جس کے گودے سے موٹا سا کاغذ بنایا جاتا تھا۔اس پودے اور کاغذ دونوں کا نام پیپیرس ہے۔ کالیماخوس شاعر، نقاد اوردانش ور تھا اورماہرین کا اندازہ ہے کہ اُس کا انتقال دوسو چالیس سال قبلِ مسیح کے لگ بھگ ہوا ہوگا۔ وہ نسلاً یونانی تھا۔

لیکن کالی ماخوس کی وجہِ شہرت اس کی تیار کردہ کتب خانہ ٔ اسکندریہ کی فہرست بھی ہے جو اس نے ایک سو بیس (۱۲۰)جِلدوں میں تیار کی تھی۔کالی ماخوس کی تیار کردہ اس فہرست کو دنیا میں کتابوں کا پہلا کیٹلاگ یعنی کتابوں کی پہلی توضیحی فہرست کہا جاتا ہے اور اسی فہرست کی وجہ سے بعد کے ادوارمیں قدیم یونانی ادب کی تاریخ پر تحقیقی کام میں آسانی ہوئی۔اگرچہ کالی ماخوس کی فہرست ِ کتب مکمل طور پر محفوظ نہ رہ سکی لیکن اس نے دنیا کو کتابوں کی فہرست تیار کرنے کا ایک راستہ ضرور دکھا دیا حالانکہ اس کے سامنے ایسا کوئی نمونہ بھی نہ تھا۔

جیمز ڈگلس پیئرسن

اسلامی دنیا میں کچھ ایسا ہی کام ابن ِ ندیم نے کیا۔ ابن ِ ندیم نے عربی کی کتابوں کا ایک ایسا اشاریہ یا اِنڈیکس (index) تیار کیا تھا جس میں کتابوں کے تعارف کے ساتھ مصنفوں کے مختصر حالات ِ زندگی اور مختلف علوم و فنون کی شاخوں کا تعارف بھی شامل تھا۔ ابن ندیم کی اس کتاب کا نام ’’کتاب الفہرست ‘‘تھا جو مختصراً ’’الفہرست ‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔یہ عربی زبان میں اس موضوع پر لکھی گئی پہلی کتاب ہے۔

ابن ِ ندیم وَرّاق تھا۔ ورّاق کا لفظ ورق سے ہے اور بظاہر یہ وَرَق بیچنے والا یعنی کاغذ فروش کے معنی میں ہے (لفظ وَرَق کا درست تلفظ رے پر زبر کے ساتھ ہے )لیکن وَرّاق جِلد ساز کو بھی کہتے تھے اور کتابیں ہاتھ سے لکھ کر فروخت کرنے والے کو بھی۔یعنی ورّاق کاتب کے مفہوم میں بھی ہے۔کتابوں کی تصحیح اورتدوین کرنے والے کو بھی وراق کہتے تھے اور سونے اور چاندی کوکُوٹ کر ورق بنانے والا بھی وراق کہلاتا تھا۔ لیکن ابن ِندیم ورّاق ان معنوں میں تھا کہ وہ کتابوں کی تصحیح اور کتابیں ہاتھ سے نقل کرکے (چونکہ چھپائی کا پریس تو تھا نہیں) بیچنے کاکام کرتا تھا جو اس زمانے میں باعزت پیشہ سمجھا جاتا تھا۔دراصل مسلمانوں کے نزدیک علم اور اس کا حصول بہت اہمیت رکھتے ہیں اور اسی لیے اس زمانے میں بغداد علم و فضل کا مرکز بن گیا تھا جہاں کئی کتب خانے تھے ۔ اسلامی دنیا میںہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں بہت عام تھیں اور کتابوں کی بہت قدر تھی ۔

محمد اسحٰق بھٹی نے لکھا ہے کہ ابن ِ ندیم کا پورا نام محمد بن اسحٰق بی یعقوب الندیم تھالیکن یہ ابن ِ ندیم کے نام سے معروف ہے۔ اس کی کنیت ابوالفتح اور ابوالفَرَج بھی تھی ۔یہ بغداد میں رہتاتھا اور باوجود اس کے کہ اس نے سیکڑوں کتابوںکے ناموں اور مصنفین کے کاموں نیزحالات ِ زندگی کو محفوظ کردیا خود اس کے مستند حالات ِ زندگی بمشکل دست یاب ہوتے ہیں۔ پنجاب یونی ورسٹی کے شائع کردہ تیئیس (۲۳) جِلدوں پر مبنی اردو انسائیکلو پیڈیا (اردو دائرۂ معارف ِ اسلامیہ) کے مطابق اس کا انتقال ۳۸۵ ہجری (۹۹۶۔۹۹۵ عیسوی) میں ہوا ۔ اس نے ’’الفہرست ‘‘ ۳۷۷ ہجری (۹۸۸۔۹۸۷ عیسوی)میں لکھی تھی۔

’’الفہرست ‘‘کی ایک اہمیت اور اختصاص یہ بھی ہے کہ ظہور ِ اسلام کے بعد ابتدائی چار صدیوں میں مسلمانوں نے عربی زبان میںجن علوم پر کتابیں لکھیں اور جو ادب تخلیق کیا ان کے مآخذات کو ابن ندیم نے موضوع وار درج کیا ہے۔ مصنفین کے حالات کے ساتھ ان کی کتابوں کے نام درج کیے ہیں۔ بعض اہم قلمی کتابوں کی مختلف نقول علما کے ذاتی کتب خانوں میں موجود تھیں اور ابن ندیم ان کی کتابیاتی تفصیل بھی دیتا ہے۔ ’’الفہرست ‘‘میں جن موضوعات اور علوم و فنون پر کتابوں اور مصنفین کے ناموں کا اندراج ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں: کتابت اور رسم الخط، لغت اور نحو، شعرا اور شاعری، علم ِ کلام اور متکلمین، فقہا اور محدثین، تاریخ و انساب، حساب و مہندسی و موسیقی، طب، کیمیا، مذہب۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ آٹھویں باب کے پہلے حصے میں ابن ندیم نے جہاں داستاں گوئی ، مصور ی اور نقاشی کا حال لکھا ہے وہاں اس باب کے دوسرے حصے میں شعبدہ بازوں ، جادوگروں،جھاڑ پھونک کرنے والوں ، تعویذ نویسوں اور طلسمات کے ماہرین کے بھی نام اور کام بتائے ہیں۔جِنّات کا تذکرہ بھی اس میں ملتا ہے۔

جن قارئین کو ابن ندیم کی اس کتاب سے دل چسپی ہے ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ’’الفہرست ‘‘ کا محمد اسحٰق بھٹی نے اردو میں نہایت محنت سے ترجمہ کیا ۔اس کے لیے انھوں نے عربی میںمطبوعہ مختلف نسخے سامنے رکھے اور مختلف ابواب کے آخر میں حواشی لکھ کرترجمے کی اہمیت اور افادیت میں اضافہ کردیا ۔بھٹی صاحب کے اس ترجمے کو ادارۂ ثقافت ِ اسلامیہ (لاہور) نے ۱۹۶۹ء میں شائع کیا۔ لیکن اس کے ۲۰۱۱ء کے ایڈیشن میںشامل کتاب کے تعارف( بعنوان پیش لفظ )کو ابتدا میں شامل کرنے کی بجاے ترتیب میں پہلے باب کے ایک حصے کے بعد رکھا گیا ہے ۔ تعارف یا پیش لفظ کے بعد کتاب کے پہلے باب کے بقیہ حصے کا آغاز ہوتا ہے۔اس عجیب ترتیب میں کوئی حکمت یا مصلحت ہے تو فہم سے بالا ہے اور یہ قاری کے لیے الجھن کا باعث ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ابن ندیم نے عرب اور اسلامی دنیامیںکتابوں کی فہرست سازی اور اشاریہ سازی کی جس علمی روایت کی بنیاد رکھی تھی اسے عالم ِ اسلام نے آگے نہیں بڑھایا اور اسلام اور اسلامی علوم و فنون سے متعلق کتابوں کی فہرستیں، مآخذات کی فہرستیں یا اشاریے بیسیویں صدی کے آغاز تک بہت کم تعداد میںمرتب کیے گئے۔ ہمیں لندن یونی ورسٹی کے شعبۂ مشرقی و افریقی مطالعات کے کتاب داراور ماہرِ ِکتابیات جیمز ڈگلس پیئرسن (James Douglas Pearson) کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے اسلام اور عالم ِ اسلام کے موضوع پرموجود مطبوعات کا ایک عظیم الشان اشاریہ بنایا ۔ انھوں نے کتابوں کے علاوہ علمی جرائد میں مطبوعہ تقریباً پچیس ہزار ایسے مقالات و مضامین کا اشاریہ بھی بنایاجو اسلام

اور اسلامی علوم کے موضوعات پر تھے اور جن کے بارے میں خطرہ تھا کہ نشان دہی نہ ہونے کے سبب محققین انھیں نظر انداز کردیں گے اور نئے محققین کو ان پر پھر سے کا م کرنا ہوگا جو بلاوجہ کی تکرار ہوگی۔ اس طرح انھوں محققین، اساتذہ اور طلبہ کا کام بہت آسان کردیا ۔

بعد ازاں دیگر ماہرین کی مدد سے جیمز ڈگلس پیئرسن کی ان فہرستوں کے ساتھ دیگر کتب خانوں کے اسلامی مآخذات کی فہرستیں بھی کمپیوٹر پر ضم کردی گئیں اور اس طرح اسلامی مطالعات کے مآخذات کا ایک عظیم اطلاعیاتی خزینہ (database) مرتب ہوگیا جسے انڈکس اسلامکس (Index Islamicus) کہا جاتا ہے۔ اس کی طباعت بھی عمل میں آئی اور یہ کمپیوٹر پر بر خط یعنی آن لائن (online) بھی دست یاب ہے۔

اس طرح کے مآخذات ، مطبوعات کی فہرستیں اور اشاریے یعنی اِنڈیکس محققین اور تحقیق کے طالب علموں کے لیے بہت کارآمد ہوتے ہیں اور وہ مطبوعہ کتب کی فہرستوں اور کتب خانوں کی فہرستوں کی چھانٹی سے بچ جاتے ہیں۔ افسوس کہ اردو میں اشاریوں اور فہرست ِ مطبوعات کو کماحقہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ البتہ اب پہلے کی نسبت اردو میں اشاریہ سازی کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔