اکتوبر: چھاتی کے سرطان سے آگاہی کا مہینہ

October 08, 2020

ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیز، ہر جگہ خواتین میں چھاتی کا سرطان (بریسٹ کینسر) سب سے عام مرض ہے جبکہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میںاس موذی مرض کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ باعث تشویش ہے۔ ان ممالک میں چھاتی کے کینسر میں مبتلا زیادہ تر خواتین کی ابتدائی مرحلے پر پتہ لگانے کے بارے میں شعور کی کمی اور صحت کی خدمات میں رکاوٹوں کی وجہ سے دیر سے تشخیص ہوپاتی ہے۔ ہر عورت میں اوسط عمر کے دوران چھاتی کے سرطان کا خطرہ 12فیصد پایا جاتا ہے۔

آگاہی کا مہینہ

چھاتی کے سرطان کے سدباب کیلئے دنیا بھر میںہر سال ماہ اکتوبر ’’چھاتی کے سرطان سے آگاہی کا مہینہ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پہلی مرتبہ 90کی دہائی میں چھاتی کے سرطان سے متعلق عوامی شعور اُجاگر کرنے کیلئے پنک ربن مہم کا آغاز کیا گیا۔ مہم کے تحت نیویارک میراتھن دوڑ میں شریک خواتین نے ’پنک ربن‘ پہن کر دوڑ لگائی تھی۔ اس کے بعد نیو یارک میں ایک فلاحی ادارہ تشکیل دیا گیا، جس کا مقصد چھاتی کے سرطان سے متعلق ہونے والی سائنسی تحقیقات اور عوامی سطح پر اس مرض کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کیلئے فنڈزاکٹھے کرناتھا۔ یہ ادارہ ہر سال اس مرضکی آگاہی فراہم کرنے کے لیےہم خیال لوگوں اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر پنک ربن موٹف استعمال کرتے ہوئےمہم چلاتاہے۔

مہم میں حصہ لینے والے اسپانسرز کو بھی پنک ربن استعمال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور جمع کیے گئے فنڈز کو چھاتی کے سرطان کی وجوہات،تشخیص ،علاج اور روک تھام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یکم اکتوبر کو ایوانِ صدر پاکستان میں بھی چھاتی کے سرطان کے حوالے سے شعور اُجاگر کرنے کیلئے ایک تقریب منعقد کی گئی تھی۔

چھاتی کا سرطان

جسم کے پٹھے چھوٹے خلیوں سے مل کر بنتے ہیںاور یہی خلیے اگربےقابو انداز میں بڑھنا شروع ہو جائیں اور ایک ڈھیر بنا لیں،تو یہ مرض سرطان بن جاتا ہے، جسے گلٹی (بریسٹ لمپس) کہا جاتاہے۔ یہ گلٹی یا رسولی سائز میں بڑھ سکتی ہے اور اس کی جڑیں چھاتی میں پھیل بھی سکتی ہیں، جس کے باعث چھاتی میں تکلیف اور ساخت میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ چھاتی کے اندر، باہر یا نیچے زخم بڑھ کر بعض اوقات کینسر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مریض اور مرض کی نوعیت کے مطابق یہ علامات مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔

چھاتی میں بننے والی گلٹی کو پولی سسٹک یا فائبرو سسٹک کہا جاتا ہے۔ اس کی شکایت25فیصد خواتین کو زندگی کے کسی مرحلے میں بھی ہو سکتی ہے، تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ایسی کئی گلٹیاں سرطان بننے کا باعث نہیں ہوتیں اور زیادہ تر غیر مضر ہوتی ہیں۔

تاہم ان گلٹیوں کی موجودگی میں چھاتی کے سرطان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ چھاتی کاسرطان بنیادی طور پر خواتین کو ہوتا ہےلیکن مردوں میں بھی اس سرطان کے خطرات پائے جاتے ہیں، جو کہ بہت نایاب ہے۔ یہ سرطان انفیکشن نہیں کرتا اور دوسروں میں منتقل نہیں ہو سکتا۔

دنیا بھر کی صورتِ حال

دنیا بھر میں خواتین کی کل آبادی کا16فی صد حصہ چھاتی کے سرطان کا شکار ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں چھاتی کا سرطان تقریباً20لاکھ خواتین کو متاثر کرتا ہے، جن میں سے تقریباً 15فیصد خواتین اس موذی مرض کے سبب موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر9میں سے ایک خاتون چھاتی کے سرطان کے خطرے سے دوچار ہے۔ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو ایشیائی خواتین میں چھاتی کے سرطان کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے۔

ملک میں ہر سال 90ہزار خواتین میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص ہوتی ہے جبکہ 40ہزار اس مہلک مرض کے باعث فوت ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد خواتین میں چھاتی کا سرطان ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ عام طور پر یہ مرض ایسی خواتین میں کم پایا جاتا ہے، جو بچوں کو 2سال کی عمر تک دودھ پلاتی ہیں۔ اگر صحت عامہ کے مناسب پروگرام ترتیب دیے جائیں توچھاتی کے سرطان کے پھیلاؤ کو کم کیا جاسکتا ہے۔

سرطان کی وجوہات

کچھ بنیادی باتیں ہیں جو چھاتی کے سرطان کا باعث بنتی ہیں۔ خواتین میں ہارمونز کا غیر متوازن ہونا چھاتی کے سرطان کی وجوہات میںسے ایک ہوسکتا ہے۔ جسم میں ایسٹروجن ہارمون کی زیادتی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ لڑکیوں کی تاخیر سے شادی یا زائد عمر میں بچے کی پیدائش بھی چھاتی کے سرطان کا سبب بن جاتی ہے لیکن جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں، ان میں چھاتی کے سرطان کی شرح 4فیصد کم ہو جاتی ہے۔

تقریباً 10فیصد چھاتی کا سرطان جینیاتی نقائص کی وجہ سے ہوتاہے، ان نقائص کی حامل خواتین میں اس مرض کے ہونے کے80فیصد امکانات ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ خواتین کا غیرصحت مندانہ طرزِ زندگی اور غیر متوازن خوراک بھی چھاتی کے سرطان کا سبب بن سکتی ہے۔

بچاؤ کے طریقے

اس بیماری کا جلد پتہ چلنا ہی اس کو روکنے اور علاج کا ذریعہ بنتا ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ اس مرض کی بنیادی معلومات سے آگاہ ہوں۔ لہٰذا، اس کیلئے خواتین کا خودتشخیصی عمل کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ انھیں پہلے گھر میں خود اپنا معائنہ کرنا چاہیے اور کوئی بھی غیر معمولی بات یا تبدیلی محسوس ہونے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ اگر چھاتی کے سرطان کا جلد پتہ چل جاتا ہے اور مناسب تشخیص اور علاج دستیاب ہوجائے تو اس بات کے قوی امکانات ہوتے ہیں کہ یہ بیماری ٹھیک ہوجائے۔

تاخیر سے پتہ چلنے کی صورت میںاکثر علاج معالجہ آپشن نہیں رہتا، ایسے معاملات میں تکلیف کی شدت کو کم کرنے کیلئے مریض کو دوا دی جاتی ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ چھاتی کے سرطان کیلئے اسکریننگ ٹیسٹ 40سال کی عمر میں شروع کیاجاتا ہے، تاہم سالانہ میموگرافی اور مرض کی بروقت تشخیص کے ذریعے اس مرض سے بچا جاسکتا ہے۔ معاشرے میں اس موذی مرض کے حوالے سے جتنی زیادہ آگہی ہوگی تو عین ممکن ہے کہ اس مرض سے ہونے والی اموات اور مرض کی شرح میں کمی آسکے۔