ایک اور حوا کی بیٹی نذرِ آتش!!

November 22, 2020

ضلع شہید بے نظیر آباد میں خواتین کو جلائے جانے کے تواتر سے ہونے والے واقعات نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے، جب کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین کو مزید سخت کرنے اور معصوم اور بھولی بھالی بچیوں اور خواتین کو جلا کر موت کی وادی میں دھکیلنے والوں کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ اسلام نے خواتین بچوں اور بزرگوں کو حقوق کے سلسلے میں سب سے زیادہ حقوق کو واضع کیا ہے،جب کہ جنگ کے دوران بھی انہیں نقصان نہ پہنچانے کا حکم دیا ہے، لیکن بدقسمتی سے ان واضع اسلامی تعلیمات سے روگردانی کے باعث اس طبقے کے خلاف تواتر سے پر تشدد واقعات رونما ہورہے ہیں۔

ایسا ہی واقعہ نواب شاہ کے قریب جام صاحب شہر میں پیش آیا، جہاں پولیس کے مطابق تیرہ سالہ نمرہ بنت مختیار رند کی برہنہ سوختہ نعش کھیتوں سے ملی، نمرہ کو برہنہ کرکے جلا کر ہلاک کیا گیا، جب کہ اس کے کپڑے جائے وقوعہ سے کچھ ہی فاصلے پرملے تھے۔ اس بارے میں پولیس کے مطابق نمرہ جو کہ شب کو گھر سے نکل کر گم ہوگئی تھی، اس کے والد مختیار رند نے پولیس کو بتایا کہ تیرہ سالہ نمرہ کی گمشدگی پر والد دو بھائی اور دیگر اہل خانہ کے علاوہ اس کا منگیتر اور دیگر رشتے دار بھی اسے رات بھر تلاش کرتے رہے، لیکن اس کا سراغ نہیں ملا۔ تاہم صبح کے وقت گوٹھ میر حسن رند کے قریب کھیتوں میں اس کی کپڑوں سے عاری لاش پڑی ملی ۔ اسے جلا کر ہلاک کیا گیا تھا۔

اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ نمرہ گھر سے باہر گئی اور ایسی گم ہوئی کہ اس کا پتہ ہی نہیں چلا اور رات بھر اس کی تلاش میں گاؤں کا کونہ کونہ چھان مارا، لیکن اس کا پتہ نہیں چلا۔ مختیار رند کا کہنا تھا کہ ہماری کسی سے دشمنی نہیں اور بچی کو جلا کر قتل کیا گیا ہے، اُدھر تھانہ جام صاحب کے ایس ایچ او آصف پیچوہو کا کہنا تھا کہ تیرہ سالہ نمرہ رند کو گھر سے لے جا کر کھیتوں میں برہنہ کرکے تشدد کرکے اس کو جلا کر نذر آتش کرکے ہلاک کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پولیس کے مطابق نمرہ کا مقدمہ اس کے کسی رشتے دار کی جانب سے درج نہ کرائے جانے کے باعث سرکار کی مدعیت میں درج کرایا گیا ہے۔ تاہم اس قتل کا ڈراپ سین اس طرح ہوا، جب ایس ایس پی شہید بے نظیر آباد تنویر حسین تنیو کے مطابق تیرہ سالہ نمرا کے قتل کا اقرار اس کے بھائی افتخار رند نے پولیس کو دیے گئے بیان میں کیا ۔

انہوں نے بتایا کہ افتخار کا کہنا تھا کہ اس کی بہن کے گاؤں کے ایک لڑکے سے ناجائز تعلقات تھے اور اس نے دونوں کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا، جس کے بعد اس کا کہنا تھا کہ میں نے بھی اپنی بہن کے ساتھ تین مرتبہ زیادتی کی اور قتل کی رات میں نے اس سے زیادتی کی کوشش کی تو اس نے مزاحمت کی اور گھر والوں کو سب کچھ بتانے کی دھمکی دی، جب کہ نمرا نے کہا کہ وہ اس سے قبل اپنے بوائے فرینڈ کو میرے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی آگاہ کر چکی ہے۔ ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے کہا کہ اس انکشاف کے بعد افتخار رند نے پولیس بیان میں بتایا کہ اس نے راز فاش ہونے کے خوف سے اپنی بہن کو جلا کر مار دیا اور نعش کو اٹھا کر کھیتوں میں پھینک کر والد بھائی اور رشتے داروں کے ساتھ تلاش شروع کردی۔

ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کے مطابق ملزم کے بیان کی روشنی میں مقتولہ نمرا کے موبائل فون کا کالز کی مدد سے اس کے آشنا اور دوستوں کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔ دوسری جانب پولیس نے کنزیمر کورٹ کی جج عمبرین بتول کی عدالت سے دو ہفتے کا جوڈیشل ریمانڈ لے کر تفتیش کا دائرہ وسیع کردیا ہے، جب کہ ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے اقبال وسان کی سربراہی میں اسپیشل انویسٹی گیشن تشکیل دی ہے ۔ دوسری جانب سول سوسائٹی کی جانب سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے نمرا رند کو جلا کر ہلاک کرنے کے خلاف پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں خواتین و بچوں نے بھی شرکت کی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ نمرا کے قاتل کو جو کہ اس کا سگا بھائی ہے، جس نے بہن کے رشتے کے تقدس کو پامال کیا ہے ، اسےسرعام پھانسی پر لٹکایا جائے تاکہ پھر کسی کو ایسی حرکت کی جرآت نہ ہوسکے ۔

تاہم یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی میں جب کہ آج مقابلے میں میڈیا اس قدر پراثر نہ تھا، ایسے واقعات کا رونما ہونا نہ ہونے کے برابر تھے، جب کہ اب صورت حال قدرے مختلف ہے۔ اس سلسلے میں دان شوروں اور مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ فحش فلموں اور مہذب اخلاق تصاویر اور وڈیوز نے نوجوان نسل کو بے راہ رو کردیا ہے اور جنسی تسکین کے لیے ہماری نسل غلط راہوں پر چل نکلی ہے اور جس طرح یورپی ممالک میں مادر پدر آزادی کے باعث نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے اسی روش میں ہماری نسل بھی مبتلا ہورہی ہے اور اگر اس کی سخت قوانین کے ذریعہ روک تھام نہ کی گئی تو خدشہ ہے کہ بچیوں کو جلائے جانے کے واقعات کو روکنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائے گا۔