وزیراعظم عمران خان نے لاہور سیالکوٹ موٹروے پر خاتون سے ریپ کے دل دہلا دینے والے سانحے کے بعد ایک نجی ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے ریپ میں ملوث مجرموں کو کیمیائی عمل کے ذریعے نامرد بنانے کی تجویز کی حمایت کی تھی۔ موجودہ حکومت نے اب ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو پانے کیلئے ایک قانون تشکیل دیا ہے جس کے تحت ریپ کے مجرموں کو اُن کی اجازت حاصل کرنے کے بعد نامرد بنایا جائے گا۔ وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم کی صدارت میں ہونے والے کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں جمعرات کے روز انسدادِ ریپ (انوسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس اور فوجداری قانون (ترمیمی) آرڈیننس کی منظوری دی گئی جسے وفاقی کابینہ پہلے ہی اصولی طور پر منظور کر چکی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر کیمیائی طریقے سے نامرد کرنے کا حکم مجرم کی رضا مندی کے بغیر دیا گیا ہو تو وہ اُسے عدالت میں چیلنج کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت ریپ کے مجرم کو سزائے موت، عمر قید یا 25سال تک قیدکی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ موجودہ حکومت ریپ کے مقدمات کی جلد سماعت اور خصوصی عدالتوں کے قیام کیلئے آرڈیننس بھی مجوزہ قانون کے ساتھ ہی پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں ریپ کے جرم میں سزا کی شرح محض دو فیصد ہے اور واقعات کی ایک بڑی تعداد تو رپورٹ ہی نہیں ہو پاتی۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ریپ سے منسلک معاشرتی بدنامی کا خوف جبکہ فارنزک شواہد جمع کرنے اور عدالتی نظام میں موجود خامیاں بھی اِس جرم کے فروغ کا باعث بن رہی ہیں۔ ایک اور اہم پہلو متاثرہ فریق پر صلح کیلئے دبائو ڈالنا بھی شامل ہے۔ موجودہ حکومت اگر سنجیدگی کے ساتھ اِس قانون کو نافذ کرتی ہے، جس کا مقصد اصل قصور وار کو سزا دینا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ریپ کے واقعات پر قابو پانا ممکن نہ رہے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998