مضبوط بندھن، منٹوں میں ختم

December 04, 2020

روبینہ ناز

شادی جس قدر پیارا اور مضبوط بندھن ہے ،اس سےزیادہ نازک بھی ہے ۔ہلکی ہلکی ضربیں بھی اس کی مضبوط ڈور کو ناقابل تلاقی نقصان پہنچادیتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس بند ھن کو توجہ ،محبت اور خلوص کی بہت زیاد ہ ضرورت ہوتی ہے ۔لیکن خوب صورت بند ھن کو ختم کرنے اور بگڑنے میں لوگ ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے ۔اس کا ایک بڑا ناسور طلاق ہے ۔اس سے عرش الہی بھی کانپ جا تا ہے ،مگر آج کل لوگ طلاق بہت آرام سے دےدیتے ہیںجیسے یہ کوئی بہت آسان کام ہے ۔

آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟آج کل اس کی شر ح اتنی زیادہ کیوں بڑھ گئ ہے ؟جو رشتہ اتنی خوشی اور چاہ سے طے کیا جاتا ہے۔ اس کو اتنی آسانی سے کیسے ختم کردیا جا تا ہے ۔اگر چند سال پہلے کا مشاہدہ کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں اس لفظ کو بہت معیوب سمجھا جا تا تھا ۔پہلے کسی خاندان میں طلا ق کا سانحہ ہوتا تھا تو پورا خاندان دہل جاتا تھا ۔یہ خبر سنتے ہی لوگ حیرت وتاسف میں مبتلا ہو جاتے تھے ،مگر اب آئے دن اس کے قصے سننے کو ملتے ہیں ۔

طلاق ہو جانا اب عام سی بات ہو گئی ہے ۔لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اس کے تناسب میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔جو ہمارے معاشرے میں برائی کو مزید بڑھا رہا ہے ۔ اور اس بات کو ہم بالکل بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں ۔ہمیں اس نکتے پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے ،جس کی وجہ سے طلاق جیسی برائی دیمک کی طر ح لوگوں کے سکون کو چاٹ رہی ہے ۔

ہمیں چاہیے کہ ہم طلاق کے اسباب پر غور کریں ،اس کا سب سے اہم سبب دین اسلا م سے دوری ہے ،جس میںآج کل بہت زیادہ ہی اضافہ ہو رہا ہے ۔اس کے بعد دیگر وجوہات آتی ہیں۔ کاش! ذرا توجہ اس طرف بھی ہوتی کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو دین سے آشنا کیا جاتا۔ کاش لڑکے اور لڑکی کو ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا جاتا مثلاً: زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہے ؟ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟ شادی کا مطلب کیا ہے ؟ ،شادی کا مقصد کیا ہے؟ اس رشتے کو نبھانا کتنا ضروری ہے ؟

وغیرہ وغیرہ۔میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور بھروسے کی بنیاد پر قائم رہتا ہے جب کبھی دونوں میں اعتماد اور بھروسے کی بنیادیں ہلتی ہیں تو اس رشتے کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہے اور یہ رشتہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔عدم برداشت بھی طلاق کا ایک اہم سبب ہے۔اور اب تو جیسے برداشت کا مادّہ لوگوں میںسے ختم ہو تا جارہا ہے ۔رشتہ ختم ہونے کی بنیادی وجوہات میں گھریلو نا چاقی بھی شامل ہے ۔

قربانی دینے کے عزم میں کمی،زبردستی شادی،مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت،سماجی اسٹیٹس،حرص و ہوس،بیوی یا شوہر کا شکی مزاج ہونا، پسند کی شادی، ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے اثرات،معاشی مسائل،شوہر یا بیوی کی خراب عادتیں طلاق کے اضافے کا سبب بن رہی ہیں ۔طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں مادیت پرستی، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا،بے اعتمادی، دیگر لوگوں کی میاں بیوی کے معاملات میں بے جا مداخلت اور دوسروں کی باتوں پر بلا تصدیق یقین کرلینا شامل ہیں۔

طلاق خانگی زندگی کی تباہی کے ساتھ سب سے زیادہ اولاد کو متاثر کرتی ہے ۔طلاق کی آگ کی لپیٹ میں دو خاندان بری طرح جلتے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ اگر کسی کی بیٹی یا بیٹے کی کسی بھی وجوہات کی بنا ء پر طلاق ہوجائے تو کوئی بھی گھر وہاں اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنے کے لیے راضی نہیں ہوتا ۔لڑکی دینداراور پاکباز ہے تو ٹھیک ورنہ نفسانی خواہش کی تکمیل متعلقہ عورت کو برائیوں کے دلدل میں ایسا پھینک دیتی ہے جہاں نہ اسے اپنی عزت کاخیال ہوتاہے اور نہ ہی خاندان کی آبرو کا۔حیران کن بات یہ ہے کہ بچوں کے بعد بھی معمولی معمولی وجوہات کی بنا پر علحیدگیاں ہورہی ہیں ، بعد ازاںعورت اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاتی ہے ،مرد بھی نئی زندگی شروع کردیتاہے، متاثر ہوتی ہے صرف اولاد۔

جو کبھی کسی کے ہاتھوں پلتی ہے اورکبھی کسی کے۔طلاق جیسا قدم اٹھانے والے لمحے بھر کے لیے بھی اس نکتے پر غور نہیں کرتےکہ نتیجتاً اْن کے بچوں کی زندگی ہی تباہ ہوجاتی ہے اور وہ کبھی نہ ختم ہونے والی احساس کمتری اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔بچپن میں والدین کی شفقت سے محرومی بچوں کو مختلف برائیوں کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتی ہے۔ایسے بچے معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے، عدم توازن اور عدم تحفظ کاشکار ہوجاتے ہیں،اْن کی تعلیمی اورمعاشرتی کارکردگی متاثرہوتی ہے اوراُن میں اعتماد اور خودداری کافقدان رہتاہے ،جس کے سبب ان کو معاشرے میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا ہر ایک میں کچھ خامیاں اور خوبیاں ضرور ہوتی ہیں ۔چناں چہ خوش گوارزندگی گزارنے کے لیے آرام وسکون ،پیار ،محبت اور ٹھنڈے دل و دماغ سے ایک دوسرے کی خامیوں، کوتاہیوں کو نظر انداز کرکے ،خوبیاں اور اچھائیاں تلاش کرنی چاہئیں۔ایک پرسکون زندگی کے لیے عورت کے ساتھ ساتھ مرد کو بھی صبرو تحمل سے کام لینا چاہیے۔

یہ تاثر غلط ہے کہ گھر صرف عورت بناتی ہے، جب میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہئیے تصور کیا جاتا ہے تو دونوں کو مل کر گھر بنانے اور بچانے کی کوشش کرنی چاہیے، عورت کو بھی چاہیے کہ وہ تحمل سے کام لے۔سب سے پہلے تو میاں بیوی کو اپنے مسائل کی نشاندہی خود کرنی چاہیے اور اس کا حل جہاں تک ممکن ہو خود سوچنا چاہیے بجائے اس کے کہ کوئی تیسرا شخص ان کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔طلاق کی شرح کو کم کرنے کے لئے سمجھوتہ اور قوت برداشت پیدا کرنی چاہئے۔ باہمی رواداری اور میاں بیوی کے درمیان سمجھوتہ طلاق کی شرح کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔شادی کوئی زبردستی کا رشتہ نہیں ہے بلکہ یہ تو پیار ومحبت میں گوندھا ہوا بہت ہی حسین رشتہ ہے ۔

بدقسمتی سے مغربی تہذیب کے اثرات اور مادر پدر آزاد معاشرے کی اندھی تقلید کی وجہ سے ہمارے ہاں ماضی کے مقابلے میں طلاق کی شرح خطرناک حدتک پہنچ کر ایک سماجی مسئلہ بن چکی ہے جو ہمارے اسلامی معاشرے میں موجود آئیڈیل خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے،لہٰذا ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اسلام کے قانونِ طلاق کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کرنے کی سعی کی جائے ،تاکہ اس کا ناجائز استعمال روکا جا سکے اور فرد ،خاندان اور معاشرے کو بہت سے سماجی مسائل اور الجھنوں سے بچایا جاسکے،اس کام کے لیے معاشرے کے حساس اور ذمہ دار طبقات کو خصوصی توجہ دینے اور اس کے اسباب کا جائزہ لے کر تدارک کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

یاد رکھیں طلاق ایک ناپسندیدہ فعل ہے، جس معاشرے میں طلاق کی کثرت ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ معاشرہ اپنی فطری زندگی کے راستے سے بھٹک گیا ہے۔اور وہاںبرائی نے غلبہ پالیا ہے ۔ہمیں کوشش کرنی چاہیے اس برائی کو ختم کرنے کے لیے اپنے اندر برداشت ،صبر ،خلوص ،رشتے بنھانے کا جذبہ اور محبت پیدا کریں ،تا کہ یہ خوب صورت رشتہ تا حیات قائم ودائم رہے ۔