منشیات کی کُھلے عام فروخت

January 05, 2021

انسانی ذہن کو سکون پہچانے کے لیے مختلف النوع اقسام کے نشے ایجاد ہوتے رہے ہیں ۔ ان میں افیون، چرس اور شراب سر فہرست ہیں۔ تاہم پوست کے ڈوڈوں سے پائوڈر بنا کر اسے ہیروئن کا نام دیا گیا ۔ پاکستان میں اس کی قیمت لاکھوں روپے کلو جب کہ بیرون ملک ایک کلو کروڑوں روپے میں بکتی ہے۔ اب منشیات کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر جو کوششیں کی گئی ہیں۔ ان کے مثبت اثرات آنا شروع ہوگئے ہیں اور بڑے شہروں کے علاوہ دیہات میں بھی ہیروئینچیوں کے جو جمگھٹے نظر آتے تھے۔ ان میں کمی واقع ہورہی ہے ۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ ہیروئین فروخت کرنے والوں کے خلاف دفعہ 9 سی اینٹی نارکوٹکس ایکٹ کارروائی ہوگی جس کی سزا عمر قید یا سزائے موت ہے۔

تاہم راتوں رات کروڑ پتی بننے کی خواہش رکھنے والے اب بھی اس کاروبار کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔دوسری جانب چرس کا نشہ معاشرے میں فیشن بنتا جارہا ہے ۔اس کی ترسیل بھی سندھ کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں جاری ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ محکمہ ایکسائز کی جانب سے منوں اور ٹنوں کے حساب سے برآمد گی کی خبریں اب متروک ہوگئی ہیں اور کئی کئی ماہ تک ایکسائز پولیس کی منشیات پکڑنے کی رپورٹ سامنے نہیں آتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ ایکسائز سندھ میں مبینہ طور پر سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی بھرتی نے محکمے کے کارکردگی کو صفر کردیا اور ناتجربہ کاری اور چشم پوشی کے باعث چرس اور ہیروئن کی اسمگلنگ کی روک تھام میں کام یابی نہیں ہوئی ہے۔

طلبہ کی کثیر تعداد اس لت میں مبتلا ہورہی ہے، جب کہ نشے کی عادی ہوتی جارہی ہے، جب کہ اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جارہا ہے۔یونی ورسٹیوں میں طلبہ و طالبات چرس بھری سگریٹ کے لمبے کش لے کر دھوئیں کے مرغولے چھوڑتے دکھائی دیتے ہیں ۔اساتذہ کا اس سلسلے میں کہناہےاکثر طلباء پیسے کے بل پر یونی ورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں، کیوں کہ یونی ورسٹی میں سیلف فنانس اسکیم کی سیٹیں شامل ہیں اور کچھ طلبہ جو اسکول کے زمانے سے ہی سگریٹ اور منشیات کی مختلف اقسام کے عادی ہوچکے ہیں۔ یونی ورسٹی کے آزاد ماحول کا فائدہ اٹھا کر دوسروں کو بھی اس بُری عادت میں مبتلا کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔ شراب نوشی بھی فیشن بنتی جارہی ہے اور اس کے نتیجے میں بے راہ روی کے مناظر بھی عام ہوچکے ہیں ۔

جنگ کے سروے کے مطابق نواب شاہ شہر کی غلام حیدر شاہ کالونی میں کچہری روڈ پر قائم شراب کی دوکان کے سامنے خریداروں کے ہر وقت کے ہجوم اور کم عمر نوجوان میں شراب نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث والدین کے احتجاج کے نتیجے میں ممبر صوبائی اسمبلی طارق مسعود آرائیں نے شراب کی دوکان کی سامنے کئی بار عوام کے ساتھ مل کر احتجاج کیا اور دوکان کی منتقلی کی کوشش کی۔

تاہم ان کی کوششیں بارآور تو ثابت ہوئیں مگر اب غلام حیدر شاہ کالونی میںدوسرے مقام پر جہاں وائن شاپ منتقل ہوئی ہےوہاں سر شام سے ہی دوکان پر گاڑیوں کی آمدو رفت شروع ہوجاتی ہے اور شراب کی خریداری کرنے والوں میں ادھیڑ اور بڑی عمر کے لوگوں کی تعداد انتہائی کم جبکہ بڑی تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شراب غیر مسلموں کے کوٹے کے نام پر فروخت ہوتی ہے جس کے خریدار زیادہ ترمسلمان ہیں جبکہ کرسچن اور ہندوؤں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

اس سلسلے میں ہندو کمیونٹی اور کرسچن رہنماؤں نے ضلعی انتظامیہ کو بار بار درخواستیں بھی دی ہیں کہ ان کے مذہب میں شراب حرام ہے اس لئے ان کے نام سے جاری کوٹہ میں شراب کی فروخت کو ختم کیا جائے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی ۔شہر کے گنجان آباد علاقے مارکیٹ روڈ پر بھی شراب کی غیر قانونی دوکانیں گھروں میں قائم ہیں جہاں دن ڈھلے ہی شراب کے خریدار جن میں طالب علم اور ایسے شرابی شامل ہیں جو کہ معاشرے کے خوف سے چھپ کر شراب نوشی کرتے ہیں خریداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس بارے میں مقامی رہائشی شمس الدین ملک نے جنگ کو بتایا کہ شراب کی ترسیل کا طریقہ کا ریہ ہے کہ گاڑیوں اور موٹر سائیکل پر گاہک آتے ہیں جنہیں اندھیرے میں کھڑا سائیکل سوار اٹینڈ کرتا ہے اور ان سے شراب کے آڈر اور رقم لے کر دیوان محلے میں گلیوں میں جار اسٹاک کی شراب کی بوتلیں کجھور کی ٹوکری میں رکھ کا گاہک کو دے دیتا ہے اور اس طرح تمام گاہکوں کو نمٹایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔

طلباء کو منشیات کی دلدل سے نکالنے کے لیے اساتذہ نے والدین سے رابطہ کیا ہےجبکہ بعض اطلاعات کے مطابق کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں سیکورٹی اسٹاف کو بھی الرٹ کیا گیا ہے تاکہ وہ ایسے طلبہ جو منشیات کی لعنت میں مبتلا ہورہے ہیں ان کی گوشمالی کرکے انہیں اس قبیح عمل سے روکا جا سکے۔