جب منٹو نے مجید امجد سے اپنے بارے میں تاثرات لکھنے کو کہا

January 18, 2021

اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی66 ویں برسی منائی جارہی ہے، اردو ادب کے چاہنے والوں کیلئے اسی مناسبت سے ان کے ایک خط کے حوالے سے یہاں بات کی جارہی ہے جو انہوں نے اپنے تاثرات پوچھتے ہوئے مجید امجد کو لکھا تھا۔

مجید امجد کا شمار اردو کے اہم نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی نظمیں اپنے موضوعات ہی کی وجہ سے منفرد نہیں بلکہ ان کا تخیل اور تخلیقی جوہر ان کی شاعری کا حسن ہیں اور انہیں‌ اپنے عہد کے دیگر شعرا میں نمایاں کرتے ہیں۔

منٹو، مجید امجد کے نام خط میں بعد سلام لکھتے ہیں کہ ’ آج آپ کو ایک تکلیف دے رہا ہوں، فوراً قلم اٹھائیے اور نظم یا نثر میں میرے متعلق جو تاثرات آپ کے دماغ میں آئیں کاغذ پر منتقل کردیجئے۔ یہ فوری طور پر ہونا چاہئے۔‘

منٹو نے بتایا کہ ’میں ایک عجیب و غریب قسم کی چیز مرتب کررہا ہوں جس کا نام ’ناخن کا قرض ہے۔ اس کا اول تا آخر منٹو سے متعلق ہے۔‘

مختصر خط کے آخر میں منٹو نے مجید امجد سے جلد لکھنے کا کہتے ہوئے کہا کہ ’میں واپسی ڈاک میں آپ کے تاثرات کا منتظر رہوں گا۔‘

مجید امجد نے ایک نظم ’منٹو‘ کہی تھی جس سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ مجید امجد نے یہ نظم منٹو کی خود کی فرمائش پر کہی تھی۔

’منٹو‘

میں نے اس کو دیکھا ہے

اجلی اجلی سڑکوں پر، اک گرد بھری حیرانی میں

پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں

جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے

’دنیا! تیرا حسن، یہی بد صورتی ہے‘

دنیا اس کو گھورتی ہے

شور سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے

انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال

کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں کا جال

بام زماں پر پھینکا ہے

کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پر پیچ دھندلکوں میں

روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز محلکوں میں

لے آیا ہے یوں بن پوچھے اپنے آپ

عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ

کون ہے یہ گستاخ

تاخ تڑاخ!

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 11 مئی کو مجید امجد کی برسی منائی جاتی ہے جبکہ مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا یومِ پیدائش بھی یہی ہے۔